دوقومی نظریہ پاکستان کو بنانے کے لیے تھایا چلانے کے لیے؟

1,136

قیامِ پاکستان کے بعد ہمارا نظریہ ہمارے عمل سے مختلف ہو گیا ، ہم نے قومی شناختی کارڈ کا اجرا ’’قوم وطن سے ہے‘‘کے اصول پر کرنا شروع کر دیاجبکہ نظریاتی طور پر ہم آج بھی ’’قوم مذہب سے ہے‘‘کے قائل ہیں

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ہم قیامِ پاکستان کے 70سال بعد بھی اسی ’’تو تکرار‘‘میں الجھے ہوئے ہیں کہ پاکستان بنا کیوں تھا؟ بات نظریۂ پاکستان سے چلتی ہے اور دو قومی نظریے پر پہنچ جاتی ہے۔ تو گزارشِ خدمت ہے کہ دوقومی نظریہ ملک بنانے کے لئے تھے ، اسے چلانے کے لئے نہیں تھا،نہ ہی اس سے ملک چل سکتا ہے۔ اس ناقص رائے سے اختلاف کا حق کسی کو بھی ہے لیکن پہلے پوری بات سن ضرور لینی چاہیے۔
’’قوم ‘‘انگریزی لفظNation کا ترجمہ ہے جس کا مادہ لاطینی زبان میں Natus یعنی ’’پیدائش‘‘ہے۔اسی اعتبار سے’’قوم‘‘ شروع شروع میں ایک ’’نسل‘‘کے لوگوں کو کہا جاتا تھالیکن ’’ سیاسیات‘‘ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ’’قوم‘‘ کا مفہوم بھی وسیع ہوتا چلا گیا اور یہ لفظ ان لوگوں کے لیے بھی بولا جانے لگا جن کا تعلق بے شک ایک نسل سے نہ ہو لیکن وہ ایک طرح کی ثقافت رکھتے ہوں،ایک زبان بولتے ہوںیا ایک ریاست کے شہری ہوں،اسکے برعکس اسلام نے ایک فکر اور ایک عمل کے حامل لوگوں کو قوم کہہ کر پکارا۔قومیت کی اسی بنیادکو برصغیر کے مسلمانوں نے اپنایا جو نہ ایک نسل سے تعلق رکھتے تھے نہ ایک ثقافت کے حامل تھے اورنہ ہی ان کی مادری زبان ایک تھی، البتہ شہری وہ ایک ہی ریاست کے تھے لیکن انہوں نے وحدتِ فکر و عمل کے تحت دیگر شہریوں سے علیحدگی اختیار کرنے کی خواہش ظاہر کی اور اپنے لیے ایک نئی ریاست کا مطالبہ کیا۔ علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ ’’مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراکِ زبان ہے نہ اشتراکِ وطن‘‘(ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر)۔یہی بات انہوں نے اشعار میں یوں کہی کہ
اُن کی جمیعت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمیعت تری
اس کے جواب میں مہاتما گاندھی نے(’’قوم‘‘کے مروجہ مفہوم کو ذہن میں رکھ کر) بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے قائدِ اعظم کو ایک خط میں لکھا کہ’’میں تاریخ میں اس کی مثال نہیں پاتا کہ کچھ لوگ جنہوں نے اپنے آباؤ اجداد کا مذہب چھوڑ کر ایک نیا مذہب قبول کر لیا ہو،وہ اور ان کی اولاد یہ دعوی کریں کہ آباؤاجداد سے الگ قوم بن گئے ہیں۔اگر ہندوستان،اسلام کی آمد سے پہلے ایک قوم تھا تو اسلام کی آمد کے بعد بھی ایک ہی قوم رہنا چاہیے،خواہ اس کے سپوتوں کی ایک کثیر تعداد نے اسلام قبول کر لیا ہو‘‘(15ستمبر1944)۔
بہرحال ہندوؤں کو مسلمان قومیت کے تصور کو ماننا ہی پڑا ۔انگریزوں کو بھی اس موقف کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے، پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا اور سب نے اسے تسلیم کر لیا ۔یہاں تک تو سب ٹھیک ہو گیا کہ ہندوستان کے مسلمان، قومیت کے ایک نئے تصور کو منوانے میں کامیاب ہوگئے لیکن کیا پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم رہ سکے یا رہ سکتے تھے؟14اگست1947کے بعد خود کو ’’پاکستانی قوم‘‘ قرار دے کر اپنی قو م میں ہراس فرد کو شامل کر لیا گیاجوپاکستان کا رہنے والا ہے چاہے وہ مسلمان نہ بھی ہو لیکن کسی ایسے فرد کو اپنی قوم میں شامل نہ کیا گیاجو پاکستان کا رہنے والا نہیں چاہے وہ مسلمان بھی ہو، یعنی سندھ کے ہندو کو تو قومی شناختی کارڈ جاری کر دیا گیا لیکن سعودی عرب کے مسلمان کو اس سے محروم رکھا گیا۔ تو اس کاصاف مطلب کیا یہی نہیں کہ ہم قیامِ پاکستان کے بعد ’’قوم مذہب سے ہے‘‘والے تصور سے نکل کر ’’قوم وطن سے ہے‘‘والے تصور میں داخل ہو گئے؟قومیت کے اصول کی یہ تبدیلی کوئی نئی بات اس لیے نہیں کہ اس روش کوباقی دنیا کے مسلمان پہلے سے ہی اپنائے ہوئے ہیں،اس افسوسناک حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور، اولین اسلامی ریاست کے ٹکڑے ہوتے ہی عملی طور پرپاش پاش ہو گیا تھا جب مسلمانوں نے وحدتِ فکر و عمل کے عظیم نصب العین کو ترک کر کے رنگ نسل اور وطن کی بنیاد پر خود کو الگ الگ قوموں میں تقسیم کر دیا۔موجودہ حالات میں ’’قوم مذہب سے ہے ‘‘والے تصور پر عملدرآمد اس لیے بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں طرح طرح کے فرقوں میں تقسیم ہو کر،مذہب ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے اورکون نہیں جانتا کہ ان فرقوں کے نظریات ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں؟جن لوگوں نے تفرقہ بازی کے بیج بوئے اور جو اس کی آبیاری کرتے رہے،اچھی طرح جانتے تھے کہ فِرقوں کی بقا دراصل ان کی اپنی بقا ہے چناچہ انہوں نے دو طرفہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے ایک طرف تو یہ کیا کہ طرح طرح کے فروعی اختلافات پیدا کر دیے اور دوسری طرف اپنے پیروکاروں کے ایمان میں قدامت پرستی و انتہا پسندی کوکوٹ کوٹ کر بھر دیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی ایک فرقہ بھی ایسا نہ بچا جو کسی دوسرے فرقے کی نگاہ میں کافر نہ ہو؟
بات یہ ہو رہی تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارا نظریہ ہمارے عمل سے مختلف ہو گیا ، ہم نے قومی شناختی کارڈ کا اجرا ’’قوم وطن سے ہے‘‘کے اصول پر کرنا شروع کر دیاجبکہ نظریاتی طور پر ہم آج بھی ’’قوم مذہب سے ہے‘‘کے قائل ہیں۔ قول و فعل کا یہی تضاد ہمیں ایک ایسے مقام پر لے آیا ہے جہاں ایک طرف کھائی ہے اوردوسری طرف دلدل،اس پر ستم یہ کہ ہم یہ ماننے کو تیارہی نہیں کہ ہم بیک وقت دو متضاد منزلوں کے راہی بنے ہوئے ہیں۔
یہ بات قائدِ اعظم بھی جانتے تھے کہ دوقومی نظریہ پاکستان کو بنانے کے لئے ہے چلانے کے لئے نہیں ورنہ وہ آرمی چیف، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ قانون جیسی اہم ذمہ داریاں غیر مسلموں کو کیوں سونپتے؟ بالفرضِ محال یہ مان بھی لیا جائے کہ قائدِاعظم کا ہدف ایک کٹر مذہبی ریاست تھا تو پھر مذہبی جماعتوں نے تحریکِ پاکستان کی شدید مخالفت کیوں کی اور یہاں تک کیوں کہا گیا کہ جناح کا پاکستان اسلام کے نام پر ایک کافرانہ ریاست کا قیام ہو گا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی غلطی فوراً مان لی جائے اور اپنے نظریے اور رویے کے اس تضاد کوختم کر دیا جائے جس نے ہمیں اندر ہی اندر سے اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ ملک کی سلامتی کو ایک مرتبہ پھر بڑے شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔اس مقام پر جوش سے کہیں زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے اور ہوش کا تقاضا اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ہے کہ قومیں نظریے کے بغیر تو رہ سکتی ہیں لیکن ملک کے بغیر نہیں رہ سکتیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ نظریے کو بچاتے بچاتے ہم ملک کو ہی کھو دیں؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...