دیو سائی۔۔۔جہاں زندگی سے ملاقات ہوتی ہے
لیجیئے! برابر تین گھنٹے کی مارا ماری اور جگر کاوی کے بعد ہم دیو سائی کے منہ برابر آ ہی گئے اور کھڑے ہوتے ہی سردی سے ہمارے دانت بجنے لگے۔
دلاور عباس آدھی رات تک دیو سائی کے سفر کا انتظام کرتا رہا ،اِس میں نہ تو اُس نے جنوں سے مدد چاہی نہ دوستوں سے مگر دوسرے دن ضرورت کا ہر سامان میسر تھا۔ رات بسر کر نے کے لیے خیمے ، سلیپنگ بیگ ،بسترے ، کھانے پینے کے برتن ، چولہا ،چھری کانٹے ، جیکٹیں ،مچھلی پکڑنے کے کانٹے (جو وہاں کسی کام نہیں آئے کیونکہ وہاں مچھلی تو ایک طرف ،اُس کی بُو تک نہیں تھی یا کہیں تھی بھی تو ہر سیاح کے ہاتھ میں مچھلی کا کانٹا دیکھ کر فرار ہو چکی تھی ) یہ سب کچھ دلاور نے لینڈ کروزر میں رکھ دیا ،جو اُس نے اپنے بھائی سے بمع ڈرائیورعاریتاً حاصل کر لی تھی۔ صبح گوشت چاول اور گھی دودھ لیتے لیتے اور دوستوں کو اکٹھا کرتے کرتے،جو سکردو کی سائے دار گلیوں گلیوں بکھرے تھے ، پھر بھی گیارہ بج گئے۔ اللہ اللہ کر کے ساڑھے گیارہ بجے سکردو سے نکلے۔ نکلے سے کیا معنی سکردو سے اُوپر چڑھنا شروع کیا۔ اگر دیوسائی کی طرف نکلنا ہو تو چڑھائی پہلے قدم پر ہی شروع ہوجاتی ہے،پھر چڑھتے جاؤ، چڑھتے جاؤ اور نیچے مڑ کر مت دیکھوورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے یا گِر جاؤ گے اور فنا سے نہیں بچ پاؤ گے۔
ہم نے مڑ کر نہیں دیکھا کہ نیچے ہمارے ساتھ ساتھ ندی بہتی ہے یا سفید ہرنی کے دودھ کی نہر۔
جھیل کے سبزی مائل نیلے پانی کو دیکھتے جا یئے اور چلتے جایئے ،چلتے جایئے اور دیکھتے جایئے۔جہاں سے جھیل ختم ہوگی وہاں ایک چھوٹا سا گاؤں آئے گا ،اِسے لوئر صد پارہ کہتے ہیں ، وہی ہرے ہرے پانیوں کی پھیریاں اور درختوں کی سبزیاں۔ ہمارے دامنِ دل می کُھب کُھب کے رہ گئیں
ہم چھ نفر اور ایک ڈرائیور ،کل ملا کے سات مانس ،چار پانچ مرغیاں۔ فقط اتنے سے گناہوں کو اٹھا کر چلنے میں ہی گاڑی کا دم پھول گیا، ہونکنے لگتی اور چڑھائی تھی کہ برابر ہونے کا نام ہی نہ لیتی ، کوئی دس میل کے فاصلے تک ہم دو ہزار فٹ اُوپر اُٹھ گئے تھے اور گاڑی کا انجن غصے سے آگ بگولا ہو چکا تھا ۔ اس راستے پر سب سے پہلے صد پارہ جھیل آتی ہے ،جو اب ایک چھوٹے سے سمندر کے برابر ہو چکی ہے اور گہرائی کا تو سوچ کر ہی پسینہ اُتر آتا اور اُس کا پانی بعد میں اِسی گہرائی میں شامل ہو جاتا ہے۔ جھیل کے سبزی مائل نیلے پانی کو دیکھتے جا یئے اور چلتے جایئے ،چلتے جایئے اور دیکھتے جایئے۔جہاں سے جھیل ختم ہوگی وہاں ایک چھوٹا سا گاؤں آئے گا ،اِسے لوئر صد پارہ کہتے ہیں ، وہی ہرے ہرے پانیوں کی پھیریاں اور درختوں کی سبزیاں۔ ہمارے دامنِ دل می کُھب کُھب کے رہ گئیں۔ ڈرائیور صاحب بہت باتونی اور لطیفہ گو تھے مگر ہماری مصیبت کہ سوائے مادری زبان کے ، دوسری کو منہ نہ لگایا۔چنانچہ بلتی کے لطیفے ہماری سمجھ سے اتنے ہی باہر تھے جتنے ہم خود اُن کی سمجھ سے، لیکن اپنی خجالت مٹانے کو ہنستے ضرور جاتے تھے اور کبھی کسی لطیفے کا مطلب بھی پوچھ لیتے تاکہ اُنھیں اندازہ ہو کہ باقی سمجھ گئے تھے، یہ نہیں سمجھ سکے۔ جونہی اپر صدپارہ گاؤں پہنچے ایک پولیس چوکی نے روک لیا اور سب کو چھوڑ کر ہماری شناخت چاہی۔سچ پوچھیں تو اُس وقت ہمارا دل بہت ٹوٹا۔اب اُنھیں کیا کہتے ، ہمیں گوگل کر کے دیکھ لو،(جو وہاں اگلی صدی میں بھی نہیں پہنچے گی)کہ کتنے مشہور رائیٹر ہیں ،ادیب ہیں ، شاعر ہیں اور پتا نہیں کیا کیا ہیں۔ خیر ہم چپ رہے اور اپنا شناختی کارڈ نکال کر اُنھیں دکھایا اور آگے کا راہ پایا۔
اس حادثے کے بعد کچھ دیر کے لیے ہم تو بجھ سے گئے اور ہمارے ساتھی لونڈے بدستور چہکتے گئے لیکن پھر ہم بھی یہ سوچ کر مکرر لطفِ سفراُٹھانے لگے کہ دو نالائق کانسٹیبلوں کی وجہ سے کیوں اپنا سفر غارت کریں ،دنیا میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو ہمیں واقعی جانتے ہیں۔خیر ہم اُوپر ہی اُوپر چڑھتے جا رہے تھے اور برفوں والے پانی کا نالاہماری اُلٹی سمت نیچے ہی نیچے بہا جا رہا تھا ،برف کے تودوں کے بیچ سے ، کنکروں کے بیچ سے ، بڑے پتھروں کے بیچ سے، پھلدار درختوں اور پھولدار جھاڑیوں کے بیچ سے۔
بس یہ تھا کہ سردی بدستور بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر دس میل پردُگنی ہو رہی تھی۔ مگر واہ رہے بکریاں اور یاک اور گائے چرانے والے ، نہ تو اُنھیں کھائیوں سے ڈر لگتا تھا اور نہ سردی سے پالا۔ یہ اور اِن کی بکریاں اور گائیں اور یاک اونچے نیچے ، ٹیڑھے میڑھے،اُلٹے سیدھے اور خوفناک راستوں پر ایسے چل رہے تھے جیسے گھر کے آنگن میں گولٹا چھپاکی کھیل رہے ہوں
ہم اُلٹی طرف جا رہے تھے اور وہ سیدھی طرف ،یا ہم سیدھی طرف جا رہے تھے اور وہ اُلٹی طرف ، یہ ایک ایسا معما ہے جسے فی الحال ہم نہیں سلجھا سکتے کیونکہ ہم دیوسائی جا رہے ہیں۔ بس یہ تھا کہ سردی بدستور بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر دس میل پردُگنی ہو رہی تھی۔ مگر واہ رہے بکریاں اور یاک اور گائے چرانے والے ، نہ تو اُنھیں کھائیوں سے ڈر لگتا تھا اور نہ سردی سے پالا۔ یہ اور اِن کی بکریاں اور گائیں اور یاک اونچے نیچے ، ٹیڑھے میڑھے،اُلٹے سیدھے اور خوفناک راستوں پر ایسے چل رہے تھے جیسے گھر کے آنگن میں گولٹا چھپاکی کھیل رہے ہوں۔ حیرانی تو میری اُس وقت دو چند ہو جاتی جب متوازی چٹانوں پر یہ جانور برابر چڑھتے دیکھتا۔ ہر چرواہے کی کمر کے پیچھے بستر اور چولہا بندھا تھا۔
غالباً جہاں رات پڑتی ہوگی ،بستر کھولا اور لیٹ رہے۔ کھانے کو اِن کے پاس اِدھر اُدھر سے توڑی ہوئی سبزیاں اور خوبانیاں اور اُنھی بکریوں کا دودھ ہوتا جنھیں لیے لیے پھرتے تھے۔ رستے میں ہمیں کئی گلیشیرز بھی ملے ،جنھوں نے ندی کو ڈھکا ہوا تھا۔ کہیں کہیں چڑھائی اتنی ہو جاتی کہ نیچے اُتر کر دھکا لگانے کی ضرورت پڑ جاتی۔ تب معلوم ہوتا کہ مشین پر آدمی کا زور حاوی ہے۔ لیجیئے! برابر تین گھنٹے کی مارا ماری اور جگر کاوی کے بعد ہم دیو سائی کے منہ برابر آ ہی گئے اور کھڑے ہوتے ہی سردی سے ہمارے دانت بجنے لگے۔ خدا قسم ایک دفعہ تو بھول ہی گیا کہ مہینہ جولائی کا ہے ،ہم جنوری کا موسم خیال کرنے لگے۔ یہاں ساڑھے سولہ ہزار فٹ کی بلندی تھی ،سبز گھاس اور رنگا رنگ پھولوں کے ٹیلے تھے جن کے بیچ ہزاروں یاک اور لمبے بالوں والی بکریاں چَرپھِر رہی تھیں ،دور تک سر سبز ٹیلے ہی ٹیلے تھے جن پر جگہ جگہ برف کے چھوٹے بڑے گلیشیرز ہمیں چاندی دکھا رہے تھے ،یا ہمارا منہ چڑا رہے تھے ،کہ آؤاور ہمیں پکڑ کر دیکھو۔ بھئی اتنی بلندی پر آ کے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ ہم بھی بلند قامت آدمی ہیں۔مگر آسمان کی کمینگی کچھ نہ پوچھیے ،پہلے کی طرح مزید بلند ہو چکا تھا یعنی ایسا لگتا تھا کہ اُس نے اپنا فاصلہ نہیں گھٹایا۔خیر کسی دن پکڑ ہی لیں گے۔ کہاں تک بھاگے گا۔ ہم سب دوست ،مثل تیمور ،دلاور عباس ، ذی جاہ ، علی ، وقار اور علی اکبر ناطق گاڑی سے نیچے اُتر آئے۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی اور ٹھنڈ کافی بڑھ چکی تھی۔ ہم تو اِسی کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکلے تھے۔ فوراً جولائی میں گرم جیکٹیں اور چادریں نکال کر پہن لیں اور اوڑھ لیں اور دیو سائی کی گھاس اور اُودے اُودے ،نیلے پیلے، لال سنہری اورسُرمئی پھولوں میں لیٹنیاں لینے لگے۔ ہمارے پیچھے اور بھی لوگ آ رہے تھے ،ہمارے آگے اور بھی لوگ جا رہے تھے اور وہ سب بھی وہی کچھ خرمستاں کر رہے تھے جو ہم میں تھیں ، عورتیں کیابالیاں کیا ، بالکے کیا ،بڑے کیا ، سب پتا نہیں کہاں کہاں سے اکٹھے ہو لیے تھے اور یہاں ناچتے جھومر گاتے پھرتے تھے۔
بوڑھے نہیں دیکھے گئے۔ غالباً سانس لینے کا مسئلہ تھا جو کہ اب ہمیں بھی مشکل سے ہی آ رہا تھا ،یعنی تھوڑا سا چلنے پر چڑھ جاتا تھا ،نہ جانے ہم ساتوں کو لے کر گاڑی کیسے چڑھ آ ئی تھی۔ یعنی چڑھائی بہت تھی اور آکسیجن کم کم۔ تھوڑی دیر ہم یہاں لیٹے لُوٹے، پھر گاڑی پر بیٹھے اور آگے چلے ،یعنی بڑا پانی کے پاس جہاں ٹھنڈی ندی چلتی ہے اوررُکتی نہیں ہے سوائے اللہ میاں اور جاڑے کے حکم کے یہ سڑک کچی ہے ،اور یہاں مٹی ہے اور مٹی بھربھری ہے ، جس پر اگر بارش ہو جائے (جو اکثر ہوتی ہے بلکہ ہوتی ہی رہتی ہے) تو سمجھیے گاڑی واڑی کچھ نہیں چلے گی۔ ہاں اونٹ ،گھوڑے اور گدھے کی اور بات ہے اور وہ یہاں انسانوں کی شکل میں جون سے لے کر نصف اگست تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُس کے بعد اُن کا داخلہ بھی ممکن نہیں ،کہ سردی ،پالا اور برف باری اِس وادی کو سفید کفن اوڑھا کر درود فاتحہ پڑھ کر اگلی جون تک سُلا دیتی ہے۔ جہاں سے ہم یا ہماری گاڑی گزر رہی تھی ،اُس کے ارد گرد مٹی اور پتھروں کے اُونچے نیچے اور سرسبز ٹیلے حدِ نگاہ تک پھیلے تھے اور بہت زیادہ تھے۔ جن کے سروں اور پہلوؤں پر برف یا ٹھنڈی چاندی کی گٹھڑیاں باندھ کر رکھی ہوئی تھیں۔ ساتھ ساتھ ایک نالا بہے جاتا تھا، جو اِن ٹیلوں پہ پڑی چاندی کا پانی زمرد کے تختوں میں سے گویا زبردستی گھسیٹ کر لیے جاتا تھا۔ غالباً یہ بھی وہیں جا رہا تھا، جہاں ہم جا رہے تھے ،یعنی دیوسائی کے اُس مرکزی مقام پر جسے بڑا پانی کہتے ہیں ،جہاں ایک بڑی نہر بہتی ہے اور جسے اِسی طرح کے کئی دوسرے نالے بھی مختلف طرفوں کی پہاڑیوں سے پگھلی چاندی کا خراج وصول کر کے پہنچاتے ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ یعنی ایک قدم آگے اور دو پیچھے کے کلیے سے چلتے ہوئے بڑا پانی کے پاس پہنچ ہی گئے۔ اتنی تیزی سے اِس لیے سفر کیا کہ جہاں سے گزرتے تھے ،زمین اور سبزہ اور جنگلی پھول پاؤں پکڑ لیتے تھے، ہم نے ایک جگہ دیکھی جو ٹیلے سے بہت نیچے تھی،وہاں نالا کہکشاں کی طرح موڑ کھاتا جاتا تھا ،سبزہ اور گھاس اور جنگلی پھول اتنے کہ اللہ اکبر۔۔۔
ہم نے کہا بھی ذرہ گاڑی روکیے، ہم کچھ وقت فطرت سے ہم کلام ہو لیں۔ڈرائیور بولا ،بھئی آپ یہاں نہیں اُتر سکتے ،یہ سب کچھ چمکتے نالے کے ساتھ جو آپ کو سبزہ اور پھول نظر آتے ہیں ،دراصل اِن کے اندربہت گہری دلدل ہے جہاں ایک بار آپ پھنسے تو اِسی فطرت کا حصہ بن جائیں گے اور اگلی جولائی تک اِنھی گھاس اور پھولوں کی صورت اُگ آؤ گے اور لوگ اِسی طرح آپ کی زیارت کو آئیں گے۔ ڈرائیور کی یہ نامراد خبرسُن کر ہم رُک گئے اور بجھ سے گئے۔ کچھ آگے گئے تو پھر وہی منظر ، اُس نے ہمارے ارادے بھانپ کر وہی جملے کچھ مثالوں کے ساتھ پھر دہرائے اور کہا،پچھلے موسم میں ایک انگریز اپنی میم کو بڑی کرب ناک اذیت میں اسی دلدل میں کھو کر چلا گیا تھا ،بچارا بہت روتا تھا ،کوئی من بھر ٹشو خرچ ہوئے ہوں گے۔ ہم پھر اُترنے سے باز آئے۔ تھوڑی دُور آگے گئے تو اُس سے بھی زیادہ پُرکشش منظرتھا اور حدِ نگاہ تک تھا اور ساتھ ایک چمکدار نالے کے کئی کئی چکر بھی تھے۔اب کے ہم نے کہا، میاں اب تو چاہے دلدل میں ڈوب ہی جائیں اور لالہ و گْل میں نمایاں ہو ہی جائیں ،کچھ پرواہ نہیں مگر یہ منظر تو پاس جا کر ضرور ہی دیکھیں گے۔ یہ کہہ کررینگتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ لگا ہی دی۔ ہمیں دیکھ کر دلاور عباس بھی کود پڑا،پھر دھڑا دھڑ سب لڑکے بھی اُتر گئے۔ ہم سب کلانچیں بھرتے اور چوکیاں مارتے ہوئے نالے اور سبزے اور پھولوں کے پاس جا پہنچے ،دیکھا تو وہاں دلدل کی دال
(د) بھی نہیں تھی۔ بس ذرا مٹی نرم تھی اور کچھ کچھ گیلی تھی جہاں آدمی ذات تو کیا، ہاتھی بھی نہیں دھنس سکتا تھا ،جو گھاس میں اور پھولوں میں منہ چھپائے لیٹی تھی اور کمال لیٹی تھی ۔ اوہ، میرے خدایا ! ایسی زمین آج تک نہ دیکھی نہ بھالی ،اور یہاں آکے پالی۔ اس جگہ ہم سب نے ہر طرح سے تصویریں بنائیں ،لیٹ کے، بیٹھ کے ،کھڑے ہو کے اور اسٹائل بنا بنا کے، جو کہ اِن جگہوں پر جانے کا مقصد ہوتا ہے۔ویسے بھی جب سے یہ نامراد سیلفی نکلی ہے ،سیر سپاٹا دُگنا ہو گیا ہے اور مزا گھٹ کے آدھا رہ گیا ہے، مگر ہم بھی ایک ہی کائیاں تھے ،ایک تصویر بنوا کر اِدھر اُدھر بھاگ لیتے تھے اور لڑکے بالکوں کو سیلفیاں بنانے کے واسطے چھوڑ دیتے تھے۔(جاری ہے)
فیس بک پر تبصرے