داعش اپنے پر پھیلا رہی ہے
داعش نے ان ریاستوں کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے جو سمجھتی تھیں کہ ان کے ہاں ایسی فضاء اور ماحول نہیں ہے جواس گروپ کے لیے سازگار ہو
داعش کی اصل قوت تو اب ظاہر ہونا شروع ہوئی ہے۔دنیا کے مختلف حصوں میں حالیہ دہشت گردی کی لہر نے اس گروپ کے بارے میں گذشتہ تمام جائزوں اور تخمینوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
داعش عملی دنیا کے ساتھ ساتھ سائبر سپیس میں بھی فعال ہے۔سائبر سپیسز میں یہ نوجوان مسلم ذہنوں کو پرا گندہ کر رہی ہے اور ان کے نظری، سماجی،ثقافتی اور نفسیاتی ابہامات کو مزید بڑھا رہی ہے۔جس کا اظہار تشدد کی صورت میں ہورہا ہے۔دوسری طرف یہ نہ صرف طاقتور ریاستوں کو دعوت مقابلہ دے رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد گروہوں کو بھی للکار رہی ہے۔
داعش نے ان ریاستوں کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے جو سمجھتی تھیں کہ ان کے ہاں ایسی فضاء اور ماحول نہیں ہے جواس گروپ کے لیے سازگار ہو۔اس کی حالیہ مثال بنگلہ دیش ہے۔افغانستان کی حکومت بھی یہ سمجھتی تھی کہ اسے تو پہلے سے ہی طالبان کی عسکریت پسندی کا مسئلہ درپیش ہےاور خوش تھی کہ داعش نے طالبان نے طالبان کے خلاف محاذ کھولا ہے۔لیکن کابل کے حالیہ خود کش حملے نے اس کی خوش گمانی کا خاتمہ کر دیا ہے۔
داعش نے ایک جنگ برپا کر رکھی ہے یہ القاعدہ کے برعکس کچھ بھی اندھیرے میں نہیں کرتی۔اس نے حالیہ دہشت گرد حملوں کا عندیہ بہت پہلے سے دے رکھا تھا۔ایک امریکی ماہر انسداد دہشت گردی ولیم میک کانٹس داعش کے زیر اثر علاقوں کو تین درجوں میں تقسیم کرتا ہے ۔پہلہ داعش کے کنٹرول میں ریاست نما علاقے وہ علاقے جہاں اس نے شورش برپا کر رکھی ہےاور وہ علاقے جہاں اپنے حامی گروپوں اور افراد کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اس کے خیال میں عراق اور شام کے علاوہ لیبیا اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جہاں کچھ علاقوں میں اس نے اپنی محدود ریاست قائم کر رکھی ہے۔
اگرچہ داعش کی خراساں ولایت افغانستان میں ننگرہار کے محض چند علاقے قائم ہے،لیکن یہ مسلسل اس کے حدود طالبان کے حدود میں وسیع کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ننگرہار کے علاوہ بھی بھی دیگر علاقوں میں اس نے محدود پیش رفت کی ہے۔ حالیہ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کے ایک دھڑے ،جنداللہ جواب داعش کی اطاعت قبول کر چکی ہے نے قندوز اور تخار میں اثر وروسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔پر وہ علاقے ہیں جہاں طالبان بھی اپنا حلقہ اثر بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ داعش طالبان کا تعاقب کررہی ہے اور جہاں طالبان اپنا اثر بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں وہاں یہ بھی پہنچ جاتی ہے
افغانستان کی اندرونی حالات پر نظر رکھنے والے ایک تحقیقاتی ادارے افغانستان انالٹس نیٹ ورک (اے این این ) کے مطابق اگرچہ داعش کی دیگر علاقوں میں گھسنے کی کاوشیں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکیں لیکن اس نے یہ کوشش ترک نہیں کی ہیں اے این این کی ایک رپورٹ نے انتباہ دیا ہے کہ داعش کی کشش کی ایک زیادہ خطرناک رجحان ہے ،جو مستقبل میں ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
