تاریخ کا ایک گمشدہ باب,جب یورپی پناہ گزین مشرق وسطی پہنچے
تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ پولستانیوں کو ایران نے پناہ دی تھی لیکن آج پولینڈ شامی پناہ گزینوں کا سب سے بڑا مخالف ہے
جنگ نے لاکھوں یورپی پناہ گزینوں کو مشرقی بحیرہ روم عبور کرنے پر مجبور کیا ۔لیکن دوسری طرف ایسا کچھ نہیں تھا ،جس کا اُنہوں نے خواب دیکھا تھا۔تنگ آکراُنہوں نے اپنے وطن کی بربادی سے فرار ہو کر اور محفوظ اور بہتر زندگی کی تلاش کیلئے سفر کیا۔یہ شامی پناہ گزینوں کا ذکر نہیں بلکہ یورپ اور بلقان کے پناہ گزینوں کا ذکر ہے ،جنہیں دوسری جنگ عظیم نے دوران مشرق وسطیٰ کی طرف نکلنے پر مجبور کر دیا تھا ۔
جیسے ہی نازی اور سوویت جنگ نے مشرقی یورپ اور بلقان کے کئی حصوں کو اپنی لپیٹ میں لیا،توبڑے پیمانے پر سویلین آبادیاں بے گھر ہوئیں۔وہ علاقے جن پر فاشسٹ فوج ،یہودی کمیونیٹیز اور دیگر غیر مطلوبہ اقلیتوں کا قبضہ تھا،انہیں سخت ترین حملوں کا سامنا کرنا پڑا،لیکن وہ خصوصاََ جن پر جماعتی جنگجوؤں کی پشت پناہی کا شبہ تھا ،ان کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور وہ جبری انخلا کا شکار ہوئے۔
ابتلا کے اس دور میں بعض یورپی مہاجرین کیلئے فرار کا واضح راستہ جنوب اور مشرق میں تھا۔ڈلماشی ساحل کے ساتھ ساتھ رہنے والے کئی نسلی کروشیائی باشندے ایڈریاٹک جزائر کی طرف فرار ہو گئے؛ڈوڈیکانیز کے یو نانی باشندے،ایجین میں جزائر کا ایک سلسلہ ،قبرص میں برطانوی تحفظ کیلئے انہیں اپنا راستہ مل گیا۔
برطانویتنظیم جسے مشرق وسطیٰ انتظامیہ امداد برائے مہاجرین (مشرق وسطیٰ ریلیف اینڈ ریفیوجی ایڈمنسٹریشن)کے طور پر جانا جا تا ہے،اس کا قیام 1942میں عمل میں آیا تھا ،اس تنظیم کی طرف سے قاہرہ میں سہولیات فراہم کی جاتی تھیں،اس تنظیم کی جانب سے تقریباََ 40,000پولینڈ ،یونان اوریو گو سلاویہ کے باشندوں کو مدد فراہم کی گئی۔(1944سے اس پیش قدمی کو ’’اقوام متحدہ‘‘شراکتی اتحاد کے لئے باقاعدہ اصطلاح کی سرپرستی میں شامل کیا گیا۔)مہاجرین باہر مصر،جنوبی فلسطین اور شام میں پھیل گئے۔۔۔جی ہاں! شام میں بھی۔ حلب ایک قدیم اور پھیلتا ہو ا مرکزی شہرتھا۔ 1940 ہی سے جلاوطنوں،اسیروں اور جاسوسوں کا ایک اہم مرکز ہے۔
پبلک ریڈیو انٹرنیشنل کی جانب سے اپریل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ہزاروں بین الاقوامی امداد گروپوں اور تنظیموں کو متوجہ کیا،جنہوں نے پناہ گزینوں کو خوراک اور پناہ فراہم کی اور ان کے سیکڑو ں بچوں کو تعلیم دی۔پی آر آئی ان کی آبادکاری کے عمل کے بارے کہتا ہے کہ:
