اوریانیت
عریانیت ظاہر کی آنکھ کو نظر آتی ہے۔ اوریانیت دل کی آنکھ کو دکھائی دیتی ہے۔ عریانیت لباس سے چھپائی جا سکتی ہے لیکن اوریانیت چھپائے نہیں چھپتی۔
پچھلے دنوں ایک اشتہار میں ایک باپ کی نافرمان بچی کو کرکٹ کے میچ میں اچھلتے کودتے دکھایا گیا ۔ میڈیا میں بچی کی نافرمانی اور اچھل کود کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ لباس میں بھی بہت سے لوگوں کو قابل اعتراض حرکتیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے تو نہیں تھکتے کہ اس میں جا ن ومال کا نقصان ہے لیکن اس دہشت گردی پر جس میں عزت اور ایمان پر چھریاں چل جاتی ہیں صرف اندر ہی اندر کڑھتے ہیں لیکن زبان نہیں کھولتے صرف اس لئے کہ اسے کھل کر عریانیت، بے حیائی اور بے حجابی نہیں کہا جاسکتا ۔ ایک عرصے سے محسوس کیا جارہا تھا کہ کوئی لفظ ایسا ہو جو اس بے حیائی کو عریاں کر ڈالے۔
اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا جس نے گذشتہ ہفتے اوریانیت کا لفظ متعارف کرایا۔عریانیت عربی زبان کا لفظ ہے، اوریانیت اردو کا۔ لیکن فرق صرف ہجوں کے ہیجان کا نہیں واہمے پر اعتماد کا بھی ہے۔عریانیت ظاہر کی آنکھ کو نظر آتی ہے۔ اوریانیت دل کی آنکھ کو دکھائی دیتی ہے۔ عریانیت لباس سے چھپائی جا سکتی ہے لیکن اوریانیت چھپائے نہیں چھپتی۔
قانون میں پہلے سے ہی یہ بات مسلم ہے کہ لباس پہنے ہوے بھی انسان عریاں ہوتا ہے اسی لئے خواتین سےملنا جلنا اورہاتھ ملانا بالکل منع ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر بعض جیّد علما نے عید سعید کے موقعے پر احتیاطاًمردوں سے بھی معانقہ اور جپھی کو ممنوع قرار دیا ہے۔
اوریانیت سوشل میڈیا میں تازہ وارد لفظ ہے جس کی تعریف فی الحال ممنوع ہے کہ یہ نام لیتے ہی کسی معروف و محترم شخصیت کا خیال آتا ہے۔ ہماری رائے میں کسی لفظ کی تعریف بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ اس تعریف کو قصداً‘ اشارتاً، کنایتاً، مجازاً یا حقیقتاً کسی شخص‘ گروہ ‘ فرقے‘ جماعت یا مکتبہ فکر سے منسوب کرنا تعریف نہیں تعریض کہلاتا ہے ۔ ہم ایسے تمام بیانات پر احتجاج کرتے ہیں جن میں اس لفظ کو کسی شخص سے منسوب کیا گیا ہے ۔ ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اوریا نیت کسی اعتبار سے بھی عریانیت کا اردو ترجمہ نہیں ہے۔ ایسا سمجھنا اور اس پر اصرار کئی واسطوں سے شرعی کبائرسے جڑا ہے اور چار متقی، نیک، پاک اور چشم دید گواہ پیش نہ کرنے پر فریقین اور باقی ماندہ گواہوں کی دنیا اور عاقبت عذاب بن سکتی ہے۔
یہ سب کرکٹ کا کیا دھرنا ہے کہ بچی نے باپ کی نافرمانی کرکے اپنی عاقبت ہی خراب نہیں کی بلکہ متعدد ناظرین کا ایمان بھی غارت کیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ پیمرا بے بس ہے کہ لباس میں عریانی کو کیسے ثابت کرے
سوشل میڈیا کا سرکاری موقف یہ ہےکہ اور دوسری برائیوں اور خرابیوں کی طرح معاشرے میں یہ بے راہروی بھی کرکٹ کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔ کرکٹ سے وابستہ لوگ دھرنے، حکومت کی نافرمانی اور موسیقی وغیرہ کو رواج دے رہے ہیں۔ دینی جماعتوں کی سر توڑ کوششوں سے کرکٹ کے کچھ کھلاڑی تو راہ راست پر واپس آئے اور کرکٹ عوامی نفرین کا نشانہ بنی لیکن خواتین کی کرکٹ میں شمولیت کی وجہ سے نافرمانی کے دھرنوں کی روش سڑکوں سے گھروں میں آگئی ۔ یہ سب کرکٹ کا کیا دھرنا ہے کہ بچی نے باپ کی نافرمانی کرکے اپنی عاقبت ہی خراب نہیں کی بلکہ متعدد ناظرین کا ایمان بھی غارت کیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ پیمرا بے بس ہے کہ لباس میں عریانی کو کیسے ثابت کرے۔ اوریانیت کی نئی اصطلاح سے اصلاح احوال کی امید جاگی ہے۔ اوریانیت کے وسیلے سے بے حیائی کا ایسا وسیع مفہوم سامنے آرہا ہے جس کی بنا پر دل کی آنکھ سے دیکھی عریانی کے مرتکب کو بھی سزا دی جا سکے گی۔ اور یوں صالحین کے دلوں کو عریاں بینی کے ہیجان سے سکون اور گناہ سے چھٹکارا مل سکے گا۔
اب موقع ہے کہ اس حوالے سے ہم اردو ادب کا تزکیہ بھی شروع کریں۔غالب اور اقبال جیسے نامور شاعروں کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ عریانی صرف لباس سے نہیں چھپتی۔ لیکن انہیں اوریانیت جیسا جامع لفظ دستیاب نہیں تھا۔ اس لئے دونوں نے عریانیت کو ہی اوریانیت کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ غالب نے بچشم خود قیس کو تصویر کے پردے میں عریاں دیکھا۔ عام گناہگار آدمی کوپردے میں عریانی نظر نہیں آتی۔ اس لئے ایسے اشعار بے معنی سمجھے گئے۔کلام غالب کے شارحین کی رائے میں اس زمانے میں یا تو مرد بھی پرد ہ کرتے تھے یا یہ کسی ایسے قیس کا ذکر ہے جسے اپنے مرد ہونے کا یقین نہیں ہوگا۔ اسی لئے تصویر پہن کر پھرتا تھا۔ اگر غالب کو معلوم ہوتا تو عریاں کی بجائے اوریاں باندھتے۔ اقبال نے غالب کی طرح منہ پھوڑ کر کسی کا نام تو نہیں لیا۔ صرف کسی حسن بے پروا کی بےحجابی کا ذکر کیا ہے جو شہروں کی بجائے بنوں میں جا کر یہ حرکتیں کیا کرتی تھی۔ وزارت تعلیم اور پیمرا کا فرض منصبی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایسے تمام اشعار اور عبارات سے عریاں، عریانی یا عریانیت کے الفاظ حذف کرے اور ا ن کی جگہ اوریاں ، اوریانی اور اوریانیت کے الفاظ درج کرانے کا اہتمام کرے تاکہ ان عظیم شعرا کی روحوں کو سکون ملے۔ اوریانیت کی دریافت کے بعد سے ان کی روحیں بے چین ہیں کہ انہیں عریانی، بے پردگی اور بے حجابی کا گلہ تو تھا لیکن وہ اسے برا نہ کہ سکے۔ بے دریغ مجازی استعمال کی وجہ سے یہ لفظ قانون کی دسترس سے باہر رہا۔ بلکہ عریانیت کے معانی سے بھی خارج سمجھا جانے لگا ۔ اب سوشل میڈیا میں اس کی بڑی دھوم دھام سے واپسی ہوئی ہے تو مجازی اور وہمی عریانی کے قابل دست اندازی پیمرا ہونے کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں۔
قانون میں پہلے سے ہی یہ بات مسلم ہے کہ لباس پہنے ہوے بھی انسان عریاں ہوتا ہے اسی لئے خواتین سےملنا جلنا اورہاتھ ملانا بالکل منع ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر بعض جیّد علما نے عید سعید کے موقعے پر احتیاطاًمردوں سے بھی معانقہ اور جپھی کو ممنوع قرار دیا ہے۔ ایسے مفتی حضرات جو شدید ضرورت کے علاوہ خواتین کو مردوں کے سامنے آنے سے منع کرتے ہیں وہ بھی حجاب کی شرائط اور آداب کے تحت خواتین کو اس طرح مسکرانے سے منع کرتے ہیں کہ ان کے دانت نظر آنے لگیں یا اس طرح کلکاریاں مار کر ہنسیں کہ ان کی آواز سنی جاسکے۔ یہ فتاوی اوریانیت کے لفظ کے اس مفہوم کی تائید کرتے ہیں کہ عریانیت لباس سے نہیں چھپتی۔ غالب کو شکایت تھی کہ انہیں دن میں تو نہیں رات کو بنات النعش بھی آسمان میں عریاں دکھائی دیتی تھیں۔ ان کے اشعار کی مناسب ترمیم سے یہ شکایت دور ہو جائے گی۔ ان کا مشہور شعر اب یوں پڑھا جائےگا۔
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ اوریاں ہو گئیں
فیس بک پر تبصرے