یہ چودہ سو سالہ تقسیم مسلکی ہے یا سیاسی ؟

1,078

تقسیم کا آغاز کہاں سے ہوا ، ابنِ تیمیہ کا کردار کیا تھا ؟اور آج یہ تقسیم کس مقام پر ہے ؟

اس کا آغاز 1979ء میں انقلاب ایران سے ہوا یا پھر اس کی جڑیں گیارہویں  صدی میں سقوط ِ اندلس اور تیرہویں صدی میں سقوطِ بغداد سے  اٹھیں ۔اس تقسیم کے پیچھے ابن تیمیہ کا کردار ہے یا پھر آل سعود کا  ؟یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات جو آج ہماری زندگیوں سے جڑے ہوئے ہیں ان کا جواب کیا ہے ؟

یہ درست ہے کہ مسلمانوں میں پہلا اختلاف ثقیفہ بنو سعدہ میں  خلافت پر ہوا تھا یعنی خلافت پر کس کا حق ہے ؟تاہم  کہا جاتا ہے کہ تیرھویں صدی کے وسط تک  مسلمانوں کے دو مسلک تو تھے مگر ان میں تصادم کی صورتحال نہیں تھی ۔جب1031ء میں مسلمان سپین سے پسپا ہو رہے تھے تو مشرق سے تاتاری ابھر کر مسلمانوں کے شہر تخت و تاراج کر رہے تھے ۔وہ مسلمان جن کے زخم ابھی سقوطِ اندلس سے بھرے نہیں تھے کہ انہیں تاتاریوں نے آ لیا ۔1258ء میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی علامت بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔مشرق و مغرب میں مسلمانوں کےجس زوال کا آغا زہوا وہ رکا نہیں ۔عظیم الشان مسجد قرطبہ کو عیسائیوں نے کیتھڈرل میں بدل ڈالا توبغداد  منگلولوں کے لگائے ہوئے زخموں سے لہو لہو ہو گیا ۔ مسلمانوں کے علمی خزانوں کو آگ لگا کر انہیں دریا برد کر دیا گیا ۔ اس کے بعد مسلم سلطنتیں عربوں سے نکل کر عثمانیوں ، صفویوں اور مغلوں کے ہاتھوں میں آگئیں ۔

موجودہ دور میں اس اختلاف کے پیچھے استعماری مقاصد ہیں ۔ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا ۔جو جنگ عیسائیوں اور یہودیوں کی تھی اسے بڑی کامیابی سے مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ بنا دیا گیا ہے ۔القائدہ اور داعش کا بھی وہی فلسفہ ہے جو آل سعود کا ہے ، ثاقب اکبر

جب بغداد میں مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے مینار بنائے جا رہے تھے تو مولانا جلال الدین رومی زندہ تھے ۔بلخ افغانستان میں جنم لینے والے اس عظیم صوفی کی شاعری آفاقی تھی ۔وہ سمجھتے تھے یہ قتل وغارت وقتی ہے ۔اس لئے مولانا روم کی شاعری میں اس دور کی کوئی جھلک نہیں ملتی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو اپنی آفاقی اقدار ترک نہیں کر نی چاہئیں اور اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے جب یہ طوفان تھم جائے ۔ سقوط ِ بغداد 1258 ء  کے پانچ سال بعد 1263ء میں ترکی کے ایک قصبے میں ابن تیمیہ کا جنم ہوا ۔ابن تیمیہ کی پرورش اس ماحول میں ہوئی جب مسلمانوں کے حافظے میں ابھی  اپنے حسین ماضی قرطبہ و بغداد کے قصے  تازہ تھے ۔وہ اپنے کھوئے ما ضی کو دوبارہ حاصل کرنے کی جستجو میں تھے ۔اس موقع پر ابن تیمیہ نے جو مئوقف اختیار کیا وہ مولانا رومی کے بالکل متضاد تھا ۔ ابن تیمیہ نے کہا یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے ۔اس لئے  اس کا ادراک کرتے ہوئے اس کے خلاف سخت مئوقف اپنایا جائے  ۔انھوں نے ان منگول حکمرانوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا جو اسلام قبول کر چکے تھے مگر شریعت کی پابندی نہیں کرتے تھے ۔  ابن تیمیہ نے جس سخت گیر اسلام کو ابھارا بعد میں وہی فکرو فلسفہ سخت گیر مسلم تحریکوں کے آغاز کا سبب بنا ۔ دور جدید میں القائدہ ، دولت اسلامیہ ،بوکوحرام  وغیرہ کے نظریات کا ماخذ ابن ِ تیمیہ کی تعلیمات کو ہی گردانا جاتا ہے  ۔

آج مسلم دنیامیں جو تقسیم نظر آتی ہے اسے ابن تیمیہ اور رومی کی تقسیم کہا جا سکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اقتدار عربوں کے پاس تھا تو سپین میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے حامل افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے لیکن جب اقتدار عربوں سے نکل گیا تو مسائل پیدا ہوئے ، شہزادہ ترکی الفیصل

شہزادہ ترکی بن فیصل جو کہ سعودی شاہی خاندان کے اہم ممبر ہیں ۔امریکہ ،برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر رہ چکے ہیں اور شاہ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹدیز کے چیئر مین ہیں وہ بھی  کہتے ہیں کہ   آج مسلم دنیامیں جو تقسیم نظر آتی ہے اسے ابن تیمیہ اور رومی کی تقسیم کہا جا سکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اقتدار عربوں کے پاس تھا تو سپین میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے حامل افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر  رہ رہے تھے لیکن جب اقتدار عربوں سے نکل گیا تو مسائل پیدا ہوئے ۔

