تیرا بجٹ۔ میرا بجٹ
ادھیڑ عمر وزیر خزانہ بڑی شان اور کروفر سے اسمبلی کے سامنے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر رہے ہیں۔
یہ قومی اسمبلی کا منظر ہے،ادھیڑ عمر اور خوش پوش وزیر خزانہ اپنے سامنے ڈھیر ساری کتابوں کا انبار لگائے ایک فائل ہاتھ میں لئے کھڑے ہیں۔ ٹائی سوٹ میں ملبوس وزیر خزانہ نے کھنکار کا گلا صاف کیا اور بڑی تمکنت سے بولے۔ “جناب اسپیکر! اس ملک میں روزگار کے مواقع پہلے سے زیادہ ہوگئے ہیں، لوگوں کے ہاتھ میں پہلےسے زیادہ پیسے آ گئے ہیں جس کے باعث ملک میں کاروں اور ایئر کنڈیشنز کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے۔” جناب اسپیکر! غریبوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی پر بھی پوری طرح قابو پا لیا گیا ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت پوری طرح قیمتوں پر نظر رکھے ہو ئے ہے۔ ”
ادھیڑ عمر وزیر خزانہ بڑی شان اور کروفر سے اسمبلی کے سامنے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ بالکل قریب حکومتی بینچوں پر بیٹھے ” ماہر وزرا” بڑے فخر سے اپنے خوش لباس وزیر خزانہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور تالیاں بجا بجا کر ان کے اعتماد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ بڑے اعتماد کے ساتھ اعدادوشمار کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔
جناب اسپیکر! وزیرخزانہ کھنکار کر گلا صاف کرنے کے بعد بولے” اپوزیشن نے اپنے دور حکومت میں عوام کو معاشی پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں دیا، مگر آج ہمارے دور حکومت میں عوام خوشحال ہوچکے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مزدورکی کم سے کم تنخواہ 14 ہزار روپے مقرر کی جارہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہےجس سے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا۔
جناب اسپیکر ! حکومت ملک میں تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں کوئی شخص تعلیم اور صحت کی سہولت سے محروم نہیں رہے گا۔ سرکاری اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں میں سہولیات کا معیار بہتر بنایا جارہا ہے۔ یہ کہ کر ادھیڑ عمر وزیر خزانہ نے کن اکھیوں سے اسمبلی میں بیٹھے حکومت کے معاشی ماہرین کی طرف دیکھا جو مسکراتے ہو ئے سر ہلارہے تھے، ادھیڑ عمر وزیر خزانہ نے اپنی لکھی ہوئی بجٹ تقریر دوبارہ پڑھنا شروع کردی۔۔۔۔۔
رشیدہ بیگم نے سر پر اوڑھی ہوئی اپنی چادر درست کی، باورچی خانے سے سبزی کی ٹوکری اٹھائی اور اور گھر سے نکل کر بازار چل پڑی۔ اس کی مٹھی میں سو روپے کے دو مڑے تڑے نوٹ تھے ۔ مہینے کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں۔ رشیدہ بیگم کا بیٹا ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازم تھا۔ گزارا بڑی مشکل سے ہوتا تھا اور مہینے کے آخری دن اکثر فاقے ہی سے گزرتے تھے۔ رشیدہ بیگم کے ہاتھ میں تنخواہ کے آخری دو سوروپے اور اور ذہن میں طرح طرح کے وسوسے تھے۔ گھی، آٹا، دال، سبزی، کچھ بھی تو نہ تھا گھر میں اور ابھی بیٹے کو تنخواہ ملنے میں پورے چار روز باقی تھے۔
رشیدہ بیگم نے حسرت سے اپنی مٹھی میں دبے دوسو روپے کے نوٹوں کو دیکھا اور اس کی آنکھ میں سے ایک آنسو بہہ کر اس کے بوڑھے چہروں کی جھریوں میں گم ہوگیا۔ بازار پہنچ کر اس نے ایک کلو آٹا، آدھا کلو گھی اور ایک پاو دال خریدی۔ دوسوروپے گویا ہاتھ سے پھسل رہے تھے۔ گوشت کی دکان کے پاس سے گزرتے ہو ئے اس نے بڑی حسرت سے گوشت کو دیکھا۔ کتنے ہی دن گزر گئے تھے گوشت کھا ئے ہو ئے۔ رشیدہ بیگم کے کان میں اپنی پوتی کی آواز گونجنے لگی جو بازار آنے سے قبل کہہ رہی تھی۔ ” دادو! میں نے آج بوٹی کھانی ہے، آج گوشت ضرور لے کر آنا۔” رشیدہ بیگم نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور اس کے دل سے ایک آہ نکل گئی۔