’’ایک دفعہ اندراج ہوجانے کے بعد،نئے آنے والوں کو ایک مکمل طبی معائنے سے گزرنا ہوتا۔مہاجرین کو عارضی ہسپتالوں میں بھیج دیا جاتا،یہ عارضی ہسپتال طبی سہولیات فراہم کرنے کے مقصد کے تحت عموماََ لگائے گئے ٹینٹ یاخالی عمارتیں ہوتیں،جہاں وہ اپنے کپڑے اور جوتے اتارکر دھوتے تاکہ حکام کو یقین ہو جائے کہ وہ کافی حد تک جراثیم سے پاک ہو گئے ۔
’’کچھ مہاجرین جیساکہ یونانی جو 1944میں ڈوڈیکانیز جزائد سے حلب کیمپ میں پہنچے ،وہ توقع کر سکتے تھے کہ اس طرح کے طبی معائنے ان کے روزمرہ معمول کا حصہ ہوں گے۔
’’طبی اہلکاروں کے مطمئن ہوجانے کے بعد،کہ وہ اتنے صحت مند تھے کہ باقی کیمپ میں شامل ہو سکتے تھے،پناہ گزینوں کو خاندانوں،تنہا بچوں، اکیلے مردوں اور اکیلی خواتین کے رہنے کے حلقوں میں تقسیم کر دیاگیا۔جب کیمپ کے ایک خاص حصے کو تفویض کر دیا جائے تو مہاجرین کیمپ سے باہر جانے کا خطرہ مول لینے کے چند ہی مواقع پاتے۔کبھی کبھا ر ہی وہ کیمپ عہدیداروں کے زیر نگرانی باہر جانے کے قابل تھے۔
حلب کیمپ میں مہاجرین نے شہر میں کئی میل لمبا ٹریک بنا دیا کہ وہ بنیادی سامان کی خریدار ی ،مقامی سینما میں فلم دیکھنے جا سکیں ،یا صرف کیمپ کی زندگی کی یکسانیت سے تنگ آکر باہر جا سکتے تھے۔اگرچہ موسی ویلزکیمپ میں(مصرمیں)جو سو ایکڑسے زائد صحرا میں واقع تھا،وہاں شہر تک چل کر جا نا ممکن نہیں تھا ۔ مہاجرین کو اجازت تھی کہ وہ کچھ وقت قریبی بحیرہ احمر میں نہا کر گزارسکتے تھے۔
وطن کی سیا ست
اگرچہ شرائط بے ہودہ تھیں لیکن ایسی قابلِ رحم بھی نہیں تھیں ۔وہاں کھیل کے میدان، سپورٹس ٹریک اور تفریح کے مواقع تھے۔وہ پنا ہ گزین جو کمانا چاہتے تھے یا ہنر جانتے تھے یا پھر وہ کسی ووکیشنل تربیتی ادارے میں جا سکتے تھے۔کھانے کی راشن بندی کی جاتی،کچھ مثالوں میں مہاجرین اپنی ضرورت کی چیزیں مقامی دکانوں سے خریدنے کے اہل تھے۔کیمپ کے حکام سٹیج ڈرامے اور دیگر تفریحی ایونٹس منعقد کرتے۔
وطن کی سیاست اکثر ایسے حالات پیدا کردیتی ہے کہ لوگ جلا وطنی کے بارے میں سوچتے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق مصری صحرامیں ال شط کیمپ میں،کمیونسٹ ہمدرد یوگو سلاویہ کے کا رکن کیمپ کے کام کاج پرغالب تھے،جو ان کی صفوں میں شامل نہ ہوتے انہیں وہ تنگ کرتے،اپنے پروپیگنڈے کے تحت وہ لاتعداد بچوں کو نظریاتی تعلیم دینے کی کوشش کر تے۔
زیادہ تر حصوں میں ،مشرق وسطیٰ کے پناہ گزین کیمپوں میں موجود کلا س رومز میں اساتذہ اور طالبِ علموں کی کثیر تعداد ہو تی تھی ،جس کے باعث یہاں بھیڑ کا سا منا کرنا پڑتا۔تاہم تمام کیمپو ں کو اتنی سختی سے دبا یا نہیں گیا۔مثال کے طور پر النصیرات (فلسطینی مہاجرین کا کیمپ)میں ایک مہاجر جو آرٹسٹ تھا ،اس نے اپنی کئی پینٹنگز مکمل کی ،اور انہیں کیمپ کے اندر چھوٹے بچوں کے کلاس رومز میں لگا دیا،ان سے کلاس روم ’’روشن اور چمکدا ر ‘‘ ہو گئے،وہاں موجود مخیر حضرات نے چھوٹے بچوں کیلئے کھلونے ،گیمزاور گڑیوں کا عطیہ دیا ،جس پر کیمپ کے ایک اہلکار نے یہ بیان دیا کہ ’’ ایمانداری کے ساتھ اس کا موازنہ امریکہ میں موجود کئی سکولوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔”
