داعش،خلافت اور پہلا پارہ
گذشتہ چند سالوں سے خلافت کا نام داعش جیسی ایک ایسی تنظیم کی طرف سے سامنے آیا جس کے بعد سے خلافت کے لفظ کو وحشت کا مترادف سمجھا جانے لگا ہے
خلافت عثمانیہ کے سقوط پر تقریبا ایک صدی کا عرصہ بیت چکا ہے،ابھی خلافت میں کچھ سانسیں باقی تھیں کہ 1916ء میں عربوں نے اپنی خلافت کے قیام کے لیے تگ و دو شروع کر دی تھی ،اس کے بعد سے اسلامی دنیا کے مختلف خطوں میں وقتا فوقتا احیائے خلافت کی تحریکیں اٹھتی رہیں جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے خلافت کا نام داعش جیسی ایک ایسی تنظیم کی طرف سے سامنے آیا جس کے بعد سے خلافت کے لفظ کو وحشت کا مترادف سمجھا جانے لگا ہے اور نئی نسل جب اسلام کی تاریخ میں خلافت کے لفظ کو پڑھتی یا سنتی ہے تو اس کے ذہن میں اس سنہر ی دور کا تصور بھی داعش جیسی وحشت گری کا قائم ہوتا ہے، اس لیے اسلامی خلافت اور داعشی خلافت میں تقابل سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان دونوں میں فرق واضح کیا جائے اور اصل اور نقل کا فرق نمایاں کیا جائے۔
شریعت اسلامی کا بنیادی ماخذ قرآن کریم ہے اس لیے آج ہم اس کتاب حکمت سے پوچھیں گے کہ وہ اس باب میں ہمار ی کیا رہنمائی کرتی ہے؟
قرآن حکیم میں خلافت کا ذکر پہلے پارے میں سورہ بقرہ سے ہی شروع ہوجاتا ہے، یہی وہ پارہ ہے جس میں تفصیل سے کامیاب خلافت اور ناکام خلافت کے نمونے بیان کیے گئے ہیں۔
سورت کے شروع میں تین طبقوں کا ذکر کیا گیا ہے،مسلمان،کافر اور منافق۔ کسی بھی ریاست میں رہنے والے یہی تین طبقات ہو سکتے ہیں،ان سے متعلق ذکر کے بعد فورا حضرت آدم علیہ السلام کے نزول اور ان کو خلافت کے منصب سے سرفرازی کا بیان ہے،فرشتوں پر ان کی برتری کی وجہ بھی قرآن نے اس وقت کی کائنات کاعلم بتائی جسے آج کل سائنس کا علم کہا جاتا ہے،جس سے زمین پر حکومت اور سائنسی علوم پر دسترس کا لازم وملزوم ہونے کا پتا چلتا ہے۔ حضرت انسان کےخلعت خلافت پہنے کے بعد اسی پارے میں قدرےتفصیل کے ساتھ دو قوموں کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں خلافت عطا کی گئی جن میں سے ایک قوم نے اللہ کے دیے ہوئے اقتدار کی بدولت سرکشی کی اورخلافت کا درست استعمال نہیں کیا اور وہ ناکام ہوئی جبکہ دوسرا نمونہ کامیاب خلافت کا ہے جہاں خلافت کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
ناکام خلافت کے نمونے کے طور پر پہلے بنی اسرائیل کی بے اعتدالیوں کا ذکر کیا گیا،بنی اسرائیل کو اللہ نے اپنی زمین پر تمکن دیا تھا اور طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا تھا تاکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے نظام اور اصولوں کے مطابق زندگی گذاریں،ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،ظلم ،خیانت ،دھوکہ دہی اوآپس میں مار دھاڑسے بچیں ۔لیکن انہوں نے وہ تمام برائیاں اپنائیں جن سے انہیں روکا گیا تھا ،کرپشن زوروں پر تھی،عوام مادہ پرست ہو گئے،مذہبی رہنما دین فروش بن گئے اور دینی احکام میں حیلے بازیوں سے کام چلایا جانے لگا۔کھلے بندوں اللہ کی نافرمانیاں کی جانے لگیں اور قتل وغارت کا ایسا بازار گرم ہوا کہ انبیاء کرام جیسی مقدس ہستیوں کو بھی تہ تیغ کیا گیا جس کے بعد انہیں اللہ کی طرف سے گمراہ اور نافرمان ڈیکلیر کیا گیا۔
اللہ نے ان کی ان تمام بد اعمالیوں کا ذکر قرآن میں اس لیے کیا تاکہ یہ قوم ان برائیوں سے بچ کر صحیح نہج پر اقتدار قائم کرے،اور صحیح نہج کیا ہے؟ وہ بھی اسی پارے میں ہی بتا دیا، پہلے پارے کے بالکل آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکر ہ ہے کہ اللہ نے انہیں لوگوں کا امام اور مقتدا بنایا اور انہیں زمین پر خلافت دی ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے احکامات کو پورا کیا ،ظلم کو مٹایا اور کامیاب خلافت کا نمونہ پیش کیا۔اسی سورت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی نسل کے لیے بھی خلافت مانگی تو اللہ نے جواب دیا کہ “لاینال عھدی الظالمین” کہ میں ظلم برپا کرنے والوں اور قتل و غارت کی رسیا قوم کو کبھی خلافت نہیں دوں گا،یا دوسرے لفظوں میں ظلم روا رکھنے والے بھلے اللہ کے خلیفہ ہونے کے دعویدار ہوں اللہ کے نزدیک ان کاشمار ظالموں میں ہی ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کے پہلے پارے میں حضرت آدم سے خلافت کی ابتداء اور پھر بنی اسرائیل کی خلافت کے ناکام نمونے کے ساتھ حضرت ابراہیم کی کامیاب خلافت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،
خلافت کے ان دونوں نمونوں کو سامنے رکھ کر بڑی آسانی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا داعش اسی خلافت کی علمبردار ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا یا وہ بنی اسرائیل کی من مانی خلافت کا نمونہ پیش کررہی ہے؟
فیس بک پر تبصرے