امجد علی نے اپنی بوڑھی ماں کو سہارا دیتے ہو ئے رکشے میں سے نکالا اور سڑک کے دوسری طرف موجود سرکاری ہسپتال کی جانب چل پڑا۔ اس کی بوڑھی ماں گزشتہ کئی دنوں سے بیمار تھی اور طرح طرح کے گھریلو ٹوٹکے آزما لینے کے بعد آج وہ اسے ہسپتال لیکر آیا تھا۔ بڑھیا کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ امجد علی بوڑھی ماں کو انتطار گاہ میں بٹھا کر کاونٹر کی جانب بڑھا۔ ڈیوٹی پر موجود آدمی فون پر بات کرنے میں مصروف تھاجب کہ دوسری طرف پرچی بنوانے والوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ خدا خدا کرکے امجد علی کی باری آئی اور کاونٹر کلرک نے اسے پرچی بنا کردی۔ اتنی دیر میں اس کی بوڑھی ماں کا برا حال ہوگیا تھا جو بیماری اور نقاہت سے مسلسل کھانسے جا رہی تھی۔
باری آنے پر امجد علی نے اپنی ماں کا چیک اپ کروایا، ڈاکٹر نے کچھ دوائیں لکھ کر پرچی امجد علی کے ہاتھ میں تھمادی۔ امجد علی ماں کو لیکر سرکاری ہسپتال کے میڈیکل اسٹور پر پہنچا اور دوائیوں کی پرچی کاونٹر پر موجود شخص کی جانب بڑھائی۔ اس نے پرچی پر ایک نظر ڈالی اور تیز لہجے میں بولا۔ ” یہ دوائیں ہسپتال کے اسٹور پر دستیاب نہیں ہیں، بازار سے ملیں گی۔امجد علی اپنی ماں کے ساتھ ہسپتال سے باہر نکلا، سڑک کے دوسری طرف ایک میڈیکل سٹور تھا۔
ماں کو بینچ پر بٹھا کر اس نے دوائیوں کی پرچی سیلز مین کو تھمائی۔ سیلز مین نے دوائیاں نکال کر کاونٹر پر رکھیں اور اور 370 روپے کا بل بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ امجد علی نے اپنی جیب ٹٹولی، اس کے پاس صرف 200 روپے تھے اور دوائیاں خرید کر ابھی رکشے کے ذریعے گھر بھی پہنچنا تھا۔ اس نے بل پر حسرت بھری نگاہیں ڈال کر دو دوائیاں واپس کردیں اور170 روپے کا بل ادا کرکے سٹور سے باہر نکل آیا۔ امجد علی نے ماں کا ہاتھ تھاما۔ ماں کو بیٹے کا ہاتھ برف کی مانند ٹھنڈا محسوس ہوا۔ اس نے چونک کر بیٹے کے چہرے کی طرف دیکھا۔ امجد علی کے آنسو اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔
اختر حسین اڑھائی بجے گھر سے دفتر پہنچا۔ جلد ہ جلدی کھانا کھایا اور پڑوس میں موجود گیراج سے ٹیکسی نکالنے چلا گیا۔ اختر حسین ایک پرائیوٹ ادارے میں کلرک ہے۔ ۔ گھر میں بوڑھی ماں ، بیمار باپ، بیوی اور چار بچے ہیں۔ دو بچے اسکول جاتے ہیں۔ مکان کرائے کا ہے۔ تنخواہ میں گزارہ کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے چھٹی کے بعد ایک بھلے آدمی کی ٹیکسی چلاتا ہے۔ ٹیکسی کے مالک کو پیسے دیکر اورٹیکسی کا خرچہ نکال کر جو روپے بچ جاتے ہیں ان سے وہ بڑی مشکل سے اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہا ہے۔
اختر حسین گیراج سے ٹیکسی نکال کر باہر نکلا تو سخت لو چل رہی تھی۔ گرمی کا موسم تھا اور اس کا جسم پسینے میں شرابور ہوچکا تھا ۔ دفتر کی تھکم اسے سونے کا کہ رہی تھی مگر وہ سوجاتا تو شاید اس کے نصیب سوجاتے۔ مکان کا کرایہ ابھی دینا تھا۔ بجلی کا بل بھی آچکا تھا۔ بیمار باپ کی دوائیاں اور بچوں کی سکول کی فیس ابھی باقی تھی، بیوی کا کہناتھا کہ سرکاری سکول میں پڑھائی اچھی نہیں اس لئے اختر حسین اپنے بچوں کو محلے ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہا تھا ۔
گھر سے نکلتے وقت بیوی نے کہا تھا پچھلے دو ماہ سے بچوں کی سکول کی فیس جمع نہیں کروائی ۔ اکاونٹس کلرک کہہ رہا تھا کل فیس جمع نہ کروائی تو بچوں کا نام سکول سے کٹ جائے گا۔ اسے آج ہر حال میں اتنے روپے بچانےتھے کہ بچوں کے اسکول کی فیس ادا ہو جائے۔ٹیکسی کے مالک نے اپنے پیسے بڑھادیئے تھے۔ شہر میں ٹیکسیاں اتنی زیادہ تھیں کہ لوگ کسی بھی طور زیادہ کرایہ دینے کو تیار نہ تھے۔ اختر حسین کی بے بسی کے آنسو اس کی محنت کے پسینے میں جذب ہو رہے تھے۔
قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر جاری تھی ۔ جناب اسپیکر ! فی کس آمدنی 1512 ڈالر سے 1562 ڈالر ہوگئی ہے۔ ایسی معاشی ترقی ملک میں گزشتہ 70 برسوں میں کبھی نہیں ہوئی۔ یہ موجودہ حکومت ک شاندار معاشی کارنامہ ہے۔ وزیر خزانہ نے سر اٹھا کر فخر سے حکومتی بینچوں کی طرف دیکھا اور ایوان، حکومتی ارکان کی تالیوں اور ڈیسک بجانے کی آواز سے گونجنے لگا۔
فیس بک پر تبصرے