مدر ٹریسا:مسیح کی بابرکت بھیڑ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز
پوپ جان پال نے ویٹی کن کے سینٹ پیٹرز سکوائر میں اجتماعی دعا میں مدر ٹریسا کو ‘بابرکت’ شخصیت قرار دیا،عیسائیت میں سینٹ(ولی)کے مرتبے پر فائز ہونے کے مراحل میں یہ ‘سعادت ابدی’ آخری مرحلہ ہے۔
“بھائیو اور بہنو!اس دور میں بھی خدا اولیا کو جنم دیتا ہے جن میں سے کچھ لوگ خود کو وقف کر دیتے ہیں جیسا کولکتہ کی مدر ٹریسا نے کیا،جنہیں آج ہم ان لوگوں میں شامل کر رہے ہیں جن پر خدا نے اپنی رحمت اور برکت نازل کی”۔ 2003ء میں پاپائے روم جان پال دوم اس شخصیت کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے جس نے بھارت کے شہر کولکتہ میں نادار لوگوں کی خدمت کے لیے زندگی بسر کر دی۔پوپ جان پال نے ویٹی کن کے سینٹ پیٹرز سکوائر میں اجتماعی دعا میں شریک لاکھوں زائرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مدر ٹریسا کو ‘بابرکت’ شخصیت قرار دیا۔عیسائیت میں سینٹ(ولی)کے مرتبے پر فائز ہونے کے مراحل میں یہ ‘سعادت ابدی’ آخری مرحلہ ہے۔ 4 ستمبر 2016 ء کو پوپ فرانسس نے ویٹی کن میں منعقدہ تقریب میں مدر ٹریسا کو ولی کے درجے پر فائز کیا۔سینٹ پیٹرز سکوائر میں لاکھوں لوگ اجتماعی دعا کی تقریب میں شریک ہوئے۔ کارڈینل اینجلو اماٹو نے مدر ٹریسا کے حالات زندگی کا مختصر جائزہ لیا۔پوپ نے لاطینی زبان میں دعا کی اور کہا کہ ‘‘ہم کولکتہ کی بابرکت مدر ٹریسا کے سینٹ ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں ان لوگوں میں شامل کر رہے ہیں جنہیں سینٹ کا اعزاز مل چکا ہے۔یہ فرمان بھی جاری کیا جا رہا ہے کہ اس حیثیت میں پورا چرچ ان کا احترام کرے گا’’۔
خلافت عثمانیہ سے کولکتہ کی جھونپڑیوں تک کا سفر
آمروں سے عطیات وصول کرنے،ضرورت مندوں کا مذہب تبدیل کرانے،سخت گیر کیتھولک ہونے اور دوزخ کا فرشتہ جیسے الزامات و القابات سے بے نیاز مدر ٹریسا نے کولکتہ کی جھونپڑیوں کے نادار باسیوں کے لیے زندگی کھپا دی اور بے شمار اتار چڑھاؤ آنے کے باوجود دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کا اپنے حصے کا فرض ادا کیا۔سینٹ آف دی گٹر کے نام سے معروف مدر ٹریسا کا نام ایگنس گون کابوہیک یو ہے جو 1910 ء میں موجودہ مقدونیہ کے دارالحکومت سکوپئی میں پیدا ہوئیں۔اس وقت مقدونیہ نام کا کوئی ملک موجود نہیں تھا اور یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔البانوی تاجر گھرانے میں پیدا ہونے والی مدر ٹریسا کی تربیت سخت کیتھولک عقیدے کے مطابق کی گئی۔18 سال کی عمر میں وہ نوجوان لڑکیوں کے لیے مختص آئرش ‘آرڈر آف لوریٹو’ مشن میں شامل ہو گئیں۔ 1929 ء میں بھارت کا رخت سفر باندھا اور دارجلنگ میں قیام کیا۔ کچھ عرصہ بعد کولکتہ کے سینٹ میریز ہائی سکول میں بچوں کو پڑھانا شروع کیا لیکن سکول کی چار دیواری کے ساتھ موجود جھونپڑیوں میں گوناگوں بیماریوں میں بلکتے اور سسکتے لوگوں نے ان کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا اور انہوں نے روایتی مذہبی خدمات انجام دینے کے بجائے بے کس انسانوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ 1950 ء میں پوپ پائیس دوازدہم کی اجازت کے بعد انہوں نے12 ساتھیوں کے ساتھ مل کر ‘مشنریز آف چیرٹی’ کی بنیاد رکھی جسے ویٹی کن نے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔آج یہ ادارہ دنیا کے 133 ملکوں میں 5600 کارکنوں کے ساتھ کام کر رہا ہے جبکہ ہزاروں رضاکار ہیں جو اپنی مرضی سے خدمات دے رہے ہیں۔ مدر ٹریسا کے مشن کا حصہ بننے کی خواہش رکھنے والوں کو غریبانہ طرز زندگی،فرمانبرداری،تجرد اور ساری زندگی غریبوں کے لیے وقف کرنے کے چار عہد کرنا پڑتے تھے۔ مریضوں کی بستیاں،غریبوں کے لیے باورچی خانے، سکول،یتیموں کے لیے گھر اور ہسپتال ایسی خدمات انجام دینے والی مدرٹریسا نے جلد ہی اپنا کام دنیا کے کئی ملکوں تک پھیلا دیا۔ انہوں نے کئی ایسے افراد کو نئی زندگی سے ہمکنار کیا جنہیں ڈاکٹر مرض الموت میں مبتلا قرار دے چکے تھے۔سسکتی انسانیت کی بے لوث خدمت کے اعتراف میں انہیں 1979 ء میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔نوبیل انعام ملنے کے بعد اپنی تقریر میں مدر ٹریسا نے غربت سے لڑنے کیلئے برتھ کنٹرول پر یقین رکھنے والوں کو واشگاف الفاظ میں کہا کہ ‘‘یہ ماں کی جانب سے براہ راست قتل ہے’’۔ مدر ٹریسا نے انتھک جذبے سے اپنا کام جاری رکھا، 1990ء میں ان کی صحت گر گئی تاہم اس کے باوجود وہ مصروف رہیں۔ 1997 ء میں ان کے بوڑھے کاندھے بوجھ سہارنے کے قابل نہ رہے تو ان کی جگہ سسٹر نرملا نے ادارے کی سربراہی کے فرائض سنبھال لیے، اسی سال ستمبر میں مدر ٹریسا کا انتقال ہو گیا۔مسیح کی گم شدہ بھیڑ اپنے چرواہے کے پاس لوٹ گئی۔اگرچہ انہی دنوں لیڈی ڈیانا کی جوانمرگی کا سانحہ بھی پیش آیا تھا جو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر چھایا رہا لیکن مدر ٹریسا کی جدائی نے لوگوں کے دلوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
بوڑھی راہبہ کے معجزے
کیتھولک چرچ کی جانب سے کسی شخصیت کے روحانیت کے اعلیٰ درجے پرفائز ہونے کے لیے کم سے کم دو معجزوں کا تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ پاپائے روم کی جانب سے شرعی اجازت نامے کے بعد مدر ٹریسا کو ولی قرار دینے کا عمل ان کے انتقال کے محض دو سال بعد ہی شروع ہو گیا تھا جبکہ عمومی طور پر اس کے لیے کسی شخصیت کے انتقال کے بعد چھ سال کی مدت گزرنا ضروری ہوتی ہے تاکہ اس معاملے میں کسی قسم کے جذبات کا عمل دخل نہ ہو سکے۔پوپ جان پال نے 2003 ء میں مدر ٹریسا سے منسوب پہلے معجزے کو مستند تسلیم کیا جس کے بعد انہیں ’بابرکت‘ شخصیت قرار دیا اور ان کے لیے سعادت ابدی کا اعلان کیا۔پوپ نے فیصلہ دیا کہ پیٹ کی رسولی میں مبتلا ایک بھارتی عورت کو ملنے والی شفا خدا کے ساتھ ساتھ مدرٹریسا کی ملکوتی مداخلت کا نتیجہ تھی۔ کولکتہ سے 400 کلومیٹر دور واقع گاؤں کی رہائشی مونیکا بسرا نے 1998ء میں دعویٰ کیا تھا کہ اس کے معدے میں موجود رسولی مدر ٹریسا سے دعا کی بدولت ٹھیک ہو گئی تھی۔مونیکا کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی طرح نہیں بتا سکتا کہ آخر مونیکا کے معدے کی رسولی کس طرح صحیح ہوئی۔اس معاملے پر کئی ہفتوں کی تحقیقات کے بعد ویٹی کن نے اسے معجزہ قرار دے دیا۔ مونیکا کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نے بعد میں اپنے بیان سے پھرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا بلکہ مونیکا علاج سے ہی صحت یاب ہوئی تھی۔