دیوسائی…فطرت سے ہم کلامی کی داستان
ہم بھاگے ہوئے خیمے کی اور آئے، جہاں ہمارے دوست آگ جلائے بیٹھے تھے ۔ ہم آکر آگ پر بیٹھ ہی تو گئے، جس میں آکسیجن اتنی ہی تھی جتنی ہسپتالوں میں مریضوں کے منہ پر چڑھانے والے سلنڈروں میں ہوتی ہے، گویا تھی ہی نہیں ۔
گذشتہ سے پیوستہ:جیسا کہ ہم نے عرض کیا آخرِ کار پِتا پانی کر کے بڑے پانی کے پاس پہنچ ہی گئے، جہاں ایک نہردودھ سے سِوا سفید ،ہیرے سے زیادہ شفاف اور کافور سے زیادہ ٹھنڈی بہتی ہے۔ اِس کے کنارے بھی سبزے سے بھرے ہوئے تھے اور یہاں خیمے بھی بہت لگے ہوئے تھے ۔ دو خیمے ایسے تھے ،جن میں ہو ٹل تھے ۔ اِس نہر پر دو پل بھی تھے، ایک لوہے اور بجری سیمنٹ وغیرہ کا جو کہ ثابت تھا ، دوسرا لوہے کی تاروں کا ،جو ٹوٹا ہوا تھا ، ہم تو( یعنی میں )ٹوٹے ہوئے پل سے گزر کر پار گئے اور لوگوں کو حیران کر گئے ۔ دلاور ہمارے فوٹو بناتا رہا اور ہم گزرتے رہے ۔ اِسی لیے تو گزرے تھے کہ فوٹو بن جائیں ۔ اِس نہر کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں بندہ ڈوب کر نہیں مرتا ،ٹھٹھرتا ہے پھر سکڑتا ہے اور اتنا سکڑتا ہے کہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ اب عصر کا وقت ہو چکا تھا اور بھوک ایسی چمک کر لگی کہ حواس مختل ہونے لگے۔ خیمے کے ہوٹل والا(اینٹوں کا اور پتھر کا وہاں کچھ بھی بنانے کی اجازت نہیں ہے ویسے بھی یہ چیزیں وہاں ناممکن ہیں) ایک روٹی کے تیس روپے مانگ رہا تھا ،جو ہمیں نا منظور تھی اور اسے بھی نامنظور تھی کہ وہاں پچاس دے کر کھانے والے بھی موجود تھے ، چنانچہ اپنا ہی پکا کر کھانے کی امید تھی ۔ ہم نے فوراًسب خیموں سے دور اورنہر کے دوسری طرف اپنے بھی دو خیمے نصب کر دیے۔ ہم سے مراد یہاں ہمارے دوست ہیں ورنہ ہمیں تو خیمے کی کیل تک ٹھونکنا نہیں آتی، نہ کبھی اِن بکھیڑوں میں الجھے ۔ لو جی اب لونڈے تو سب خیمے لگا کر ہنڈیا روٹی کا قضیہ کرنے لگے اور ہم نہر کے کنارے کنارے سیر کو ہو لیے ۔ خراماں خراماں چلے جاتے تھے اور نہر میں کنکر مارتے جاتے تھے اور دیکھتے جاتے تھے کہ کہیں ٹرائوٹ مچھلی کا ساتھ مل جائے تو اس سے دل کا حال احوال کہہ لیں،اسی وقت اچانک ایسی سرد ہوا چلی ،کہ کچھ نہ پوچھیے ، کانوں کے رستے ،ناک کے رستے اور پتا نہیں، کس کس رستے سے سینے میں پہنچی اور جگر کاٹنے لگی ۔ ہم بھاگے واپس اور جیسے ہی بھاگے،ہمارا پائوں رپٹا اور سیدھا نہر میں ،جس کا پانی ،پانی نہیں تھا، مائینس 170- درجے کا تیزاب تھا ،یوں لگا ،ٹانگوں کو چھیل رہا ہے ۔ اِس حادثہ جانکاہ میں ہماری پینٹ ،جرابیں، جوتے اور دیگر اعضاسب کچھ بھیگ گیا ۔ بھاگے ہوئے خیمے کی اور آئے، جہاں ہمارے دوست آگ جلائے بیٹھے تھے ۔ ہم آکر آگ پر بیٹھ ہی تو گئے، جس میں آکسیجن اتنی ہی تھی جتنی ہسپتالوں میں مریضوں کے منہ پر چڑھانے والے سلنڈروں میں ہوتی ہے، گویا تھی ہی نہیں ۔ ہم نے اپنے پائوں آگ میں بھی ڈال دیے مگر کچھ نہ ہوااور پالا سر کو چڑھ گیا ۔ ہم نے دو تین چادریں اوپر نیچے اوڑھیں اور آگ کے پاس لیٹ رہے ، علی اور تیمور خیمے میں جا گھسے اور دلاور نمازِدوگانہ کے لیے کھڑا ہو گیا ۔ کچھ دیر لیٹے رہنے سے ہمیں کچھ ڈھارس ہوئی تو ہم بھی حاجتِ مسلمہ کے لیے نکل لیے اور جس طرف کو دلاور گیا تھا اس کے پیچھے پیچھے گئے کہ کہیں ٹائلٹ وغیرہ نظر سے گزرے ۔ ایک بات کہوں، یہ علاقہ اوپر نیچے کے کھلے میدانوں اور پہاڑی ٹیلوں پر مشتمل ایسا ہے، جہاں سال کے نو مہینے برف میں رہتے ہیں اور سکیٹنگ کرنے والوں کے لیے نہایت موزوں ہے اور سیاحوں کے لیے اِس میں بہت کشش ہے مگر گورنمنٹ کی اِس میں کچھ بھی توجہ نہیں ہے ۔
ٹائلٹ تک اس نے نہیں بنائے اور نہ آئندہ بنانے کی طرف دھیان ہے ۔ اگر کچھ پل ول اور سڑکیں وڑکیں پکی کچی بنائی ہیں تو وہ بھی یو ایس ایڈ کا کمال ہے ۔ یو ایس ایڈ یہاں جگہ جگہ نظر آتا ہے ، میڈیکل ہیلپ کے لیے ، جنگلی حیات کے لیے ، پل ، چاہ اور تالاب بنانے کے لیے ،جھیلوں اور میدانوں کی صفائی کے لیے۔ پاکستانی گورنمنٹ یہاں ہرگز کام کی نہیں ہے بلکہ ہمارے سینگوں کی طرح غائب ہے اور بالکل نہیں ہے۔ خیر ہم جونہی دلاور عباس کی تلاش کو نکلے ،ایک انکشاف ہم پر اچانک ہوا وہ یہ کہ مچھروں کی ایک فوج ظفر موج نے ہم پر حملہ کر دیا ۔پہلے تو ہم اسے ٹڈی دل سمجھے ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے پائوپائو بھر کا مچھر افغانیوں کی طرح چڑھا آتا تھا اور ساون کی طرح برستا تھا ، ہمارے کانوں ،سروں ،ناکوں اور پتا نہیں کن کن جگہوں سے جسم میں گھس رہا تھا ۔ ہم اِدھر ادھر بھاگے اور ہا ہا کار مچائی مگر مچھر نے نہ سنی ہماری دہائی اور برابر حملہ آور ہوا ۔ ان کے اِس خروج سے پتا چلا کہ اصل میں دیوسائی اِنھی کی اسٹیٹ ہے اور نام اِس کا ریاست ہائے متحدہ مچھر ہے اور بہت لچر ہے ۔ اب خبر ہوئی کہ کوئی شریف آدمی یہاں دو دن بھی کیوں ڈھنگ سے نہیں رہ سکتا ؟ مچھروں کے تیرو تفنگ سے بچائوکا کوئی سامان موجود نہیں یعنی دفاعی قلعے کا وجود نہیں ۔ خیر ڈھونڈتے ڈھانڈتے ہم ایک ٹائلٹ میں گھس ہی گئے ،جو یو ایس ایڈ کے کافروں نے بنوایا تھا اور نہایت صاف ستھرا اور سفید رنگ کا تھا ،اِس کے ماتھے پر ہمارے مومنین نے کالی سیاہی اور خطِ شکستہ میں بڑا سا امریکہ مردہ باد لکھ کر اسے نظرِ بد سے بچا یا تھا ۔ ہم اسی ٹائلٹ کے احسان مند ہوئے ۔دلاور نے نماز پڑھ لی تھی ، میں اور ذی جاہ کافور کی نہر کا پل پار کر چکے تھے ۔اب صلاح یہ ٹھہری کہ کھانا کھانے کے بعد(جو ہمارے دوست تیار کر چکے تھے) ہم جو پاس ہی ایک برف سے ڈھکا ہوا ٹیلا نظر آتا ہے،اس تک ہو آئیں اور تصویریں بنا کر دیوسائی سے دورجولائی کی بھٹی میں بھننے والوں کا جی جلائیں ۔کھانا کھایا ،جو اِس غریب الوطنی میں مزا دے گیا حالانکہ آگ میں آکسیجن کم ہونے کی وجہ سے آدھا کچا ہی تھا ۔(جاری ہے)
فیس بک پر تبصرے