تیونس مشکل میں
یاد رہے کہ سنہ 2011ء کے اوائل میں عرب بہار تحریک تیونس سے ہی اٹھی تھی اوریہی وہ واحد ملک ہے جہاں اس تحریک کو کامیابی ملی اور آمریت کی طویل رات کا خاتمہ ہوا لیکن بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اب تک انقلاب کے ثمرات حاصل نہیں ہو سکے
تیونس میں حالیہ سیاسی بحران کے بعد یوسف شاہد نئے وزیراعظم بن چکے ہیں جن کا تعلق نداء تیونس پارٹی سے ہے،ان سے پہلے حبیب الصید ملک کے وزیراعظم تھے جن سےتیونسی صدر باجی قائد السبسی کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے کے بعد پہلے استعفی کا مطالبہ کیا گیا اور بعد میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ان کو حکومت سے الگ کردیاگیا۔
صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات نے ایک طرف نداء پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تو دوسری طرف حکومت کی سب سے بڑی حلیف جماعت النھضہ پارٹی کے سربراہ راشد الغنوشی کی جانب سے وزارت عظمی کے لیےنداء پارٹی کی طرف سے ہی نامزد کیے جانے والے امیدوار کی حمایت پر النھضہ کے درمیان بھی اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
تیونس میں 2014ء میں پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے تھے جن میں سیکولر جماعت نداءتیونس نے دوسو سترہ میں سے نواسی نشستیں حاصل کر کے برتری حاصل کی تھی اور النہضہ انہتر نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ ندا تیونس نے النہضہ اور دو چھوٹی لبرل جماعتوں کے ساتھ مل کر حبیب الصید کی سربراہی میں قومی حکومت تشکیل دی تھی۔
تیونس کے حکمراں اتحاد میں شامل چاروں جماعتیں اور حزب اختلاف وزیراعظم سے ان کی خراب کارکردگی کی وجہ سے نالاں تھے ، صدر باجی قائد السبسی نے بھی حبیب الصید کو ملک کو درپیش اقتصادی اور سماجی مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا اور توقع ظاہر کی کہ نئی حکومت ملک میں وسیع تر اقتصادی اصلاحات پر زوردے گی اور ملک کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالے گی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گی۔
ٹیکنو کریٹ حبیب الصید تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کا بھی حصہ رہے تھے۔جنوری 2011ء میں ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت میں انھیں وزارت داخلہ کا قلم دان سونپا گیا تھا۔ وہ عرب بہار انقلاب کے بعد انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے اسلامی جماعت النہضہ کے عبوری وزیراعظم حمادی جبالی کے بھی سکیورٹی ایڈوائزر رہ چکے ہیں ۔
تیونس میں اس وقت نہ صرف حکومت کو سیاسی استحکام کے لیے مشکلات کا سامنا ہے بلکہ ملک بدترین معاشی بحران میں بھی گھرتا جا رہا ہے۔ سیاحت اور معدنیات آمدن کا اہم ترین ذریعہ ہیں مگر ان شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت یہ شعبے بھی 4.5 ملین دینار خسارے کا سامنا کر رہے ہیں۔معیشت کے ماہرین اور خود حکومتی عہدیدار بار بار یہ اشارے دے رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہے اور خدشہ ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا بھی اہتمام نہ کرسکے۔
تیونس میں 6 لاکھ 70 ہزار سرکاری ملازمین ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ ایک ارب دینار ہے جبکہ ٹیکس کی مد میں موصول ہونے والی رقم اتنی نہیں کہ ان سے ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جاسکیں۔
تیونسی تجزیہ نگار مراد الحطاب کے مطابق تیونس تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔ قومی خزانے میں موجود رقم 71 کروڑ 20 لاکھ دینار پر آگئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
تیونس کے مرکزی بنک کے گورنر الشاذلی العیاری نے بھی حال ہی میں ایک غیرملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنہ 2017ء کے مالی سال کے بجٹ کے لیے ان کے پاس خزانے میں رقم موجودہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر حکومت کو مزید قرض نہ ملا تو ملازمین کو تنخواہوں کی ادائی میں مشکلات پیش آئیں گی۔
یاد رہے کہ سنہ 2011ء کے اوائل میں عرب بہار تحریک تیونس سے ہی اٹھی تھی اوریہی وہ واحد ملک ہے جہاں اس تحریک کو کامیابی ملی اور آمریت کی طویل رات کا خاتمہ ہوا لیکن بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اب تک انقلاب کے ثمرات حاصل نہیں ہو سکے،امریکی جریدے فارن پالیسی کے مطابق اس وقت تیونس کی صورتحال انقلاب سے قبل صدر زین العابدین کے دور سے بھی ابتر ہے۔
اگرچہ بعض مبصرین سیکولرنداء پارٹی اور مذہبی النھضہ پارٹی کے درمیان اتحاد کو ٖ غیر فطری قرار دے رہے ہیں اور تیونس کے سیاسی مستقبل پرخدشات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس وقت تیونس میں عملی طور پر کوئی بھی پارٹی لیفٹسٹ یا رائٹسٹ نہیں ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کو آمریت کی باقیات سے پاک کرنے کے لیے پرعزم ہیں جو کہ تیونس میں جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے۔
اگر یہ اتحادی جماعتیں اس مشکل وقت میں بھی آپس میں اتحاد کی فضا کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور شخصی مفادات پر ملک کی سلامتی اور استحکام کو ترجیح دیتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک بحرانوں سے نہ نکلے ۔
فیس بک پر تبصرے