چھیڑ چھاڑ سے ہاتھا پائی تک

788

خان صاحب نے ایک آہ بھر ی اور کہا تم چھیڑ چھاڑ کے اسرار و رموز سے نا آشنا ہو۔ یار سے چھیڑ رشتہ قایم رکھنے کے لئے چلی جاتی ہے ۔ الفت نہیں تو نفرت ہی سہی۔ وصل نہیں تو حسرت ہی سہی

بات چھیڑ چھاڑ سے ہاتھا پائی تک پہنچی تو مرزا غالب بھی گھبرائے کہ دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا۔یاد آیا کہ ایک دن مولوی غالب ہی پیش دستی کر بیٹھے تھے۔ بات آئی گئی ہو جاتی لیکن سراپا ناز نے رقیب خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور وہ سنائیں کہ مولوی غالب وارے نیارے ہو گئے۔ تاہم دل ناداں حیران تھاکہ یہ گالم گلوچ سن کر رقیب خان وجد میں آ رہا تھا اور بار بار یہی کہے جاتا تھا

”کتنے شیریں ہیں تیرےلب“۔

اشتہاروں کا وقفہ ہوا تو مولوی صاحب نے آف دی ریکارڈ احوال پوچھا۔ خان صاحب نے ایک آہ بھر ی اور کہا تم چھیڑ چھاڑ کے اسرار و رموز سے نا آشنا ہو۔ یار سے چھیڑ رشتہ قایم رکھنے کے لئے چلی جاتی ہے ۔ الفت نہیں تو نفرت ہی سہی۔ وصل نہیں تو حسرت ہی سہی۔یہ سن کر کشور حسین کے شاد باد حفیظ جالندھری کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے۔فرمانے لگے چھیڑ چھاڑ کے احوال و مقامات عقل کے ادراک سے باہر ہیں ۔ عشق میں چھیڑ چھاڑ کا مقام دیدہ تر کے احوال سے پہلے آتا ہے۔ غم کے بادل اسی چھیڑ چھاڑ کی گھٹاؤں سے اٹھتے ہیں اس لئے فورا برس پڑتے ہیں۔رقیب خان بے تاب ہو گئے شاہنامہ کے رازدان سے نیاز مندانہ سوال کیا کہ چھیڑ چھاڑ تو دوسال سے جاری ہے بادل کب تک برسیں گے۔ جالندھری صاحب کے جواب سے پہلے ہی اعلان ہوا کہ وقفہ ختم ہوا اور گالم گلوچ کا پروگرام وہیں سے شروع ہو گیا جہاں بریک آئی تھی۔

پروگرام کی اینکر سراپا ناز فتحمندانہ مسکراہٹ کے ساتھ بحث کو سمیٹ رہی تھیں۔ دھول دھپا ،چھیڑ چھاڑ اور ہاتھا پائی کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کر رہی تھیں کہ چھیڑ چھاڑ ایک جارحانہ رویہ ہے جو ہندوستان سے پاکستان آیا ہے۔ کوئی انڈین فلم ایسی ہوگی جو چھیڑ چھاڑ سے شروع نہ ہو۔ اکشرو بیشتر کوئی خان نام کا ہیرو گانے گاتے ہوئے کسی خاتون کو چھیڑ تا دکھا یا جاتا ہے۔ ناظرین حسرت ہی حسرت میں اس چھیڑ چھاڑ کو دل سے لگا لیتے ہیں۔ اور موقع ملتے ہی اپنی قسمت آزما نے لگتے ہیں۔ لیکن جب نوبت ہاتھا پائی کو پہنچے تو حیران ہوتے ہیں کہ صنف نازک کو یہ رول تو نہیں دیا گیا تھا۔ چھیڑ چھاڑ کا مقصد تو لڑکی کے دل میں بھگوان کی عزت جگا نا ہے تاکہ وہ مرد کی پوجا کرنا سیکھے۔ چھیڑ تو ڈر خوف کے لئے ہے کہ عورت گھر سے باہر نہ نکلے۔ ساوتری گھر کے مندر میں سجی ہی پوتر ہے۔ چھیڑ چھاڑ تونیکی کا کام ہے ۔

چھیڑ چھاڑ کے نظریے کے مطابق مرد بے چارہ چھیڑتا ہے تو یا تو اس لئے کہ ہیرے کی حفاظت اس کا دھرم ہے۔ یا پھر عورتوں کے لباس، میک اپ اور ناز و انداز کا شکار ہوکر اسے اپنا فطری فریضہ یاد آنے لگتا ہے۔لیکن عورتیں اس کی مجبوری کو نظر انداز کرتے ہوے دھول دھپے اور ہاتھا پائی پر اتر آتی ہیں۔سراپا ناز کی باچھیں کھلی جاتی تھیں کہ اب عورتیں چھیڑ چھاڑ سے خوف زدہ نہیں ہو تیں کیونکہ ان کو پتا چل گیا ہے کہ اس کا فلسفہ کیا ہے۔

(ڈاکٹر خالد مسعود  کئی کتابوں کے مصنف اورنامور دانشور ہیں ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین بھی رہ چکے ہیں ۔کئی بین الاقوامی  تعلیمی اداروں میں درس و تدریس سے منسلک  رہ چکے ہیں )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...