لکھنا، آج اور آنے والے زمانے میں
”لفظ خود ایک شہادت ہے۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا، اس نے تخلیق کی تھی۔ پھر یہ تخلیق فعل و علم میں شیر و شکر ہو گئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔
انتظار حسین نے اس مسئلے پر 1962ءمیں لکھا تھا اور کہا تھا کہ آج کے زمانے میں لِکھنا سُود مند ہے کیا؟ انتظار صاحب، تب حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ خبر، پڑھنے کے بعد شاکر علی پاک ٹی ہاﺅس آئے اور انتظار حسین کے لفظوں میں ”مجھے پُرسا دیا کہ ”آخر کو تم بھی سکتر بن گئے۔“ جیسا کہ انتظار حسین کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ کا سیکرٹری منتخب ہونا گویا مالی منفعت سے جُڑا کوئی کام ہے۔ تاہم پتہ یہ چلا کہ خاص طور پر ہمارے جیسے معاشروں میں لکھنا اور وہ بھی ادب کا، سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ لکھنے والے کے لیے اور لکھنے والے کے عزیز و اقرباءکے لیے۔ شاید، اسی لیے ہمارے یہاں جب کسی کے تعارف میں یہ بتایا جاتا ہے کہ موصوف کو شعر و ادب سے علاقہ ہے، تو چھوٹتے ہی یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔ ”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن کام کیا کرتے ہیں؟“
گویا لکھنا، ادب و فن سے تعلق ہونا، کتاب کے ساتھ رشتہ رکھنا کوئی کام نہیں، بلکہ کام یہ ہے کہ آپ کسی ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہیں، آپ تجارت کرتے ہیں، سوسائٹی میں آپ کی پہچان ایک ایسے فرد کے طور پر ہے جس کے پاس دولت ہے اور آپ شہر کی اشرافیہ میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ طے پایا کہ آپ کی شناخت کا بنیادی معیار پیسہ ہے نہ کہ علم۔
حقیقت مگر اس میں بہت حد تک یہی ہے۔ اور یہ حقیقت ہم نے بطور معاشرے کے جیتے جاگتے افراد کے خود تخلیق کی ہے۔ اب اپنی اس تخلیق کو شاخ نازک پر بیٹھے رونا دھونا لگائے بیٹھے ہیں۔ ”معاشرے سے اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے، تہذیب نام کو نہیں رہ گئی، تعلیمی اداروں میں جس طرح کی تعلیم دی جا رہی ہے اسے تعلیم کہنا ہی غلط ہے، وغیرہ وغیرہ۔“
اس صورتِ حال سے ریاست کا کوئی ایک آدھ حصّہ یا کوئی ایک نسل متاثر نہیں ہوئی، اثرات پورے طور پر پورے ریاستی ڈھانچے پر برابر کے پڑے ہیں۔ یعنی حاصل جل چُکا ہے یا جل رہا ہے لیکن اس حاصل کی یاد، باقی رہ گئی ہے۔ یہاں ایک بار پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ حاصل تھا جو جل چکا ہے یا جو جل رہا ہے۔ جس کے غم میں ہم برابر کُڑھتے رہتے ہیں۔
لفظ سے اور حرف سے تو ہم سہمے ہوئے ہیں، علم سے ہمیں خوف آتا ہے، کتاب ہماری ترجیح نہیں، لکھنے والے کو معاشرے میں کوئی مقام دینے کے روادار ہم نہیں…. ہر فرد مالی اور مادی منفعتوں میں بھاگے چلا جا رہا ہے۔ کوئی ادارہ، کوئی انسان ایسا نہیں جو اس آلائش سے آلودہ نہ ہو اور جسے دوسرے لفظوں میں ہم تہذیب، معاشرت اور ریاست کے لیے زہرِ قاتل قرار نہ دے رہے ہیں۔
ایسے میں لکھنے والے کا کیا کردار رہ جاتا ہے۔ یا پھر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ ماضی میں لکھنے والے کا جو کردار ہونا چاہیے تھا وہ کردار اُس نے نبھایا نہیں ہے۔ یا پھر، سماجی، سیاسی اور معاشرتی حالات اسے رفتہ رفتہ اپنی ڈگر سے پیچھے ہٹاتے چلے گئے ہیں۔ یا پھر آج بھی ادب کوئی کردار ادا کر سکتا ہے بزَعمِ خویش اس سنہری ماضی کی جھلکیاں دکھانے کے لیے، کہ لے دے کے ایک یہی راستہ رہ جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہو رہے اس معاشی کھیل میں دھم سے کود کر تو شاعر، ادیب آنے سے رہا۔ اس کے پاس ملٹی نیشنل اداروں کے جواب میں، وہ سب کچھ کرنے کی حیثیت ہی کہاں ہے، جو وہ کر سکے!
