ترکی: فوجی انقلاب سے عوامی انقلاب تک

923

ترکی میں فوجی بغاوت کیوں ناکام ہوئی ؟ اردگان کو خفیہ اطلاع کس جرنیل نے دی ؟ حقائق منظر عام پر

ترک فوج کے ”امن کونسل” کے نام سے ظاہر ہونے والے ایک دھڑے کی  جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب حکومت کا تختہ الٹنے کی  ناکام سازش کی تفصیل وقت کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آرہی ہے جس  کے بعد سے ملک بھر میں حکومتی اداروں کی صفائی کا کام جاری ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انقلاب 17 جولائی کو علی الصباح شروع ہوگا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر حالات کا پانسہ پلٹا توباغیوں نے عجلت سے کام لیکر طے شدہ وقت سے 6گھنٹے پہلے 15جولائی کو شام 9 بجے بغاوت شروع کی رپورٹ کے مطابق  فوج کے ایک مخصوص گروہ  کے تین ہیلی کاپٹروں نے مرمریس شہر میں ترکی صدر کی جائے اقامت کا رخ کیا  جن میں40 فوجی سوار تھے اور ان کوباغی سرغنوں کی طرف سے اردوان کوگرفتار  یا قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اردوان اس گروہ کے پہنچنے سے 44 منٹ قبل  وہاں سے نکل چکے تھے اور ہوٹل کی لابی میں اردوان کے خصوصی محافظوں اور انقلابیوں کے درمیان لڑائی ہوگئی۔

نیز ترکی  کی سیاسی شخصیات کی مارنے یا گرفتار کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی تھی ،بغاوت کی منصوبہ بندی میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ16 جولائی کو صبح 6 بجے ملک بھر میں  ایمرجنسی لگانے اور کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا جائیگا تا کہ اس کے بعد ملکی امور کو چلانے کیلئے ایک  ٹیم  بنائی جاسکے جو 80ارکان پر مشتمل ہو جن کے نام تفصیل کے ساتھ سکرپٹ میں موجود ہیں جن میں سب سے پہلا نام انقلاب کےمنصوبہ ساز اور فضائی فوج کے سابقہ چیف جنرل آکن اوز ترک کا ہے جس کو جنرل حلوس کی جگہ قیادت سنبھالنی تھی جنرل بکیر ارجان کانام بھی موجود ہے جس کو ادانا شہر کا کنٹرول سنبھالنا تھا جبکہ سردار احمد کو جنا قلعہ شہرکاکنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا  جہاں اہم سمندری آبنائے ہے جنرل ہدایت اری کویونان اور بلغاریہ کی سرحدوں پر واقع ارنا شہر کا قلمدان ملنا تھا ،جنرل مراد کو  شام کی سرحد  پرغازی عنتاب شہرکے امور کی قیادت کرنی تھی ۔رپورٹ سے معلوم ہوتاہے کہ کسی وجہ سے حالات تبدیل ہوگئےجس کی وجہ سے باغیوں کو اپنا منصوبہ تبدیل کرنا پڑا،یہی  وجہ ہے    باغیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کیا وجہ تھی لیکن ترکی میڈیا نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس راز سے پردہ اٹھایاہے جس کی وجہ سے انقلاب ناکام ہوگیا ،ترک میڈیا کے مطابق جب جنرل حلوس کو اس بات کا علم ہوگیا  کہ اردوگان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کی گئی ہے تو انہوں نےکمانڈر جنرل دوندار کو فون کیا اور تمام تفصیلات سے آگاہ کیا تو کمانڈر دوندار نے اردگان سے خود بات کی اور ان سے مرمریس میں انکی اقامت گاہ چھوڑنے کی درخواست کی  کیونکہ وہاں ان کی جان کو خطرہ تھا اور کمانڈر نے اردوان کو انقرہ کی  بجائے استنبول جانے کا مشورہ دیا ،صدر نے فی الفور اس  جگہ کو  چھوڑ دیا چنانچہ چند منٹ کے بعد انقلابی ان کو ڈھونڈنے اسی ہوٹل پہنچ گئے اس بات نے انقلاب کے منصوبہ سازوں کو اپنا منصوبہ تبدیل کرنے پر مجبورکردیا ۔ترک ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ چیف آف  آرمی سٹاف جنرل حلوس اور  کمانڈر امد دوندار نے  باوجودیہ کہ  وہ فوج کا حصہ تھے انقلاب کو مسترد کردیااور  ترک جمہوریت کے ساتھ مخلص رہے ۔

اب تک منظرعام پر آنے والی معلومات کے مطابق ترکی میں بغاوت کی  یہ کوشش اب تک کی سب سے منظم، خطرناک اور خوں ریز سازش تھی، لیکن ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر اور فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اسے ناکام بنا دیا.

ترک حکومت  نے  کھل کر اس سازش کا ذمہ دار فتح اللہ گولن اور امریکا کو قرار دیا ہے۔ترجمان کے مطابق روس، ایران،متحدہ عرب امارات ،کویت اور بعض ملکی سیکولر عناصر نے سازش میں حصہ لیاہے. بغاوت میں ملوث اکثر فوجی افسران کا تعلق اقلیتوں سے ہے یا کم از کم ان کی مائیں اقلیتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔حکومت کی جانب سے تیزی کے ساتھ ان باغی عناصر کا صفایا جاری ہے اور تادم تحریر 103 جنرلز سمیت تقریبا آٹھ ہزار  فوجی جوانوں کو گرفتارکیا جاچکا ہے. ان فوجیوں کا تعلق تینوں مسلح افواج سے ہے.

دوسری جانب وزارت داخلہ کے 8777 اہل کاروں کو بھی معطل کردیا گیا ہے جن میں تیس اعلی ٰعہدے دار شامل ہیں. ان کے علاوہ دوہزار سے زائد ججوں کو بھی کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔مزید براں صدر طیب اردوان نے استنبول میں پرواز کرنے والے کسی بھی فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کا حکم دے دیا ہے۔

اس واقعے کے بعد سے ترک عوام کی طرف سے سزائے موت کی بحالی کامطالبہ بھی زور پکڑ گیا ہے جس  میں کہا گیا ہے کہ  پھانسی کی سزا بحال کر کے باغیوں کو  ابدی نیند سلا دیا جائے تاکہ دوبارہ کوئی اس قسم کے اقدام کی جرات نہ کر سکے۔ترک صدر اردوان نے  ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ اس بل کو  پاس کردیتی ہے تو وہ اس پر دستخط کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گے۔

جبکہ دوسری طرف یورپی یونین کی طرف سے باغیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن حالات کے رخ سے اندازہ  ہوتا ہے کہ ترک صدر  باغیوں کے حامیوں کی بجائے اپنے اس عوام کے مطالبے کو عملی جامہ پہنائیں گے جس نے جان پر کھیل کران کو اور جمہوریت کو بچایا،عوامی انقلاب کے بعد صدر اردوان اپنے آپ کو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط محسوس کریں گے  اور  پہلے سے کہیں بڑھ کر دلیرانہ اور بولڈ فیصلے کریں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...