ایران میں پولستانی مہاجر کیمپ
دریں اثنا، اسی طرح کا کیمپ ایران میں قائم کیا گیا جہاں ،پولینڈ کے لاکھوں باشندوں کی آبادکاری ہوئی،یہ لوگ نازیوں کے قتل عام سے تنگ آکر اور سوویت کے کیمپوں سے فرار ہو کر آئے تھے۔ایک طویل سفرکے دورا ن بحیرہ کیسپیئین کے ایرانی ساحلوں پر پہنچے تھے ،اکثر پناہ گزین بیمار ہو چکے تھے ، اندازہ لگایا جا تا ہے کہ قریب قریب 114,000سے 300,000پولستانی 1939سے1941کے دوران ایران پہنچے تھے۔
اس وقت کی ایک دلچسپ امریکی اخبار کی فلم، ایک ایسے پولستانی مہاجر کیمپ کا نقشہ کھینچتی ہے جو شمالی ایران میں امریکی ریڈ کراس کی طرف سے لیس ہے،جہاں پولستانی جنگ سے فرار ہونے والے اپنی زبان اور روایات کو زندہ رکھ سکتے ہیں ،جبکہ ’’قدیم ایران کی زمین پر بیج بویا جا رہاہے‘‘اور ایک نئی فاشسٹ مخالف پولستانی فوج کو ٹریننگ دی جا رہی ہے۔
بہت سارے پولستانیوں کیلئے ایران پہنچنا ایک بڑی نعمت اور نجات تھی ۔ان کے میزبانوں کی جانب سے انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا گیا۔ایک پولستانی سکول ٹیچر جس نے اصفہان شہر میں رہائش اختیار کی ،یاد کرتے ہوئے کہتا ہے’’دوستانہ فارسی لوگ بسوں کے گرد اکٹھے ہوگئے،چلاتے ہوئے کہ ان کے استقبال کیلئے مناسب الفاظ کا چنا ؤ کیا گیا ،کھلی کھڑکیوں سے کشمش،رسیلے انار،کھجوروں کے تحائف دھکیلتے رہے۔‘‘
آخر میں،دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد ایران میں اور مشرق وسطیٰ میں کہیں بھی موجود زیادہ تر یورپی مہاجر یا تو واپس اپنے وطن چلے گئے یا کہیں اورمنتقل ہو گئے۔اب یورپ میں مسلمان مہاجرین کے یورپ میں داخلے کے بعد ،ان کی اپنے مشرق وسطیٰ کے قیام کی مثبت یادیں عصر حاضر کی بحثوں میں کم اہم ہو گئی ہیں۔۔۔پولینڈ کی دائیں ہاتھ کی حکومت نے شامی پناہ گزینوں کو پناہ دینے کی شدید مخالفت کی ہے۔
ایسوسی ایٹ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق،پولستانی خروج سے زندہ بچ جانے والے صرف 12افراد ابھی بھی ایران میں ر ہ رہے ہیں۔انہوں نے مقامی لوگوں میں شادیاں کیں۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق۔’’کبھی کبھار وہ کرسمس کے موقع پروہ سفارت خانے میں جاتے ہیں ان کا مزید کہنا ہے :’’وہ اس المیے کو بھولنا چاہیں گے جس نے ان کی زندگی اجیرن کردی تھی۔‘‘
بشکریہ ڈان:ترجمہ احمد اعجاز
فیس بک پر تبصرے