کراچی کس کا؟ تحریک انصاف کی ترجیح نہیں۔ مصطفی کمال کے پاس قوت نہیں

1,023

کراچی کی سیاست لسانی بنیادوں پر گھومتی رہتی ہے اور اسے کون اچھی طرح سمجھتاہے؟ سید عارفین تجزیہ کرتے ہیں

کراچی میں 2 جون کو سندھ اسمبلی کی 2 نشستوں پی ایس 106 اورپی ایس 117 جمعرات کو ضمنی انتخابات ہوئے۔ووٹنگ کا عمل صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔دونوں حلقوں کو حساس قرار دیا گیا تھااور اسی وجہ سے پولنگ کے دوران پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر رینجرز اہلکار بھی تعینات تھے۔ رینجرز اورپریزائیڈنگ افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات تھے۔ ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے امیدوار محفوظ یار خان اور میجر ریٹائرڈ قمر عباس تھے جبکہ ان حلقوں میں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی امیدوار کھڑے کئے تھے۔توقع کے مطابق ٹرن آوٹ نہایت کم رہا۔خواتین کے بعض پولنگ اسٹیشن ایسے بھی تھے جہاں ایک ووٹ بھی نہیں پڑامگر اس تمام صورتحال کے باجود عتاب کا شکار متحدہ قومی موومنٹ کے لئے یہ ضمنی انتخاب کسی تازہ ہوا کے جھوکے سے کم نہیں کیونکہ دونوں نشستوں پر ایم کیو ایم کے نامزد امیدوار ہی کامیاب ٹہرے مگر پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات مین بری طر ح ناکام رہی ۔ غیر حتمی غیرسرکاری نتیجہ کے مطابق پی ایس117سے ایم کیوایم کے قمرعباس10738ووٹ لے کرکامیاب ہوئے ،اسلامی تحریک پاکستان کے علی رضا1018ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے جبکہ تحریک انصاف رفاقت عمر 950 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ پی ایس 117 کے ایک لاکھ 64 ہزار 9 سو ووٹرز میں سے 15 ہزار سے بھی کم لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اس طرح ڈالے گئے ووٹو ں کی شرح 9 فیصد رہی ۔پی ایس 106سے ایم کیوایم کے محفوظ یار خان 18137 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے، پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالصمد بلوچ 960 ووٹ لے کر دوسری اور پی ٹی آئی کے نصرت انوار نے 524 ووٹ لے کرتیسری پوزیشن حاصل کی۔ پی ایس 106 کے ایک لاکھ 75 ہزار 500 ووٹرز کے مقابلے میں صرف 19976 لوگوں نے اپنا ووٹ ڈالا اور اس طرح ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 11.32 فیصد رہی۔ صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں ،ایم کیو ایم کے سابق رہنماؤں ڈاکٹر صغیر احمد اور افتخارعالم کی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد سندھ اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے سے خالی ہوئی تھیں۔دونوں شخصیات نے 2013 کے عام انتخابات میں پی ایس 106اور پی ایس117سے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2 جون کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست نے کراچی کی سیاست پر بظاہر اس کے لئے دروازے بند کردیے ہیں ۔ اس سے قبل 7 اپریل کو کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 245 اورصوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 115 میں ضمنی انتخابات میں بھی
پی ٹی آئی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ دونوں نشستیں بھی متحدہ قومی موومنٹ کے کمال ملک اورفیصل رفیق نے جیت لی تھیں۔ دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی تھی جب انتخاب سے ایک روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوارامجد اللہ خان نہ صرف پی ٹی آئی کی نشست سے دستبردار ہوگئے بلکہ متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پہنچ کر اس میں شمولیت کابھی اعلان کردیا ۔شہر کی سیاست پر نظر رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن تحریک انصاف کا کراچی میں زوال کا سبب اس کا اندرونی انتشارہے ۔2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے لاکھوں کی تعداد میں ووٹ حاصل کرکے متحدہ قومی موومنٹ کے ہوش اڑا دئے تھے۔اسی پس منظر میں 18 مئی2013 کے متحدہ کے قائد کی نائن زیرو پر تقریرکی جس کے بعدایم کیو ایم کے اہم رہنماؤں پرکارکنان کی جانب سے تشدد کیا گیا اورجس نے مصطفی کمال کوپاک سر زمین پارٹی کی داغ بیل ڈالنے کی بنیادفراہم کی۔ 22 اپریل کو پی ٹی آئی کے سابق رکن سندھ اسمبلی حفیظ الدین نے بھی پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پاک سر زمین کی بس میں سوار ہوگئے ۔