ابتدا میں داعش ہلمند ،فرح اور لوگر صوبوں میں نمودار ہوئی تھی اس کے بعد ننگرہار اور ذابل کی باری آئی ننگرہار میں داعش دراصل پاکستانی شدت پسندوں پر مشتمل تھی جو پہلے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے اور فوجی آپریشنز سے بچنے کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔ان کی نقل مکانی 2010 سے شروع ہوگئی تھی ۔لیکن افغانستان کے سیکورٹی اداروں نے ان شدت پسندوں کو نظر انداز کرنا بہتر سمجھا۔انہیں یہ گروپ پاکستان کے خلاف ایک اسٹرٹجک اثاثہ محسوس ہوئے اور انہوں نے ان کی پرورش کی۔ اے این این کی رپورٹ کے مطابق خیبر ایجنسی میں سرگرم شدت پسند گروہ لشکر اسلام ننگرہار پہلے ہی پہنچ گیا تھا اور داعش جیسے منصوبے پر عمل کر رہا تھا اس کے کالے جھنڈوں اور نعروں میں داعش سے مماثلت تھی۔بعد میں دیگر گروہوں کے ساتھ اسی کےکمانڈر بھی داعش میں شامل ہوگے۔رپورٹ کا دعوی ہے کہ افغان حکومت کی لشکر اسلام لیے حمایت اور معاونت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔
اس سے تو ایک مرتبہ پھر ثابت ہو تا ہے کہ شدت پسند ان قوتوں کے مقابلے میں زیادہ موقع پرست اور ہوشیار ہوتے ہیں ،جو انہیں اپنی کٹھ پتلی سمجھتی ہیں۔افغان ادارے اس واہمے میں تھے کہ یہ گروپ صرف پاکستان میں اپنی کاروائیاں کرینگے اور اسی امید پر ان کی پرورش کررہے تھے۔لیکن جب یہ شدت پسند داعش میں شامل ہوئے اور جون 2015 سے اپنی توپوں کا رخ افغانستان کی طرف بھی کیا تو انہیں ہوش آیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان طالبان بھی یہی سبق حاصل کیا جب انہیں زابل سے آئی ایم یو(داعش کی اتحادی) کو نکالنا پڑا ۔آئی ایم یو ایک دور میں افغان طالبان کا آثاثہ تھی،جسے وہ شمالی افغانستان میں راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتاتھا۔لیکن جب یہ وسط ایشیائی شدت پسند داعش میں شامل ہو ئے تو اپنی بندوقے طالبان پر ہی تان لیں۔
افغانستان اور پاکستان شدت پسندوں کے بارے میں ایک پہلو آکثر نظر انداز کر دیتے ہیں وہ ان کی فرقہ وارانہ شناخت ہے جس کی مدد سے ان کے انسانی وسائل اور آپریشنل قوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اے این این کے مطابق ننگرہار میں سلفی فیکٹر بہت اہم رہا ہے۔ یہاں نقل مکانی کرنے والے پاکستانی شدت پسند یا تو پہلے سے سلفی تھے یا بعد میں سلفی اسلام قبول کر لیا ۔ داعش اور طالبان کے درمیان کش مکش کی ایک وجہ ان کی الگ الگ فرقہ وارانہ شناختیں بھی ہیں۔
داعش جنوبی ایشیاء میں قدم جما رہی ہے۔ یہ محض افغانستان بنگلہ دیش اور پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ مالدیپ اور سب سے بڑھ کر بھارت میں بھی سرگرم ہے اوروہاں کسی بھی وقت نمودار ہو سکتی ہے۔جنوبی ایشیاء میں داعش ایک مقامی عسکری تحریک ہے اور ہر علاقے میں خود مختار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عالمی تحریک سے بھی منسلک ہے ۔کیا جنوبی ایشیائی حکومتیں بھی مقامی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ ایک علاقائی کاوش کرسکتی ہیں ؟
(بشکریہ ڈان)
فیس بک پر تبصرے