پاکستانی فخر سے گریزکیوں کرتے ہیں
مغربی میڈیا کسی پاکستانی کی تعریف کردے توہمارے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو ہم ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ لگے کہ قابل فخر شخص ہم میں سے نہیں ہے۔ یا تو اتنی تعریف کرتے ہیں کہ وہ موصوف پاکستانی نہ لگے۔
ایسا نہیں کہ ہم قابل فخر قوم نہیں یا ہم نے کبھی کوئی قابل فخر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ دنیا جانتی ہے کہ مغرب نے جو بھی ترقی کی وہ ہماری نقل کرکے حاصل کی ہے۔ ہم ان باتوں پر فخر سے گریز اس لئے کرتے ہیں کہ ہم دنیا پر یہ احسان جتلانا نہیں چاہتے۔ دوسرے اب حالات بدل گئے ہیں ۔ مغربی اقوام میں بے حیائی اور فحاشی عام ہو گئی ہے۔ اب وہ اس راستے سے ہٹ کر اسلام کی تلاش میں ہیں۔۔ ہم بے حیا کو اسلام کیا جینے کا قابل نہیں سمجھتے۔ ہم غیرت کے لئےاپنی سگی بہنوں اور بیٹیوں کو قتل کر دیتے ہیں ۔تیسرے اب انڈیا، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا ہر جگہ مسلم بیزاری کی لہر اٹھی ہوئی ہے۔ الحمد للّٰہ مودی اورٹرمپ جیسے لوگ اسلام سے خوف زدہ ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے اسلام کا خوف ان کے دل سے نکل جائے۔اس لئے ہم پاکستانی کسی بھی قسم کے فخر سے گریز کرتے ہیں ۔
ہم نے اس کے لئے بہت سی تدابیر اختیار کی ہیں۔ بعض تو ایسی ہیں جو ہم لا شعوری طور پر کرتے ہیں۔ مثلاً ہم کسی کوزیادہ یا زیادہ دیر قابل فخر نہیں رہنے دیتے ۔ مغربی میڈیا کسی پاکستانی کی تعریف کردے توہمارے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو ہم ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ لگے کہ قابل فخر شخص ہم میں سے نہیں ہے۔ یا تو اتنی تعریف کرتے ہیں کہ وہ موصوف پاکستانی نہ لگے۔ ہم اسے فخر چکوال، فرزند راولپنڈی، شیر لاہور، بابائے ہزارہ وغیرہ کا لقب دے کر پاکستان کے کسی علاقے سے منسوب کر تے ہیں۔ اسے علاقائی ظاہر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اس علاقے سے باہر پاکستان میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا۔ یا اسے فخر ایشیا اور فخر عالم وغیرہ قرار دے کر پاکستان سے باہر نکال دیتے ہیں۔ یا پھر اسے فرشتہ یا ولی بنا کر اسے غیر فطری مخلوق کے خانے میں ڈال دیتے ہیں تا کہ اس کا عملی دنیا سے کوئی واسطہ نہ رہے۔ ان القاب سے کام نہ چلے تو پھر مجبوراً اس کے عقائد وغیرہ کا ایسے ذکر کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی کیا مسلمان ہی نہ لگے۔ ہم یہ شور و غوغا کبھی نادانستہ اور اکثر دل پر پتھر رکھ کے کرتے ہیں کہ پتا چلے کہ مغربی میڈیا اسے کتنا قابل فخر بتا رہا ہے۔ اگر ذرا سا بھی شک ہو ہم فوری طور پر پلان بی پر عمل شروع کردیتے ہیں۔
پلان بی کا کوڈ نام بھوکا جاٹ ہے اس کا مقصد دشمن کو گمراہ کرکے یہ تسلی دلانا ہے کہ ہم کسی پاکستانی کو قابل فخر تو سمجگتے ہیں لیکن اتنا بھی نہیں۔ ضرب المثل ہے کہ بھوکے جاٹ کو کٹوری مل گئی تو پانی پی پی کر اپھر گیا ۔ ملالہ ہو یا ایدھی ہم اس پرفخر کے اظہار میں بھوکے جاٹ کی طرح بے حال ہو کرزمین آسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں۔ تاہم ہماری تجاویز بہت محتاط ہوتی ہیں۔ مثلاً کوئی سڑک یا کوئی عمارت ان کے نام سے منسوب کردی جائے۔ کسی ایوارڈ کا اعلان کردیا جائے۔ اس سے دشمن کو یہ اطمینان دلانا مقصود ہوتا ہے کہ ہم اس معاملے میں زیادہ سیریس نہیں۔ سڑکوں اور عمارتوں کے نام بدلنے سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں، نہ ہی کسی ایوارڈ سے قوم کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ قائد اعظم، قائد عوام، قائد ملت وغیرہ کے القاب
