ایدھی کی عیدی

997

ایدھی نے جیتے بھی شرمندہ رکھا مر کر بھی شرمندہ کر گئے۔ ایدھی کے معیار پر ہم نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔

ایدھی مرتے مرتے بھی ہم سب کو شرمندہ کر گئے۔ آخر میں ان کے بدن میں صرف آنکھیں رہ گئی تھیں جو کسی کے کام آسکتی تھیں۔ ایدھی وہ بھی عیدی دے گئے۔ گیتوں میں برہا کی  ماری تو کا گا سے یہ ِبنتی کرتی سدھاری تھی کہ تن کا سارا ماس چن چن کھائیو پر دو نینا مت کھائیو۔ وہ آخری سانس بھی پیا مِلن کی آس میں ِبتانا چاہتی تھی۔ ایدھی تو سب کچھ تیاگ کر پیا کے پاس گئے۔ ایدھی نے جیتے بھی شرمندہ رکھا  مر کر بھی شرمندہ کر گئے۔ ایدھی کے معیار پر ہم  نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔ اسی شرمندگی میں ہم سب بار بار کہ رہے ہیں کہ ایدھی صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہم   یہ کہ کر در اصل  ایدھی کی روایت کو جاری رکھنے کی ذمہ داری کا بوجھ   سر سے اتاررہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بہت سوں نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر  یہ تک کہ   ڈالا کہ ایدھی ہم میں سے نہیں تھے۔ انہوں نے ایدھی کو مورد الزام  بھی ٹھہرایا  ہے کہ وہ ایسے کام کیوں کرتا تھا جس سے لوگوں کو اپنا ایمان  مشکوک لگتا تھا اور عقائد کمزور نظر آتے تھے۔ ان کے لئے  یہ کہنا زیادہ آسان تھا کہ ایدھی بھٹک گیا ہے ۔

آخروہ اس نفسا نفسی کے دورمیں غریبوں، ضرورتمندوں اور لاچاروں کی اتنی بے لوثی سے خدمت کیوں کرتا تھا جب ضرورت مند کی ضرورت سے فائدہ اٹھانا کاروباری اصول اور غریبوں کو لوٹنا امیر کی ضرورت تسلیم کیا جا چکا ہے اور اسے دولت کی ہوس کہ کر نظر انداز بھی  کر دیا جاتا  ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کےرفاہی فنڈ میں لاکھوں کروڑوں روپے ہوں اس کے پاس کوئی لینڈکروزر، پراڈو، اور ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹر نہ ہو  اور بیس سال پرانی چپل  پہنے پھرتا ہو۔ وہ صرف ہمیں شرمندہ کرنے کے لئے ایسا کرتا تھا۔ ایسی شرمندگی صدیوں بعد ہی قابل برداشت ہے۔

ایسا آدمی جو فرقوں، مسلکوں، سلسلوں، مزاروں اور مسجدوں میں بٹی دنیا میں انسانیت اور اخلاقیات کی بات کرتا ہو،  ایسا شخص جو جنت اور دوزخ کی پرچیاں تقسیم کرتے منبروں اور محرابوں  کے بیچوں بیچ  کھڑا سب کے لئے دعا کا طالب ہو ، ایسا رفاہی دانشور جو ریاست سے کچھ نہ چاہتا ہو، جو نیکی کے لئے نہ حکومت کی امداد کا منتظر ہو نہ اجازت کا ، صدیوں بعد ہی پیدا ہونا چاہیے۔

ایدھی کے کام  سے بہت سے رفاہی اداروں  کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ رضاکارانہ کام کا  یہ کٹھن معیار کہ اس فنڈ سے اپنی ذات پر خرچ نہ کیا جائے اور ایسی غربت کی زندگی بسر کی جائے جس میں نہ گاڑی ہو نہ شوفر، نہ بنگلہ ہو نہ نوکر چاکر، نہ ہوٹل نہ فرسٹ کلاس ٹریول، نہ پروٹوکول، نہ بیرونی فنڈ۔  سادگی کا یہ انداز کہ غریبی میں ہی نام پیدا کیا جا ئے،خودی بیچے بغیر۔ اس مرد درویش نے تو یہ پول بھی کھول دیا کہ لوگوں کی خدمت ریال اور ڈالروں کے بغیر بھی ممکن ہے۔  اگر اعتبار ہو تو پاکستانی بھی رفاہی کاموں کے لیے  جیبیں اور دل  دونوں کھول دیتے ہیں۔ ۔

ایسے ملک میں جہاں عزت، غیرت اور پگڑی ہی سب کچھ ہو، جہاں غیرت کے نام پر نوزائیدہ بچے کوڑے میں پھینکے جاتے ہوں، گلا گھونٹ کر مار دینا ماں کی مجبوری ہو وہاں ایدھی نے جھولے کی ریت ڈال کر غیرت کو نئے معنی دئے ۔ ہم اس نئے تصور کو سمجھ نہ پائے۔  ہم ان سوالوں میں الجھے رہے کہ ایسے بچے کو رجسٹر کون کرائے ۔ اس کی ولدیت کیا ہو۔ اس کا نام کیا ہو۔ اس کی حیثیت کیا ہوگی۔ اسے یتیم کہیں گے یا متروک اور  لاوارث۔ ایسے بچے کا مذہب کیا ہو گا  سنی کہ شیعہ۔ مر گیا تو اس کا جنازہ پڑھا جائے گا کہ نہیں۔  دینی تعلیم کے لئے اسے کونسے وفاق میں جگہ ملے گی۔ اور پڑھ لیا تو لوگ اس کو نماز میں امام کریں گے یا نہیں۔ اس کا فتوی قبول اور معتبر ہو گا کہ نہیں۔

&ایدھی کی نظر میں ہربچہ معصوم پیدا ہوتا ہے اور قابل احترام۔ وہ بچہ بھی جسے ماں اپنی عزت بچانے کے لیے کوڑے میں پھینک گئی، وہ بھی جو یتیم اور لا وارث ہے، اور وہ بھی جس کے ماں باپ کا پتہ نہیں۔  یہ نو مولود ان سارے بنیادی حقوق کا حق رکھتا ہے جو کسی انسان کو حاصل ہیں۔

غیرت اور انسانیت کے یہ معانی زبان پر تو آنے لگے ہیں ، شاید دل بھی مانتے ہوں لیکن ہماری نظر دیکھ نہیں پاتی۔ اس نظرکے لیے ایدھی کی آنکھیں درکار ہیں۔ شاید اسی لئے اس دنیا سے جاتے وقت وہ اپنی آنکھیں یہیں چھوڑ گئے۔ فریحہ نقوی نے اسی مناسبت سے کہا ہے

اندھوں کی دنیا میں آنکھیں چھوڑنے والے

کاش تری آنکھوں سے دنیا دیکھ بھی پائے

ایدھی کی عیدی ہم سب کو شرمندہ کر گئی ہے۔ ہم حیا اور شرم کے طعنے تو دیتے ہیں لیکن صرف دوسروں کو۔ کاش یہ شرمندگی ہماری آنکھوں کی زبان بھی بن جائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...