منبر و محراب سے قوم کی توقعات

904

اہل دستار نے قوم کی رہنمائی اور اصلاح کی بجائے دیگر مسالک پر بات شروع کر دی اور بہت ہی کم عرصہ میں یہ انداز تنقید و طنز سے نکل کر فرقہ واریت تک جا پہنچا

برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے بعد بالخصوص اس خطہ میں دو طرح کا تعلیمی نظام رائج ہوا’ ایک عصری ‘ دوسرا دینی۔ عصری تعلیم کے اسکول’ کالج اور یونیورسٹیوں نے اپنے طریقے پر کام شروع کیا اور قوم کے بچوں کو جدید علوم سے آگاہی ‘ ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم سے روشناس کرانے میں حتیٰ المقدور کام کیا۔ اسی طرح دینی تعلیم کے لیے مدارس نے قوم کے بچوں کو قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کے لیے کوشش کی۔ مدارس نے اپنی مدد آپ کے تحت قوم کے ایسے بے یارومددگار بچوں کو تعلیم سے روشناس کرایا جن کے والدین عصری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ سو مدارس بھی اپنے وسائل کے اعتبار سے کسی حد تک قوم کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینے میں کوشاں رہے۔ لیکن ان دو طرح کے نظامِ تعلیم کا ہمارے سماج میں یہ اثر ہوا کہ قوم اس نظام تعلیم کے فرق سے دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ گو دینی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی تعدادپانچ فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن نقصان یہ ہوا کہ مدارس میں پڑھنے والے طلباء نے قرآن ‘ حدیث اور فقہ کو تو پڑھالیکن جدید علوم سے مکمل ناواقفیت کی بنا پر آج کے جدید معاشرے میں ان کے لیے مسائل ہی مسائل ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء نے ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم تو حاصل کیے ‘ لیکن قرآن و حدیث سے نابلد رہے۔ جب یہ طلباء دو طرح کے نظامِ تعلیم میں پڑھ لکھ کر سماج میں آئے تو ان کے درمیان واضح فرق موجود رہا۔ ایک طبقہ قرآن جانتا ہے ‘ دیگر علوم نہیں ۔ دوسرا طبقہ جدید علوم سے واقف ہے لیکن قرآن نہیں جانتا ‘ سواِن دو طرح کے نظام ہائے تعلیم نے ایک لکیر کھینچ دی۔

اسی طرح کسی زمانے میں منبرو محراب کو قوم کی رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ‘ مسجد کے منبر و محراب سے سماج کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی تھی، جب تک لاؤڈ اسپیکر پر پابندی نہیں لگی تھی اس وقت تک گاؤں دیہاتوں میں گھر کی خواتین بھی باقاعدگی سے مولوی صاحب کا جمعہ کا بیان سنا کرتی تھیں۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اہل جبہ و دستار نے قوم کی رہنمائی اور اصلاح کی بجائے دیگر مسالک پر بات شروع کر دی اور بہت ہی کم عرصہ میں یہ انداز تنقید و طنز سے نکل کر فرقہ واریت تک جا پہنچا۔ اسپیکرپر پابندی لگی اور آج صورت حال یہ ہے کہ منبر و محراب سے قوم کی اس طرح سے رہنمائی نہیں ہو رہی جس طرح کی ہمارے سماج کو ضرورت ہے’ اکثر و بیشتر فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں جو ہمارے لوگ متعدد بار سن چکے ہوتے ہیں یا پھر ایسے مسائل پر بات ہو رہی ہوتی ہے جن کی آج کے معاشرے میں ضرورت ہی نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک مقامی مسجد میں نماز پڑھی ۔ نماز کے بعد مولوی صاحب کا خطاب شروع ہوا’ ہم بھی بیٹھ گئے۔ مولوی صاحب نے پانی کی صفات بیان کرنا شروع کر دیں، کہ اگر اوصاف میں سے کوئی ایک صفت بدل جائے تو پانی کے استعمال کا یہ حکم ہے’ دو صفات بدل جائیں تو یہ حکم ہے اور اگر پانی کی تین صفات بدل جائیں تو یہ حکم ہے۔ پورا گھنٹہ اس پر بیان ہوا اور جب بیان ختم ہوا تو فرمایا آئندہ بھی اسی پر بیان ہو گا۔

در حقیقت عرب معاشرے میںچونکہ پانی کا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے ۔ اس زمانے  میں کنویں ہوتے تھے، جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پیتے تھے ۔ اس لیے فقہائے نے بڑی تفصیل اور شدت سے پانی کے مسائل کو بیان کیا۔ آج بالخصوص ہمارے سماج میں پانی کے ایسے مسائل نہیں ہیں۔ اسی طرح آج کل غلامی کا دور بھی نہیں۔ تو ہمارے خطباء کو ایسے مسائل پر توانائی صرف کرنے کی بجائے معاشرے کے ایسے مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کی ہمارے معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو منبر و محراب سے قوم کو ہدایت و رہنمائی نہیں مل رہی۔ کیا اہل جبہ و دستار کو بھی اس کا علم ہے؟ منبرومحراب سے قوم کو کیا مل رہا ہے’ اس پر بات اگلی نشست میں ہوگی

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...