بقائے دوام : میلان کنڈیرا کی ایک تخلیقی جہت
ارشد وحید نے اس ناول کو اردو میں ڈھالتے ہوئے عمدہ نثر اور فن ترجمہ میں اپنی مہارت کے باعث اردو قاری کو بھی حیرت اور خوشی کے اس سفر میں برابر شریک رکھا
بقائے دوام کی کہانی کا آغاز ایک دل ربا اشارے سے زندگی پاتا ہے۔ ایک عورت رخصت ہوتے ہوئے سوئمنگ پول کے قریب اپنے سوئمنگ انسٹرکٹر کو الوداع کہتی ہے اور اسے ہاتھ لہرا کر اشارہ کرتی ہے۔ لکھنے والا جو وہیں قریب موجود ہے، زندگی سے لبریز اس اشارے کو اپنے اندر پھلتا پھولتا محسوس کرتا ہے۔ یہ اشارہ اس کے تخیل میں بس جاتا ہے اور تخلیق ہوتی ہے، اس سے جڑے ہوئے ایک کردار کی، جسے وہ ایگنس کا نام دیتا ہے۔ اس ایک کردار سے پھر دوسرے کردار جنم لیتے ہیں اور ان کرداروں کے اردگرد اور ان کے درمیان ایک کائنات تخلیق ہوتی چلی جاتی ہے۔ میلان کنڈیرا کا ناول بقائے دوام جیسے جیسے لکھنے والے پر بتدریج منکشف ہوتاہے، ایسے ہی وہ پڑھنے والے پر اپنے آپ کو بے نقاب کرتا ہے۔ مصنف کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس حیرت اور خوشی کو جو خو داسے کشف کے اس تمام عمل کے دوران محسوس ہوئی، قاری تک پوری ایمان داری اور قوت کے ساتھ پہنچایا۔ اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ ارشد وحید نے اس ناول کو اردو میں ڈھالتے ہوئے عمدہ نثر اور فن ترجمہ میں اپنی مہارت کے باعث اردو قاری کو بھی حیرت اور خوشی کے اس سفر میں برابر شریک رکھا۔
بقائے دوام کی خواہش قدیم ترین انسانی خواہشوں میں سے ایک ہے۔فنا ہوجانے کی مجبوری انسان کو زیادہ سے زیادہ اس خواہش سے جوڑتی ہے۔ انسان ہمیشہ باقی رہنا چاہتا ہے۔ جسمانی طورپر نہ سہی، روحانی طورپر ہی سہی۔ہم نہ رہیں،اور کچھ نہیں تو، کوئی ہمارا نام لیوا ہی ہو، کوئی ہم جیسا ہی جو ہمارا حوالہ بنے۔ ہزاروں سال قدیم آسٹریلوی قبائل کے سرخ چکنی مٹی سے بنے ہاتھوں کے نشانات غاروں میں دریافت ہوئے ہیں۔ انھیں بنانے والوں نے بھی اپنے بعد کے آنے والوں کے لیے اپنی موجودگی کے نشانات چھوڑے تھے، وہی بقائے دوام کی خواہش کہ جب وہ نہ رہیں تب بھی لوگ انھیں جانیں اور پہچانیں۔
میلان کنڈیرا نے اپنے ناول میں بقائے دوام کے ساتھ ساتھ کئی دوسری فکری نقطے بھی جیسے میڈیا کا آپ کی خلوت میں دخل دینے کا حق، گیارہویں کمانڈمنٹ، انسانی حق اور خواہش کا ادغام وغیرہ۔ یہ ناول میلان کنڈیرا کے سبھی ناولوں میں سب سے زیادہ فکری جھکاؤ رکھتا ہے۔ ہمیں اس کی خیال آرائیاں اور فکری مہمات بھی اتنی ہی پرکشش اور جاذب توجہ معلوم ہوتی ہیں، جتنا ناول کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کی زندگیاں۔
میلان کنڈیرا کے ناولوں کی جس ٹرائیالوجی کو ’بقائے دوام‘ مکمل کرتا ہے، اس میں باقی دونوں ناول ’ہستی کا ناقابل برداشت ہلکا پن‘ اور ’ہنسی اور فراموشی کی کتاب‘شامل ہیں۔ یہ تینوں ناول اس صنف سخن میں ایک مختلف روایت کے علم بردار ہیں۔ ان کا فکری موضوعات پر مکالمہ، فلسفیانہ انداز نظر اور انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ انھیں اپنے ہم عصر ادب میں ممتاز و منفرد بناتا ہے۔
جیسا کہ مجھے علم ہے، ناول کا پیش نظر اردو ترجمہ برسوں پہلے مکمل کرلیا گیا تھا۔ ایک سے زائد مرتبہ اسے ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ اور حتی کہ کمپوزنگ کے عمل سے گزارہ گیا۔ پھر طویل وقفوں کے لیے اسے بے توجہی کے طاق میں ڈال دیا گیا۔ ایک سے زائد پبلشروں کو یہ چھپنے کو دیاگیا اور پھر ان سے واپس لے لیا گیا۔
