قبائلی سماج بدل رہا ہے

909

دلچسپ حقیقت یہ کہ قبائلی نوجوانوں کی اکثریت سماجی جکڑبندیوں سے نجات پانے کیلئے اندر سے آمادہ تو تھی لیکن وہ بے لچک روایات اور اجتماعی مرعات کی کشش کے ہاتھوں مجبور تھی

انسان اگرچہ فطرتاً  تغیر و تبدل سے خوفزدہ اور اپنے حال سے محبت کرنے والے احساس کا مالک ہے لیکن وہ ایک ہاتھ سے تبدیلی کو روکتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کے آگے بڑھنے کوشش بھی کرتا ہے،اسی تنوّع نے اسے ماضی سے گہری وابستگی کے باوجود مستقبل کے دبستانوں سے ہم آغوش بنایا تاہم پھر بھی وہ ہمیشہ پرنم آنکھوں اور غمگین دل  کے ساتھ نئے عہد کا استقبال کرتا ہے،انسان کی جارحیت و دفاع کے ہر منصوبہ کا مقصد بھی موجود کا تحفظ ہوتا ہے لیکن جنگ ایسی تباہ کن سرگرمی ہے جو  بلاآخر انہیں اَن دیکھی تبدیلیوں سے دوچار کر دیتی ہے۔ہمارے قبائلی معاشروں کو بھی اپنی دفاعی ساخت نے بہت حد تک قسمت پرستانہ فلسفہ حیات کا غلام بنا رکھا تھا اور وہ عہد جدید میں آنے والی اجتماعی تبدیلیوں سے ہم قدم  رہنے کی سکت کھو چکا تھا،سچ تو یہ ہے کہ وقت جن معاشروں کو پیچھے چھوڑ دے،وہ اپنی نامرادیوں کے مداو کے لئے،درست سمت ہاتھ پائوں مارنے کی بجائے،اپنے  اجداد کے کارناموں اور ماضی کی پرشکوہ یادوں میں پناہ گزیں رہنے کو ترجیحی دیتے ہیں،قبائلی معاشرہ بھی سیاسی ،علمی اور سماجی مقابلہ میں حصہ لینے کی بجائے ماضی کی رومانوی داستانوں میں سامان غرور تلاش کرتا رہا اور اسی رجعت قہقری نے انہیں جمود پرور روایات کے گنبد بے در میں مقید رہنے پہ مجبور کر دیا،چنانچہ وہ ارتقاء کے فطری عمل کے خلاف مزاحمت کی کوشش میں فکری جمودکو ہی اپنی بقاء کا قلعہ سمجھنے لگے۔ پھر پاک افغان بارڈر پہ دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی مہیب جنگ نے قبائلیوں کے اسی تہذیبی جمود کو توڑ کے انہیں ایک نئے تمدن کو اپنانے کی راہ دکھائی،دلچسپ حقیقت یہ کہ قبائلی نوجوانوں کی اکثریت سماجی جکڑبندیوں سے نجات پانے کیلئے اندر سے آمادہ تو تھی لیکن وہ بے لچک روایات اور اجتماعی مرعات کی کشش کے ہاتھوں مجبور تھی بلاشبہ ہمارا قبائلی سماج جمود اور ارتقاء کی اسی کشمکش کی کلاسیکی مثال ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ تباہی کی نقیب اور ہماری عزیز ترین اقدار کو صفحہ ہستی سے مٹانے والی سرگرمی ہے لیکن یہی خونخوار مشق ایسے تہذیبی جمودکو تحلیل کرنے کا حتمی وسیلہ بھی بنتی ہے جسے وقت کی مخصوص گھڑیوں نے منجمد کر لیا ہو۔