مولویوں نے مذہب کو نسلی شناخت میں بدل دیا ہے ۔آج مسلم دنیا میں مشرق وسطیٰ ہو یا مشرق ِ بعید مذہب ایک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال ہو رہا ہے ، ڈاکٹر سید جعفر احمد

تاہم ڈاکٹر خالد مسعود جو کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئر مین ہیں وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ ابن تیمیہ سے بہت پہلے یہ تقسیم تیسری صدی ہجری میں مکمل ہو چکی تھی کیونکہ عشری اور متصلی کے جب الگ اصول بن گئے تو گویا یہ تقسیم طے ہو گئی ۔الگ کتابیں لکھی گئیں اور مسلکی لڑائیاں بھی ہوئیں ۔مصر میں اسی بنیاد پر فاطمی سلطنت بنی ۔انھوں نے کہا کہ منگولوں نے مسلم علاقے فتح کئے اور پھر ان میں سے کچھ منگول حکمران مسلمان ہو گئے اور انھوں نے شیعہ مسلک قبول کیا تو ابن ِ تیمیہ نے ان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ۔لیکن وہ کسی فقہ کے قائل نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی پیروی کی تعلیم دیتے تھے ۔ابن تیمیہ کو دور جدید میں سخت گیر بنا کر پیش کیا گیا اور یہ کام محمد بن عبد الوہاب نے کیا۔انھوں نےآل سعود کے ساتھ مل کر  انیسویں صدی کے اختتام پر ان کی کتابیں چھاپیں اور ان کے فلسفے کو اپنے حق میں استعمال کیا اس کے پیچھے سیاسی مقاصد بھی تھے اور مسلکی بھی ۔عثمانی خلافت حنفی فقہ کی قائل تھی اس لئے وہ چاہتے تھے کہ خلافت پر عثمانیوں کی بجائے عربوں کا حق ہے ۔

البصیرہ اکیڈمی کے چیئر مین ثاقب اکبر کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تقسیم کاآغاز تو سیاسی طور پر ہوا مگر بعد ازاں اس اختلاف کو دینی شکل دے دی گئی ۔خوارج آئے پھر امام احمد بن حنبل انہی اختلاف کی وجہ شہید ہوئے ۔پھر فاطمی دور میں آغا خانی اور بوہرے بھی سامنے آئے ۔انھوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اس اختلاف کے پیچھے استعماری مقاصد ہیں ۔ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا ۔جو جنگ عیسائیوں اور یہودیوں کی تھی اسے بڑی کامیابی سے مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ بنا دیا گیا ہے ۔القائدہ اور داعش کا بھی وہی فلسفہ ہے جو آل سعود کا ہے ۔ابن تیمیہ کے فلسفہ سے اہل ِ وہاب نے استفادہ کیا ۔بر صغیر میں شاہ ولی اللہ اور مجدد الف ثانی نے اسی بنیاد پر شیعہ اور سنی میں، ہندو اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کی ۔اورنگ زیب عالمگیر جس نے تخت کے لئے اپنے بھائیوں کی آنکھیں نکلوا دیں  اورباپ کو قید کر لیا  وہ ان کا آئیڈیل ہے ۔

معروف تاریخ دان و سیاسی مفکر اور پاکستان سٹدی سینٹر کراچی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ مذہب کے دائرے کے اندر اگر نقطہ نظر کا اختلاف ہے تو یہ تقسیم نارمل ہے ۔کیونکہ چاروں فقہ کے بانی تو ایک دوسرے کے دشمن نہیں تھے مگر بعد میں یہ اختلاف جو نقطہ نظر کاتھا وہ  عقیدوں پر آگیا۔ایک عقیدے کے حامل گھرانے میں  پیدا ہونے والا دوسرے عقیدے کے بارے میں سوچ نہیں سکتا ۔مولویوں نے مذہب کو نسلی شناخت میں بدل دیا ہے ۔آج مسلم دنیا میں مشرق وسطیٰ ہو یا مشرق ِ بعید مذہب ایک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال ہو رہا ہے ۔

ابن تیمیہ کو دور جدید میں سخت گیر بنا کر پیش کیا گیا اور یہ کام محمد بن عبد الوہاب نے کیا۔انھوں نےآل سعود کے ساتھ مل کر انیسویں صدی کے اختتام پر ان کی کتابیں چھاپیں اور ان کے فلسفے کو اپنے حق میں استعمال کیا اس کے پیچھے سیاسی مقاصد بھی تھے اور مسلکی بھی ، ڈاکٹر خالد مسعود

گویا مذہب سے زیادہ سیاست ایک ایسا زاویہ ہے جو حالات و واقعات کو بدل دینے پر قدرت رکھتا ہے ۔ہمارے ارد گرد بہت کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے جس کے مقاصد  خالصتاًسیاسی ہوتے ہیں  مگر ہم اسے مذہبی معاملہ سمجھتے ہیں کیونکہ ہم میں نہ مذہبی شعور ہے نہ سیاسی ،اس لئے مذہب کے نام پر سیاست کا ہم سب سے آسان شکار ہیں اور اس بات کی گواہ ہماری چودہ سو سالہ تاریخ ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...