پوپ جان پال دوم کے بعد موجودہ پاپائے روم فرانسس نے مدرٹریسا کا دوسرا معجزہ بھی تسلیم کر لیا جس کے بعد ان کے سینٹ بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔ اس معجزے میں برازیل کا ایک شہری مارسیلیو حداد اینڈرینو دماغ میں کئی رسولیاں ہونے کے باوجود ناقابل توجیہہ طور پر ٹھیک ہو گیا تھا۔ ویٹی کن نے تسلیم کیا کہ مدر ٹریسا نے دماغ میں متعدد رسولیوں والے شخص کو اپنی دعا سے شفایاب کر دیا تھا۔
عیسائیت میں ولایت کے مراحل
عیسائیت میں ولی قرار دینے سے مراد زمین پر اس شخص کی بابرکت زندگی اور موت کے بعد خدا سے اس کی ہم آہنگی کو تسلیم کرنا ہے۔بیسویں دہائی کے نصف دوم سے اب تک مدرٹریسا 640 ویں ولی ہوں گی۔دور جدید میں پاپائے روم کی جانب سے بڑی تعداد میں مختلف شخصیات کو اولیا قرار دیا گیا۔ دور قدیم میں،تاہم ایسا نہیں ہوتا تھا اور چیدہ چیدہ شخصیات ہی ولی کے مرتبے پر فائر ہوتی تھیں۔محتاط اندازوں کے مطابق بھی گزشتہ 375 سالوں میں صرف 218 افراد ہی ولی قرار پائے ہیں۔عیسائیت میں ہر ولی قرار دینے والی شخصیت کے لیے تمام مراحل طے کرنا ضروری نہیں۔ بعض عبقری شخصیات جیسا کہ پیٹر اور پال کو بغیر کسی تردد اور تنقید کے ہی ولی قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ بھی لازم نہیں کہ ہر پوپ ولی کے درجے پر فائز ہو، صرف 30 فیصد پوپ ہی روحانیت کے اس اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ سکے ہیں۔ 1234 ء میں پوپ گریگوری ہشتم نے ولی قرار دینے کے اصول و ضوابط طے کیے اور متعلقہ شخصیت کے معجزوں اور دیگر معاملات کی تصدیق کا اصول بنایا۔کسی کو ولی قرار دینے کا عمل بالعموم اس کی موت کے چھ سال بعد شروع کیا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کے جذبات آڑے نہ آئیں۔تاریخ میں متعدد عظیم شخصیات کو چرچ نے صدیوں بعد ولی قرار دیا؛ سینٹ بید کو گیارہ سو سالوں بعد ولی کے مرتبے پر فائز کیا گیا تھا۔عیسائیت کی تاریخ میں مدرٹریسا پہلی خاتون ہیں جنہیں اس معاملے میں خاص استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں متعلقہ شخصیت کے علاقے کا بشپ اس کے افعال اور کردار کے متعلق ثبوت اور شواہد اکٹھے کر کے پوپ کو ارسال کرتا ہے اور اگر یہ ثبوت کافی ہوں تو پھر پوپ ویٹی کن میں کارڈینلز کی کونسل کو ولی قرار دینے کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اس مرحلے میں متعلقہ شخصیت کو ‘خدا کا نوکر’ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ کونسل کی جانب سے تصدیق کے بعداس معاملے کو پوپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو تصدیق کرتا ہے کہ متعلقہ شخصیت نے اپنی زندگی اچھے اور بامقصد طریقے سے بسر کی۔ اس مرحلے پر اسے ‘باوقار بزرگ’ کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس شخصیت کو بابرکت قرار دینے کے لیے ایک معجزے کا تسلیم کیا جانا ضروری ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ معجزہ اس شخص کی موت کے بعد واقعہ ہوا ہو جو اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ جنت میں ہے اور اس کے بابرکت ہونے کے وجہ سے یہ معجزہ ہوا۔ اس مرحلے میں صرف شہدا کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ایک معجزہ تسلیم کیے جانے کے بعد اس شخصیت کو ‘بابرکت’ قرار دے دیا جاتا ہے۔آخری مرحلے میں دوسرے معجزے کا ہونا ضروری ہے تاکہ اسے ولی قرار دیا جا سکے۔دوسرا معجزہ تسلیم کیے جانے کے بعد پاپائے روم ویٹی کن کے سینٹ پیٹرز سکوائر میں اجتماعی دعا کراتے ہیں جس میں متعلقہ شخصیت کو ولی قرار دے دیا جاتا ہے۔
