اس چمن میں آشیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
پاکستانیوں نے اس دفعہ چشنِ آزادی کے حوالے سے تیار کی جانے والی مصنوعات کی خریداری کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، اس سال لوگوں میں یومِ آزادی کے حوالے سے زیادہ جوش وخروش پایا جارہا ہے۔
ابھی ہم سانحہ کوئٹہ کے سوگ میں ہیں اور اسی کیفیت میں یومِ آزادی پاکستان بھی آن پہنچا ہے۔ لاہور سے شروع ہونے والے معصوم بچوں کے اغوا کے واقعات دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے شہروں میں بھی رونما ہونے لگے ہیں۔ اسی پر بس نہیں راولپنڈی میں چھرا گروپ کی وارداتیں اس پر مستزاد ہیں۔ ایسے وقت جب وطنِ عزیز میں خوف و دہشت کا راج ہو قوم جشنِ آزادی کیسے منا پائے گی۔ کیا ہمیں جذبہ حب الوطنی پر دہشت گردی کو غالب آنے دینا چاہئے؟ یہ وہ سوالات تھے جو 8 اگست کے بعد سے ہمارے دلوں میں سر اٹھانا شروع ہوئے۔ ان سوالوں کا جواب 13اگست کو ہمیں پاکستانی عام عوام کی طرف سے واضح طور پر ملنا شروع ہوگیا ہے۔ پاکستانیوں نے اس دفعہ چشنِ آزادی کے حوالے سے تیار کی جانے والی مصنوعات کی خریداری کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال لوگوں میں یومِ آزادی کے حوالے سے پہلے سے زیادہ جوش وخروش پایا جارہا ہے۔ اس کارو بار سے وابستہ تاجروں کے مطابق اس سال جشنِ آزادی کی مصنوعات کی فروخت گذشتہ برس کے مقابلے میں دگنی ہوگئی ہے۔ اِس سال اسکولوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اداروں اور مساجد کی طرف سے بھی جھنڈوں کی ڈیمانڈ آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کی جانب سے جھنڈوں اور دیگر اشیا کی مانگ بہت ہی کم رہی ہے۔جیسا کہ رمضان میں ہوتا ہے ، پاکستانی تاجروں کے خاص مزاج کے مطابق، جھنڈوں وغیرہ کی ہول سیل قیمتوں میں 10اگست کے بعد5 سے10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ ری ٹیلرحضرات 14 اگست کے قریب آتے ہی دوگنی قیمتیں وصول کرنے لگے ہیں۔ قیمتوں کا دگنا ہونا رسد اور طلب کے تناسب کو ظاہر کررہا ہے۔ جشنِ آزادی کے لیے استعمال ہونے والے سامان میں ٹی شرٹس، چوڑیاں، بیجز، ریسٹ بینڈز، ٹوپیاں، ماسک، چشمے، غبارے، جھنڈے، جھنڈیاں اور قومی ترانوں پر مبنی سی ڈیز شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں جشنِ آزادی کی مصنوعات کی فروخت 10 ارب جبکہ لاہور میں5 ارب تک پہنچ گی۔
یہ جوش وخروش ملک میں جاری دہشت گردی، اغوا، قتل وغارت گری کے باوجود اپنے اندر کیا پیغام لئے ہوئے ہے ؟ ایک طرف پرنٹ اور الیکٹرانک سوشل میڈیا پر قیامِ پاکستان کے خلاف دھواں دھار بحثیں ہورہی ہیں۔ یومِ آزادی کی تاریخ کو اور قومی ترانے تک کو متنازع بنانے کی ناکام کوششیں جاری ہیں۔ بانیانِ پاکستان پر ذاتی نوعیت کے نامناسب حملے زور وشور سے جارہی ہیں، دوسری طرف پاکستانی عوام سبز شرٹیں، پاکستانی جھنڈیاں، بیجز اور رسٹ بینڈ پہنے قومی نغموں کی دھنوں پر سر مست ہورہے ہیں۔ آپ کے خیال میں پاکستانی عوام کی جانب سے پاکستان کا تمسخر اڑانے والوں، ان کے ملک کی تاریخ واساس کو متنازعہ بنانے والوں کو کیا پیغام جارہا ہے۔ یہ پیغام پاکستانی عوام ہر سال نہ صرف 14 اگست کو بلکہ اور بھی کئی موقعوں پر بہت ہی واضح اور نمایاں طو رپر ترسیل کرتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ کان ہوتے ہوئے نہیں سنتے اور دل ودماغ رکھتے ہوئے نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ کیا پاکستانی عوام کا یہ جوش وخروش اس بات کا غماز نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے وجود میں آنے پر خوش اور مطمئن ہیں۔ پاکستان کا قیام ان کا اپنا فیصلہ تھا اور ان کے نزدیک صحیح تھا۔ وہ اپنے ملک کے بانیوں کے کردار سے بھی خوش ہیں۔اور یہ کہ وہ ملک پر مسلط کی گئی دہشت گردی سے ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ پاکستانی عوام ایسے اندوہ ناک حالات میں بھی تشدد اور عدم برداشت کے بارے میں سوچ کر پریشان نہیں ہونا چاہتے۔ کیا یہ پیغام واضح نہیں سنائی دے رہا کہ پاکستانی لوگ اپنے بچوں کے لیے پر امن، روادار ، خوشحال ، امید اور مواقع مہیا کرنے والا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ انہیں یقینا خبر ہے کہ وہ ابھی پوری طرح آزاد نہیں ہیں لیکن انہیں آزادی کا جو موقعہ میسر آیا ہے، اس کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کی تمنا سے سرشار ہیں۔ آپ سنتے کیوں نہیں !کیا وہ زبانِ حال سے پکار پکار کر یہ نہیں کہہ رہے
دیکھ لو اچھی نہیں ہے بجلیوں سے ساز باز
اس چمن میں آشیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
فیس بک پر تبصرے