پاکستان کے دو مختلف نوجوانوں کی کہانی

964

ایک نئی عوامی بحث کا رُخ استوار کرنا چاہیے جوہماری اُمیدوں اور خواہشات کی سمت کا تعین کرنے میں معاون ہو کہ ہم کس طرح کے پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں ؟….سوال یہ ہے کہ پاکستان محمد عثمان کا ہوگا یا غلام محمد کا؟

حالیہ ہفتوں میں دوپاکستانی نوجوان یورپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواچکے ہیں ۔پہلا پینتیس سالہ نوجوان محمد عثمان،جس پر فرانسیسی حکام کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ نومبر میں پیرس حملوں مےں دہشت گردوں کے ساتھ ملوث تھا۔اُس نے مذکورہ خون ریز ی میں حصہ لینا تھا ،مگر وہ ممکنہ طور پر شام سے فرانس کے راستے میں آتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا۔وہ دھماکہ خیز مواد بنانے کا ماہر تھااور مبینہ طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والی دہشت گرد تنظیم لشکرِ طیبہ کے ساتھ کام کرتا تھا۔

دوسرا نوجوان غلام محمد بیس سال کے قریب تھا۔وہ چوتھے جمیل پرائز کا فاتح تھا،جو کہ ایک بین الاقوامی ایوارڈ ہے ،جو اسلامی روایات سے متاثر ،عصر حاضر کے آرٹ اور ڈیزائن کے لیے دیا جاتا ہے اوراس کااہتمام لندن کے وکٹوریہ اور البرٹ میوزم کی طرف سے کیا جاتا ہے۔غلام محمد پہلا پاکستانی آرٹسٹ ہے جس نے یہ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

دونوں کا تعلق ہمارے ملک سے ہے۔دونوں کا تعلق اُس نسل سے ہے جو ”ضیاءکے بچوں“کے طور پر جانی جاتی ہے ۔دونوں کی مذہب اور تشخص کے مسائل کے ساتھ نسبت تلاش کی جارہی ہے ۔دونوں اپنی منفرد مہارت اور اختصاص پیش کرتے تھے۔

محمد عثمان جہاں ہے ،وہاں کیسے پہنچا،اس ضمن میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ،لیکن ہم اُن کی سمت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔یہ معاملہ ناانصافی کا احساس یا تنہائی یا ڈر سے شروع ہوا۔جیسا کہ وہ ذہنی تشفی یا مشکل سوالوں کے جوابات کی تلاش میں تھا۔اُس پر انتہا پسند نظریات منکشف ہوئے ،جن کا اخراج خطبوں،درسی کتب ،مدرسوں ،حافظ سعید کی ریلیوں ،جہادی گروپس کے ٹویٹر پیغاماتِ سے تھا، حتیٰ کہ یہ ہماری مرکزی سیاسی جماعتوں کے سازشی نظریات سے بھی سے ہوتا تھا ۔یہ امکان ہے کہ وہ آن لائن بھرتی ہوا تھا۔

اُس نے تربیتی کیمپوں میں وقت گزارا۔جو کچھ خطرے کا سامنا کرنے سے شروع ہو اوہ نفرت اور تشدد کے ایندھن سے طاقت میں بدل گیا۔کشمیر اور افغانستا ن میں لڑنے یا فرقہ واریت گروہوں میں شمولیت کے برعکس ،اُس نے شدت پسند تنظیم داعش کو دریافت کیا اور پھر وہ مغرب کی طرف چلاگیا۔

غلام محمد بلوچستان کے ایک چھوٹے قصبے کے ایسے گھر میں پلا بڑھا جہاں پانی اور بجلی کی سہولت تک میسر نہ تھی۔وہ سکول میں فنون لطیفہ کی کلاسوں سے محظوظ ہوتا تھااور بلوچستان آرٹس کونسل کی کلاسوں میں اُس نے داخلہ لیا۔اُس نے اپنے فنون لطیفہ کے جذبات کو اپنے دادا سے چھپا کر رکھا،جب اُس کو اپنے پوتے کے فنکارانہ جذبات کا علم ہوا تو وہ غصے سے نیلا ہو گیا۔ وہ لاہور چلا گیا،جہاں اُس نے لاہور آرٹس کونسل اور الحمرا میں تعلیمی مقصد حاصل کیا۔یہاں اس کے اساتذہ نے بیکن ہاﺅس نیشنل یونی ورسٹی میں اپلائی کرنے کے لیے اُس کی حوصلہ افزائی کی،جس میں وہ مکمل سکالر شپ کے تحت، داخلہ لینے کے قابل تھا،میڈنجیت سنگھ فن سکالرشپ جنوبی ایشیاءفاﺅنڈیشن کی طرف سے ملتی تھی۔