ستمبر 2001 ء کو پاک افغان بارڈر پہ دہشتگردی کے خلاف چھڑنے والی مہیب جنگ نے جہاں اس خطہ کے پورے تمدن کو بدل دیا وہاں اس وار آن ٹیریر  نے منجمد قبائلی نظام کی چولیں بھی ہلا ڈالیں کیونکہ ماضی کے برعکس آج کی جنگیں صرف میدانوں ،صحرائوںاور دریائوں میں نہیں بلکہ ادراک وشعور کی لامحدود وسعتوں اور دشمنی و دوستی کے درمیان واقع باریک خطِ امتیاز پہ لڑی جاتی ہیں،یہ فطرت کے اسی مخصوص طریقہ کار سے مماثل ہیں جسمیں تقدیر ظاہرہ طور پر غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھا کے،انکی مرضی کے بغیر، انہیں اَن دیکھی تباہی سے دوچار کر دیتی ہے۔16 مارچ 2003 کے آپریشن ”میزان ”میںصرف جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ساڑھے چار سو کے لگ بھگ وہ قبائلی سردار تاریک راہوں میں مارے گئے جن کی شان و شوکت پہ قبائلی تمدن استوار تھا،ان سوختہ سامانوں میں محمد نواز محسود،ملک خاندان خان، ملک گل سا خان اور ملک مظہر عالم جیسے وہ مقتدر وڈیرے شامل تھے جن کی زبان پہ تقدیر بولتی تھی لیکن جنگجوانہ تشدد کی دیومالائی لہر نے ان کی نسلیں اجاڑ دیں۔2008 ء کے آپریشن راہ نجات نے لاکھوں قبائلیوں کو نقل مکانی کی جبریت سے گزار کے اجتماعی طرز تمدن سے لیکر انکی انفرادی بود وباش بدل ڈالی، آٹھ سال تک بندوبستی علاقوں کی فروغ پذیر تہذیب سے فیضیاب ہونے کے بعد واپس وزیرستان پلٹنے والے قبائلیوں کو ایک بدلا ہوا وزیرستان ملے گا جہاں اب کیڈٹ کالجز سمیت اعلیٰ تعلیمی ادارے،کرکٹ اسٹیڈیم ،کھیل کے میدان،جدید طرز کی مارکیٹیں،آبپاشی کے لئے ڈیم، واٹر سپلائی سکمیں،کیٹل اینڈ پولیٹری فارمنگ ،خواتین کے دستکاری سنٹرز،مہارتوں کے تربیتی مراکز ،کشادہ سڑکیں اور تیزترین ذرائع نقل و حمل وغیرہ، جو کسی بھی تہذیب کو جدید خطوط پہ استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔خرگئی کے مقام پہ  ٹی ڈی پیز رجسٹریشن کیمپ کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت تک پینتالیس ہزار خاندانوں کو بحفاظت اپنے آبائی گھروں تک پہنچایا جا چکا ہے،منزل مقصود تک پہنچنے کی خاطر ہر فیملی کو ٹرانسپورٹیشن چارجز کی مد میں  10000ہزار ،روزمرہ گھریلو ضروریات کے لئے 25000ہزار روپے کی نقد امداد کے علاوہ تباہ حال مکانات کی مرمت و بحالی کے لئے فی خاندان 4لاکھ روپے تک کی اضافی مالی امداد مہیا کی گئی،مقامی اتھارٹی نے بتایا کہ ٹی ڈی پیز کی بحالی پہ اب تک 3ارب روپے صرف کئے جا چکے ہیں تاہم قبائلی کہتے ہیں کہ واپس پلٹنے والے خاندانوں کو مکانات کی تعمیر نو کی خاطر دی جانے والی نقد امداد  ناکافی ہے،چونکہ قبائل میں اب بھی جوائنٹ فیملی سسٹم کے باعث ایک ہی مکان میں 5 سے 8فیملیز کے مشترکہ رہائش پذیر ہونے کا رواج عام ہے،اسی لئے وہ اپنی ضروریات کے مطابق بڑے گھرتعمیر کراتے ہیں جن پر چالیس لاکھ روپے تک کا خرچہ اٹھتا ہے،پولیٹیکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ خرگئی کیمپ میں رجسٹرڈ ہونے والی  ہر ٹی ڈی پی فیملی کو چھ ماہ کا راشن گھر کی دہلیز تک پہنچایا گیا اور ہر خاندان کو عارضی قیام کے لئے  ٹینٹ بھی مہیا کئے گئے۔

پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق اس سال دسمبر کے آخر تک 85000خاندانوں کی واپسی متوقع ہے،آباد کاری کے لئے رجسٹریشن کے عمل کی تصدیق  نادرا ریکارڈ سے کی جاتی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن نہ کرانے والے جنوبی وزیرستان کے مکینوں کو ٹی ڈی پی کا درجہ ملے گا نہ مستقل مالی امداد و مرعات حاصل ہو پائیں گی۔حکومت نے ٹی ڈی پیز کو بذریعہ میڈیا خبردار کیا کہ وہ فی الفور اپنے آبائی گھروں کو واپسی یقینی بنائیں۔جنوبی وزیرستان جیسے نظرانداز کردہ خطہ میں اس وقت  288 کے لگ بھگ چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبے پایا تکمیل کو پہنچائے گئے،جن میں 400کلومیٹر رابطہ سڑکوں کے علاوہ وانا اور سراروغہ کے 2کیڈٹ کالجز اور 3 آرمی پبلک سکولز سمیت درجنوںجدید تعلیمی اداروں کا قیام شامل ہے۔ہر گائوں میں ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کے علاوہ چلڈرن پارکس،کاروباری مارکیٹیں اور کئی پاور پراجکٹس زیرتعمیر ہیں،حیران کن امر یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں چوبیس گھنٹوں کے دوران صرف دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ پینے کے صاف پانی کے لئے شمسی توانائی پہ چلنے والے ٹیوب ویلز سے منسلک واٹر سپلائی سکیمز کے علاوہ تحصیل سروکئی کے گائوں چکملائی میں 40 بیڈ پر مشتمل جدید ترین تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنایا گیا لیکن ہسپتال کو اسپیشلسٹ ڈاکٹر ز اور ماہر عملہ کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے جسکی وجہ قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کی تنخواہوں اور مرعات میں کمی بتائی گئی،قبائلی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے تین وکیشنل ٹریننگ سنٹرز بنائے گئے جہاں 500سے لیکر 700 تک بچیاں فنی تربیت حاصل کر چکی ہیں۔جنرل آفیسر کمانڈنگ خالد جاوید کا کہنا ہے کہ باہمی رابطوں کے لئے سرکاری پی سی اوز کے ذریعے عارضی مواصلاتی نظام قائم کیا گیا ہے تاہم دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کی صفائی کے بعد یہاں موبائل سگنلز کھول دیئے جائیں گے۔وزیرستان میں اس وقت 13ریڈیو ٹرانسمیٹرز کام کر رہے ہیں جن کا سمعی ایریا افغانستان تک وسیع ہے،یو اے ای حکومت کے تعاون سے قائم کئے گئے وانا کے شیخہ فاطمہ اسپتال کا شمار پاکستان کے جدید ترین ہسپتالوں میں ہوتا ہے ،انگور اڈا سے 50 کلومیٹر مغرب کی جانب واقع اس مرکز ی اسپتال سے وزیرستان کے باسیوں کے علاوہ افغان سرحدی علاوں کے باشندے بھی استفادہ کر سکتے ہیں، 120بیڈ پر مشتمل اس جدید اور سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال میں سات ڈائلیسز مشینیں اور نرسری کا جدید ترین سسٹم موجود ہے مگر یہاں بھی اسٹاف کی کمی بنیادی مسئلہ ہے، اس  ہسپتال میں 700سے 800 مریض یومیہ علاج کرا رہے ہیں،سردست یہاں ڈاکٹرز اور پیرام یڈیکس کی  کمی کو  آرمی کے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اور طبی عملہ کے ذریعے پورا کیا گیا۔

وزیرستا ن کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے آرمی نے ایک ارب کی لاگت سے چلغوزے اور ٹماٹر کے پراسسنگ پلانٹس لگائے تاکہ افغانستان کی بجائے چلغوزہ کی مقامی سطح پہ  تیاری ممکن بنائی جائے۔اس طرح  چلغوزہ کی تیاری پہ نہ صرف  لاگت کم آئے گی بلکہ مقامی کاشتکاروں کو زیادہ منافع اور عوام کو سستا و معیاری ڈرائی فروٹ بھی میسر آئے گا،یہاں اب کولڈ اسٹوریج کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔جنوبی وزیرستان تک آسان رسائی کے لئے رابطہ سڑکوں کا ایسا جال بچھایا گیا کہ اب مکین کی خوبصورت  وادیاں اور کانیگرم کے دلکش نظارے  ضلع  ٹانک سے صرف تین گھنٹوں کی مسافت پر ہیں،یہ علاقہ ملک کے کسی بھی سیاحتی مرکز سے کم نہیں،یہاں ٹوارازم انڈسٹری کو فروغ دیا جا سکتا ہے تاہم ٹوارزم ڈیپارٹمنٹ کو اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت پڑے گی،پولیٹیکل انتظامیہ نے بتایا کہ مقامی آبادی کی مکمل بحالی تک سڑکوں پر آرمی چیک پوسٹیں قائم رہیں گی،قیام امن کے بعد سیکورٹی اہلکار اسٹریٹیجک اور حساس مقامات پر تعمیر کئے گئے 31 فوجی قلعوں میں منتقل ہو جائیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...