ارشد وحید کی پہچان ان کا ناول گمان بنا جو پاکستانی تاریخ میں سیاسی جبر سے عبارت ایک دور کا بیانیہ ہے۔اس موضوع پر کم ہی تحریریں ہمیں اردو میں دکھائی دیتی ہیں۔ مارشل کے خلاف تو چند ایک کہانیاں اور ناول پھر بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ لیکن ایک خاص دور میں اشتراکیت کے زیر اثر یہاں آنے والی فکری، سیاسی اور سماجی ہلچل کو کسی ایک جگہ یوں تفصیل کے ساتھ جم کر زیر بحث نہیں لایا گیا۔ ایک پورا دور تھا جو ان اثرات میں لت پت تھا اور سوچنے سمجھنے والوں کی کئی نسلیں تھیں، جو ایسے خوابوں سے آلودہ تھیں جو یہاں پیش آتے آتے رہ جانے والے اس مختصر سرخ انقلاب نے انھیں دیے تھے۔ کیسے پھر ان خوابوں کی ٹوٹ پھوٹ ہوئی، شکست کی پسپائی شروع ہوتی ہے تو کیسے سپاہی یا تو الٹے قدموں بھاگتے ہیں، ادھر ادھر چھپ جاتے ہیں، مارے جاتے ہیں یا پھر آخری دم تک میدان نہ چھوڑنے کی ضد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گمان میں اس دور کے مختلف رویوں اور مظاہر کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر ارشد وحید چوں کہ خود بھی انھی انقلاب پسندوں کی ٹولی میں شامل رہے، اس لیے انھوں نے ذاتی تفصیلات کے ساتھ اس روداد کو مکمل کیا۔
ترجمہ کے میدان میں بقائے دوام ارشد وحید کا پہلا معرکہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ مارکیز کا ناول ’وبا کے دنوں میں محبت‘ کے نام سے ترجمہ کرچکے ہیں۔ اب ’بقائے دوام ‘ منظر عام پر آیا ہے۔ ان دونوں ادیبوں کا انتخاب اتفاقی نہیں ہے۔ دونوں بلند پایہ ادیبوں میں سیاست اور جنس کے آمیزے سے گندھے ہوئے ناول کے موضوعات، پلاٹ ، اسلوب اور کردار مشترکہ خصوصیات ہیں۔ دونوں ہی سیاسی جبر کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔ کنڈیرا تو اس جبر کا زبردست شکار بھی ہوا۔ اس کے ناول خود اس کے اپنے ملک میں 1989تک ممنوعہ رہے۔اب وہ فرانس کا شہری ہے۔ وہ فرانسیسی میں لکھتا ہے۔ اس کے متعدد ناول چیک زبان میں جس میں وہ لکھے گئے تھے، بعد میں چھپے اور فرانسیسی زبان میں پہلے۔ اپنی زمین اور زبان سے دور ہوجانے کے دکھ کو اس نے اپنے ناولوں کا موضوع بنایاہے۔ مارکیز کے ہاں بھی سیاسی جبر بنیادی موضوع کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس جبر سے انسانی کردار اور رویوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، مارکیز کے ہاں کرداروں کا مسخ ہوجانا انھی تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔ مزاجوں اور موضوعات کا یہ اشتراک ارشد وحید کو ان ادیبوں سے جوڑتا ہے ۔
میلان کنڈیرا کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی فکریات کے باوجود نثر کو بوجھل نہیں ہونے دیتے، پورا اہتمام کرتے ہیں کہ یہ فکری خشکی پڑھنے والے کو قرات سے دور نہ کرے، اس کی دلچسپی کا تار بندھا رہے۔اور بعض اوقات یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پلاٹ بھی اسی مقصد کے لیے درمیان میں لاتے ہیں۔ ترجمہ میں اس سے تو مفر ممکن نہیں ہے کہ اس میں اصل تحریر کی سی تازگی اور رعنائی نہیں لائی جا سکتی۔ اور نہ ہی اس الزام سے بچا جا سکتا ہے، کہ یہ ہمیشہ اصل تخلیق کی ایک ناکام نقل ہوتا ہے۔ لیکن اپنی زبان میں پوری ایمان داری اور خلوص کے ساتھ اس کی ایک ہوبہوتصویر پیش کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ خلوص ہی کامیاب اور ناکام کوشش کے درمیان خط انقطاع کھینچتا ہے۔ ورنہ ایک طورسے دیکھا جائے تو ہر کوشش ہی ناکام ہوتی ہے، اور دوسرے طور سے ہر کوشش کامیاب۔
بلاشبہ ارشد وحید کو مبارک باد دی جا سکتی ہے کہ انھوں نے دقت نظری اور مہارت سے اس ناول کو اردو میں ڈھالا لیکن اس مہارت اور دقت نظری کو سطح پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ایک اچھے اداکار کی طرح ایک اچھا مترجم بھی وہی ہے جو پتہ نہ لگنے دے کہ یہ متن اصل نہیں، ایک نقل ہے۔
فیس بک پر تبصرے