محمد عثمان کا تجربہ عصرحاضر کی پاکستان کی تمام ناکامیوں کو پیش کرتا ہے:نوجوانوں کی مایوسیاں ،سماجی تحفظ اور خدمات کی فراہمی میں فاصلہ؛قانون نافذکرنے والوں کی ناکامی؛پرتشدد انتہا پسندوگروہوں کی جانب سے منفی جذبات اور نفر ت انگیز نظریات اور ان سب سے بڑھ کر تشدد کا سہارا ۔

غلام محمد کا تجربہ پاکستان کی تمام کامیابیوں کی نمائندگی کرتا ہے:معیاری تعلیم تک رسائی؛ایک قدیم اور ناقابلِ یقین ثقافتی ورثہ؛ملک میں لسانی اور نسلی تنوع سے میسر آنے والے تخلیقی مواقع؛جنوبی ایشیاکے ساتھ وسیع سطح پر باہمی ملاپ؛خوابوں کو سچا کرنے کی قابلیت۔

اہم بات یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی سمت،جو کہ مختلف تھی ،یہ اس چیز کی یاددہانی کراتی ہے کہ پاکستانی ابھی تک اُمید رکھتے ہیں ….اُمید کی چیزیں مختلف ہو سکتی ہیں ،اُمیدیہ کہ وہ کچھ مختلف کرسکتے ہیں ۔

پاکستان میں مسلسل سرپرستی کی سیاست کے باعث،سیاسی کلچر حریف پارٹیوں کے لیڈروں کو کمزور اور شرمندہ کرنے کی جانب تیزی سے گامزن ہے تاکہ مستقبل میں اگر وہ سرپرستی کیلئے مناسب لگیں تو انہیں بدنام کیا جاسکے۔مہم صرف یہ ہوتی ہے کہ آئیڈیاز پر بحث کی بجائے افراد کوٹارگٹ کیا جاتا ہے۔یہ بصیرت کی سیاست کے لیے تھوڑی جگہ چھوڑ دیتی ہے،جو قومی بیانیے کی تشکیل کرتی ہے۔

ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن پر تقاریر سنتے ہوئے امریکہ کا یہ بیانیہ سامنے آتا ہے کہ وہ خطہ سرزمین ہے جہاںزیادہ مواقع موجود ہیں….بہت سی کوتاہیوں اور خامیوںکے باوجود….میں نے اپنے آپ کو حیران پایا کہ ایک نئی عوامی بحثکا رُخ استوار کرنا چاہیے جوہماری اُمیدوں اور خواہشات کی سمت کا تعین کرنے میں معاون ہو کہ ہم کس طرح کے پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں ؟

غلام محمد پانچ زبانیں بشمول سرائیکی اور بلوچی جانتا تھا۔وہ مقامی زبانوں پر مشتمل کتابوں کی تلاش کے لیے لاہور میں انارکلی باز ار کی دکانوں پر جاتا تھا۔وہ بڑی محنت سے کئی تحریروں سے لفظ اٹھا تا ہے اور پھر انہیں خوبصورت کولاج میں جو ڑتا دیتا ہے ،اس نقطے کی وضاحت کیلئے کہ زبان ….تعمیر اور تشریح کرتی ہے؛یہ ایک رکاوٹ ہو سکتی ہے یا رابطے کو باسہولت کرسکتی ہے۔اُس کا فن ہمیں یاددلاتا ہے کہ یہاں رکاوٹیں اور امکانات دونوں ہو سکتے ہیں۔شاید آمدہ الیکشن میں ہمارے سیاست دان اُس کے کام سے سیکھ سکیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان محمد عثمان کا ہوگا یا غلام محمد کا؟

بہ شکریہ ڈان۔ترجمہ:احمد اعجاز

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...