ایک فون کال اور جشن آزادی
مَیں نے بارہ اگست کی شام تک فون کال آنے سے پہلے آزادی کے لمحوں کو جس انداز سے منانے کا پروگرام ترتیب دیا تھا ،اُس پر عمل ضرور کیا۔مگر سارے عمل میں وہ سرمئی شام چھائی رہی۔
مَیں بارہ اگست کی شام تک معقول حد تک خوش تھا۔بارہ اگست کی شام تک سب کچھ ٹھیک تھا۔پھر ایک فون کال آئی اور آزادی کے لمحوں میں دل بجھ سا گیا۔
مَیں نے بارہ اگست کی شام تک فون کال آنے سے پہلے آزادی کے لمحوں کو جس انداز سے منانے کا پروگرام ترتیب دیا تھا ،اُس پر عمل ضرور کیا۔مگر سارے عمل میں وہ سرمئی شام چھائی رہی۔تیرہ اگست کی شام کو ،دفتر سے ذرا جلدی نکل پڑا،گھر پہنچا تو بیوی اور بیٹاتیار تھے۔ہم تینوں گھر سے نکل پڑے۔ سب سے پہلے جناح سپر،پھر سپر مارکیٹ گئے ،خوب گھومے پھرے۔لگ بھگ ایک گھنٹہ وہاں گزارنے کے بعد پارلیمنٹ کی جانب گئے تو راستے ہی سے لوٹنا پڑا۔آگے جانے کا راستہ بند تھا، پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات تھی۔ہماری طرح کافی لوگ اُس طرف جانے کے لیے وہاں جمع تھے۔مگر دُور ہی سے سرکاری عمارتوں میں قمقموں کا نظارہ کرکے لوٹنے پر مجبور تھے۔ اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد شاہراہِ دستورپر آئے تو وہاں خاصی گہماگہمی تھی۔نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے انداز سے آزادی کے لمحوں کو انجوائے کررہی تھی۔چھوٹی بڑی گاڑیاں پرچموں سے سجی ہوئی تھیں ،جن کے اندر سے ملی نغمے گونج رہے تھے۔متعددبچوں اور نوجوانوں نے سفید اور سبز لباس پہن اور چہروں پر چاندتارا بنا رکھا تھا۔ہر طرف جوش ،سرشاری اور خوشی رقصاں تھی۔شاہراہ دستور پر تلِ دھرنے کی جگہ نہ تھی۔
ہم گھوم پھر کر پونے بارہ بجے گھر لوٹے ۔پندرہ منٹ بعد بجلی چلی گئی۔خیر سوگئے۔صبح جاگے تو معمول کے مطابق ٹی وی آن کیا۔ہر طرف آزادی اور جوش و خروش کی خبریں تھیں۔سارادن گھر میں گزرا۔ٹی وی دیکھتے،سوتے اور کتاب پڑھتے۔شام چھ بجے کی خبریں سنیں تو ملک بھر میں آزادی کی تقریبات سے آگاہی ہوئی۔واہگہ بارڈرپر پرچم اُتارنے کی تقریب براہِ راست میڈیا دکھاتارہا۔مَیں باربار چینل بدل بدل دیکھتا رہا۔ایک مین سٹریم نیوز چینل کا نیوزاینکر جذباتی انداز سے کہہ رہا تھا کہ” واہگہ بارڈر پر پرچم اُتارنے کی تقریب جاری ہے ۔وہاں پر لوگ دُشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُنہیں آزادی کا احساس دلارہے ہیں ”مجھے یہ سن کر حیرت نہیں ہوئی۔لیکن …چلیں چھوڑیں۔ایک خوش آئند بات یہ تھی،میڈیا کے مطابق،ملک بھر میں لوگوں نے جوش و خروش سے آزادی کے دن کو منایا۔اُن کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ اس دن اپنے غم بھول کر صرف اور صرف آزادی کے لمحوں کو انجوائے کر رہے ہیں ۔وہ دہشت گردی،لوڈشیڈنگ ،غربت،مہنگائی،کرپشن،بدانتظامی اور اپنے ذاتی نوعیت کے چھوٹے بڑے دُکھوں کو آزادی کے لمحوں میں یاد نہیں کررہے۔یوں پاکستانی حکمرانوں کی منشابھی پوری ہوئی،اُنہیں عوام کی سوچوں کو نیا رُخ دینے کے لیے تردد نہیں کرنا پڑا۔پاکستانی حکمران عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں ہونے دیتے ،جبھی ایک میچ کی جیت کوبھی یوں سیلیبریٹ کروایا جاتا ہے جیسے کوئی بہت ہی انوکھا کارنامہ انجام پایا ہو۔۔خدا کا شکر یہ بھی ہوا کہ اس دن ملک بھر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی نہیں ہوا۔البتہ شام کو پلندری، آزادکشمیر میں ایک بارات کو سانحہ پیش آیا جس میں ابتدائی طو رپر دودرجن افراد کی اموات کی اطلاعات تھیں۔یقینایہ دُکھ بھری خبر تھی۔اب جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں،پاکستان کرکٹ میچ بھی جیت کر سیریز برابر کر چکا ہے۔یوں چودہ اگست کے دن عوام کی خوشی میں اس جیت نے اضافہ کردیا ہے۔کرکٹ ٹیم کی طرف سے یہ جیت آزادی کا تحفہ قراردی جاسکتی ہے ۔
بارہ اگست کی شام سے چودہ اگست کی شام تک مجموعی طور پر سب کچھ اچھا رہا۔سبز ہلالی پرچموں کی بہار نے لوگوں کے انفرادی نوعیت کے دُکھوں کو ما ت دیے رکھی۔میرے ساتھ بھی سب کچھ اچھا رہا۔البتہ جب بارہ اگست کی شام والی فون کال کی طرف دھیان جاتا تو پژمردگی سی طاری ہوجاتی۔
یہ بارہ اگست کی شام تھی،جب فون آیا۔اُس طرف وہ بچی تھی،جس کا میٹرک میں پاس ہونا ،دُکھ بن گیا تھا۔وہ گیارھویں جماعت میں داخلہ لینی چاہتی ہے مگرداخلے کے پانچ ہزار کا کہیں سے بندوبست نہیں ہوپارہا تھا…کیسی آزادی،کیسی خوشی ،کیسے نعرے،کیساجوش و خروش…
پھر مَیں نے فون بندکرکے جیب میں ہاتھ ڈالا…لیکن…
سرمئی شام ڈھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
فیس بک پر تبصرے