مسیح کی بچھڑی ہوئی بھیڑ
مدرٹریسا نے زندگی بھر اپنے عمل سے ثابت کیا کہ کلیسا محض ایک مذہبی ادارے سے کہیں زیادہ اہم اور ہمہ گیریت کا حامل ہے۔جھونپڑیوں میں رہنے والے انسانوں کے لیے متحرک بوڑھی راہبہ کی زندگی الزامات اور تنقید کی زد میں ہی رہی۔ اسقاط حمل کے حوالے سے مدرٹریسا کے سخت نظریات تو متنازع قرار دیے گئے ہی تھے لیکن آمروں کی جانب سے کھلی رضامندی کے ساتھ امداد وصول کرنے پر بھی انہیں نشانہ بنایا گیا۔ان پر الزام تھا کہ وہ ضرورت مندوں کا مذہب تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ بھارت میں انتہاپسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ برس ایک تقریب میں الزام لگایا تھا کہ ‘‘مدرٹریسا کی خدمات اچھی رہی ہوں گی لیکن ان میں ایک مقصد چھپا ہوتا تھا کہ جس کی خدمت کی جا رہی ہے اس کو عیسائی بنایا جائے’’۔مدر ٹریسا کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر اروپ چترجی کے مطابق مدر ٹریسا غریبوں کی مدد کرنے کی دعویدار تھیں لیکن ان کا اصل کام کیتھولک چرچ کے ایجنڈے کا فروغ تھا اور ان کے خیراتی اداروں میں بے سہارا افراد کو عیسائی بنایا جاتا تھا، راہبائیں مریضوں کو ٹیکے لگانے کے لیے استعمال شدہ سرنجیں استعمال کرتی تھیں اور وہاں غیر صحت مند ماحول ہوتا تھا۔ ڈاکٹر چترجی کا موقف ہے کہ مدرٹریسا کے خلاف اس لیے بات نہیں کی جاتی کیونکہ رابندر ناتھ ٹیگور کے بعد انہوں نے ہی بھارت کو دوسرا نوبیل انعام دلوایا۔ امریکی ادیب کرسٹوفر ہیچنز نے بھی مدرٹریسا پر کڑی تنقید کی اور انہیں ‘دوزخ کا فرشہ’ تک قرار دے ڈالا۔کرسٹوفر نے موقف اپنایا کہ مدر ٹریسا ایک مذہبی بنیاد پرست ہیں جن کے سیاسی عزائم ہیں۔ 1994 ء میں معروف پروڈیوسر طارق علی نے کرسٹوفر کے ساتھ مل کر مدر ٹریسا پر ایک ڈاکیومنٹری ‘ہیلز اینجلز’ بنائی۔لیکن مدر ٹریسا نے اپنی زندگی میں تنقید کی پروا نہیں کی اور اپنے مقصد پر نگاہ مرکوز رکھی۔وہ خود پر ہونے والی تنقید سے لاعلم نہیں تھیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ عیسیٰ پر ایمان نے انہیں باور کروا دیا ہے کہ مرتے ہوئے شخص کا ہاتھ تھامنا انتہائی اعلیٰ کام ہے۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو نصیحت کی کہ زیادہ محبت کے ساتھ چھوٹے کام کرو۔
کلیسا نے مدر ٹریسا کو سینٹ کے مقام پر فائز کر دیا لیکن کولکتہ میں جشن منانے والوں کو انہیں ولی ماننے کے لیے کسی معجزے کی ضرورت نہیں،ان کے لیے تو مدر ٹریسا ماں تھی اور ماں کو ماننے کے لیے کیسا معجزہ۔۔۔۔
مقدس بوڑھی راہبہ کے معجزے زمینی تھے یا آسمانی؟ٹھکرائے ہوؤں کو اپنانے کا معجزہ۔۔۔۔برص اور جذام کے شکار افراد کے ہاتھ پاؤں دھلانے کا معجزہ۔۔۔۔دھوپ میں جلنے والوں کو چھت کا سایہ دینے کا معجزہ۔۔۔۔بھوکے کو کھانا کھلانے کا معجزہ۔۔۔۔
فیس بک پر تبصرے