ضمیر کا بوجھ اتارنے کے کام آتے ہیں ۔ قائدین کے کام کو جاری رکھنے کی ذمہ داری سے بری ہو کر خود انحصاری کے اسرار کھلتے لگتے ہیں۔ ہم اپنے جامے میں پھولے نہیں سماتے۔تودشمن ہماری طرف سے بے فکر ہو جاتا ہے۔
پلان بی فیل بھی ہو سکتا ہے ۔ مغربی میڈیا ہمارے اپھارے کو حقیقی سمجھ کر پاکستانی کو واقعی قابل فخر بھی سمجھ سکتا ہے۔ ایسے میں پلان سی پر عمل ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کا کوڈ نام بیرونی سازش ہے۔ اور اس کا ہدف دشمن کے ذہن کو ماؤف کرنا ہے۔ دشمن اس مخمصے میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کام اس سے کیوں منسوب کیا جارہا ہے۔ لیکن جب اسے یہ اعترافی دعوے بھی سنائی دیتے ہیں تو اس کا میٹر گھومنے لگتا ہے۔ یہی اس پلان کا موصد ہے۔اس پلان میں ہمارے دونوں بازو حرکت میں آجاتے ہیں۔ دائیں بازو والے تردید کی جانب اور بائیں ولے تائید کی سمت ۔ تردید والے اس بحث میں پڑے بغیر کہ میڈیا میں کس سوال کے حوالے سے بات ہو رہی ہے ’’بیرونی سازش‘‘ کا جوابی بیانیہ اپنا لیتے ہیں۔ اس فارمولے کا یہ اصول ہے کہ کوئی الزام اپنے سر نہ لیں۔ صاف انکار کردیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ہم پلان کو مخفی رکھتے ہوےایک غیر متعلقہ سی مثال دیتےہیں۔ اگر میڈیا والا پوچھے امریکہ کس نے دریافت کیا؟ تو فوری جواب ہے کہ جناب ہم نے نہیں کیا۔ ہم ایسا کیوں کریں گے۔ امریکیوں نے خود ہی ایسا کیا ہوگا۔ اس کے بعد مزید تفتیش ہو تو کہ دیں کہ یہ کام کسی پاکستانی کا نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا۔ اسی اثنا میں تائید والے ڈھول بجانا شروع کردیں اور اس رفڑے میں پڑے بغیر کہ اصل سوال کیا ہےکسی نہ کسی پاکستانی کو سامنے لا کر یہ قابل فخر کارنامہ اس کے نام منسوب کر دیں۔ اگر پاکستانی نہ ملے تو اس قابل فخر کارنامے کو کسی عرب کا یا کسی مسلمان کا نام لے کر واضح کر دیں کہ امریکہ اسی نے دریافت کیا تھا۔ باقی پوچھ گچھ اسی سے کر لیں۔ яндекс
پلان سی کے تحت مغربی میڈیا پر یہ نیوز بریک ہوتے ہی کہ کسی پاکستانی نے کوئی قابل فخر کارنامہ سر انجام دے دیا ہے، ابلاغ کا بازار لگ جاتا ہے۔ تردید اور تائید والے دوںوں مجمعے لگا کر اپنے چورن بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ بیانیوں کی لوٹ سیل لگ جاتی ہے۔ مہربان قدر دان سب بیک وقت بول رہے ہوتے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ سامعین اور ناظرین خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ اب تو مغربی میڈیا کا سر گھوم گیا ہوگا ۔
مغربی میڈیا اپنے بے خواب کواڑ مقفل کر لیتا ہے کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا ۔ ہم تائید اور تردید کے چورن اگلے اپھارے کے لئے پیک کر لیتے ہیں ۔ بیانیے لپیٹ لئے جاتے ہیں۔ اس اطمینان کے ساتھ کہ ہم پر کسی فخر کے اظہار کا قرض نہیں۔ تہذیب حاضر ہمارے قابل فخر خنجر کی منتظر نہیں۔ خود کشی کرے گی تو اپنے ہی خنجر سے۔
فیس بک پر تبصرے