اسی لیے ہمارے یہاں جب کسی کے تعارف میں یہ بتایا جاتا ہے کہ موصوف کو شعر و ادب سے علاقہ ہے، تو چھوٹتے ہی یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔ ”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن کام کیا کرتے ہیں؟“
یہاں ایک نیا سوال اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ آخر دنیا کے وہ ملک جو تہذیبی بازیافت اور اخلاقی قدروں کے مخمصے میں نہیں پڑے، اور جنہیں یک قومیتی اور یک لسّانی کا مرض بھی لاحق نہیں ہوا، ترقی کی دوڑ میں جو آسمان کو چھُو رہے ہیں، لفظ کو، حرف کو اور عِلم کو ان کے یہاں اعتبار بھی حاصل ہے اور تقدّس بھی۔ وہاں ”لکھنا“ بھی سوال نہیں، ادیب کو جہاں تکریم مِلتی ہے۔ اور جہاں لکھنے والے سے یہ سوال بھی نہیں کیا جاتا کہ وہ کام کیا کرتا ہے؟ پتہ یہ چلا کہ وہاں لکھنے کو کام تصوّر کیا جاتا ہے۔ جہاں ایک صدی کے بعد بھی ڈان کی ہوٹے کے مصنّف سروانتیس کو وہی قدر و منزلت ملتی ہے۔ جو گارشیا مارکیز، کافکا، میلدن کنڈیرا، حوزے سارا میگو، پاﺅلو کوئیلہو، اور بورخیس کو آج حاصل ہے۔ کیا ہم لفظ کی حُرمت سے انکاری ہو چکے ہیں۔ کیا عِلم کی بے حرمتی جیسے گناہ کے ارتکاب کی سزا ہمیں دی جا رہی ہے جو ہماری موجودہ صورت ہے اور جس میں آئے روز، سیاست دانوں کی سیاسی شُعبدہ بازیوں، نقّالوں اور پیشہ وروں کے ان تمام جگہوں کو اپنے گھیرے میں رکھ لینے اور وہاں سے ذرّہ برابر ادھر ادھر نہ ہلنے کے باعث اک تماشا ہو رہا ہے۔ وہ جگہیں جہاں عِلم کو اور دانش کو دخل ہونا چاہیے تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا آج کے وقت میں ہی جواب دیا جانا ضروری ہے۔ بات چونکہ انتظار حسین، کے مضمون کے حوالے سے شروع ہوئی تھی، تو انہی کے اس مضمون کے ایک اقتباس پر بات ختم بھی کرتے ہیں، حالاں کہ یہ بات ایسی ہے نہیں کہ جسے ختم کیا جائے:
آخر دنیا کے وہ ملک جو تہذیبی بازیافت اور اخلاقی قدروں کے مخمصے میں نہیں پڑے، اور جنہیں یک قومیتی اور یک لسّانی کا مرض بھی لاحق نہیں ہوا، ترقی کی دوڑ میں جو آسمان کو چھُو رہے ہیں، لفظ کو، حرف کو اور عِلم کو ان کے یہاں اعتبار بھی حاصل ہے اور تقدّس بھی۔
”لفظ خود ایک شہادت ہے۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا، اس نے تخلیق کی تھی۔ پھر یہ تخلیق فعل و علم میں شیر و شکر ہو گئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلے سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں۔ ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے۔“
اس اقتباس کو غور سے پڑھنے اور کچھ لحظے ٹھہر کر سوچنے کی ضرورت ہے۔
(زاہدحسن اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں فکشن اور تنقید لکھتے ہیں، تاہم پچھلے کچھ عرصہ سے پنجابی ناول پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔ رسائل و جرائد میں ادبی ،سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں )
فیس بک پر تبصرے