پی ٹی آئی کے لئے شہر میں موجود حمایت کو پاک سر زمین پارٹی کی آمد سے بھی نقصان پہنچے گا کیونکہ شہر کے اردو بولنے والے سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کو اس شہر سے کوئی سروکار نہیں ہے اور ان کا اصل زور خیبرپختون خواہ اور پنجاب ہے ۔پی ٹی آئی کراچی کے دیرینہ کارکن اور رہنما سبحان ساحل کا خیال ہے کہ پارٹی قیادت نے صرف ایک شخص (الطاف حسین ) کو ٹارگٹ کیا ، قیادت نے شہریوں کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہیں دی،پی ٹی آئی کی مقامی قیادت پڑھی لکھی اور قابل لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنی ذاتی اور پیشہ واروانہ زندگی کامیابی سے گزار رہی ہے لیکن وہ سیاسی سمجھ بوجھ اور بالغ نظری عاری ہے جو چیئرمین عمران خان کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔کراچی کی عوام نے 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو غیر روایتی طور پر سپورٹ فراہم کی لیکن پارٹی نے کراچی کے باسیوں کو نہ صرف مایوس کیا بلکہ اس سے آنکھیں بھی پھیر لیں۔ عوام کے اس اعتماد کو کراچی کی مقامی لیڈر شپ کوئی چھت فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی جس کی مثالیں ضمنی انتخابات کے نتائج سے واضح ہورہی ہیں ۔ان الیکشنز میں تحریک انصاف کی جانب سے کوئی خاطر خواہ انتخابی مہم نہیں چلائی گئی اور اس طرح عوامی رابطے کا بہترین موقع ضائع کردیا گیا۔ گھر گھر جا کر پارٹی کراچی کے عوام سے نہ صرف اپنی وابستگی کوظاہر کرسکتی تھی بلکہ اپنی جڑوں کو بھی مظبوط بنا سکتی تھی لیکن سیاسی تنگ نظری نے پی ٹی آئی کو جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی صف میں لاکھڑا کیا ہے ۔پارٹی کی مقامی قیادت کی چپقلش اور رنجشوں نے پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ پی ٹی آئی مقامی سطح پر برگر اور بن کباب میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ پی ٹی آئی کے پرانے کارکن سمجھتے ہیں کہ یہ غریبوں اور مڈل کلاس لوگوں کی جماعت ہے جبکہ” پل کے اس پار” رہنے والے سمجھتے ہیں کہ پارٹی پر ان کا پہلا حق ہے۔ پی ٹی آئی اس وقت مختلف گروپوں کا تقسیم ہوچکی ہے۔ کسی کو علی زیدی تو کسی کو سبحان ساحل ، کسی کو پی ٹی آئی (ٹائیگرز )کے اشرف قریشی تو کسی کو پی ٹی آئی( نظریاتی) کے غلام مصطفی کررہے ہیں ۔ عمران اسماعیل ، فیصل واؤڈااور ڈاکٹر عارف علوی اپنی الگ اہمیت رکھتے ہیں۔پھر پارٹی میں سندھ کے صدر نادر اکمل لغاری کی قیاد ت میں وڈیرہ شاہی بھی اپنا زور پکڑتی جارہی ہے اور اندرون سندھ اپنی جڑیں مظبوط کررہی ہے۔ پارٹی میں حلیم عادل شیخ جیسے پیرا ٹروپرز کی آمد بھی جاری ہے جس کو مرکزی قیادت کا آشیرواد بھی حاصل ہے۔
کراچی کی سیاسست کے حوالے سے ایک اہم بات یہ کہ اس شہر میں سیاست ملک دیگر حصوں کی نسبت انتہائی مختلف ہے ۔ دیگر علاقوں میں سیاست برادری ، ذات، رشتہ داریوں اور قبائیلی وابستگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے لیکن یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں سیاست لسانی بنیاد پر کی جاتی ہے جس کی ایک مثال مجلس وحدت المسلمین ، اسلامی تحریک پاکستان (سابقہ تحریک جعفریہ ) اور عوامی اتحاد (اہل سنت والجماعت سابقہ سپاہ صحابہ پاکستان )جیسی فرقہ وارانہ تنظیموں کوان انتخابات میں ناکام ہونا بھی ہے۔ پی ٹی آئی نے کراچی کے بنیادی مسائل کے خلاف مؤثر آواز اٹھانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ۔ کراچی کے عوام پانی، بجلی ، ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں اور آج بھی اگر کسی جماعت نے اس بارے میں عملی اور ٹھوس قدم اٹھا یا تو کراچی کے رہنے والے انہیں مایوس نہیں کریں گے ۔ مگر رونا تو
اسی بات کا ہے کہ قدم اٹھائے گا کون؟پاکستان تحریک انصاف کے زوال کا دوسرااہم پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کراچی میں کوئی بھاری بھرکم اور بااثر شخصیت نہیں جس کی قیادت میں پارٹی کوشہر میں یکجا ں اور منظم کیا جاسکے ۔ فی الوقت تو پی ٹی آئی کراچی آٹو پر چل رہی ہے ، کوئی بھی اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا اور وہ کیا حکمت عملی ترتیب دے گی؟کراچی میں پی ٹی آئی کے حوالے سے دلچسپ نکتہ ہے کہ عام انتخابات میں جس تیزی یہ ابھری تھی اسی تیزی سے وہ منظر سے غائب بھی ہوگئی ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...