عورت کی سرزنش کی وڈیو، حقیقت کیا ہے ؟

835

سیریز کے چار منٹ پر محیط ایک سیگمینٹ کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہےجس میں بیوی کی سرزنش کی شرعی حدود پر گفتگو کی گئی ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی پر “خاندان  کے مسائل” کے عنوان سے ایک تربیتی سیریز چل رہی ہے  جس میں میاں بیوی کے حقوق و فرائض  قران و سنت کی روشنی میں بیان کیے جا رہے ہیں۔سیریز   کے چار منٹ پر محیط ایک سیگمینٹ  کو سوشل میڈیا  پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہےجس میں بیوی کی سرزنش کی شرعی حدود  پر  گفتگو کی گئی ہے۔پروگرام کے میزبان خالد بن ابراہیم صقعبی نے  اس سیگمینٹ میں  یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر زوجین میں اختلاف ہو جائے  اور  اختلاف کی وجہ عورت کی ہٹ دھرمی ہو تو  اس اختلاف کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے اور  بیوی کو کس طرح تنبیہ کی جائے جس سے اسے غلطی پر ہونے کا احساس ہو؟پروگرام کے میزبان خالد صقعبی نے  اس کا جواب دیتے ہوئے شریعت کی حدود بیان  کرتے ہوئے ایک حدیث کا حوالہ دے کر بتایا کہ آخری درجہ  یہ ہے کہ مسواک کے ذریعہ بیوی کی سرزنش کی جائے جس سے ظاہر ہے کہ  صرف بیوی کو اپنی غلطی پر متنبہ کرنا مقصود ہے۔ یہ تھی وہ ویڈیو جس کو “بیوی کو کیسے ماریں؟” کا عنوان دے کر پھیلایا گیا اور پھر  اس ویڈیو میں بتائی گئی تفصیل کو سنے بغیر ہی اسے  تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔میں نے یہ ویڈیو  ایک سے زائد دفعہ دیکھی کہ مجھے اس میں قابل اعتراض بات نظر آئے لیکن کمنٹس سے  مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ  صرف عنوان کو دیکھ کر تنقید کی جارہی ہے  جیسا کہ ہمارے ہاں بھی یہ چلن عام ہے کہ کسی بھی  ویڈیو یا تحریر کے مندرجات کچھ ہوں گے اور عنوان کچھ اور دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس طرف متوجہ ہوں۔

آزادی نسواں کی تحریک کو عراق  میں  دو زبردست حامی میسر آئے جو کہ شاعر تھے،ممتاز عراقی شاعر رصافی اور زہاوی نے عورتوں پر عائد پابندیوں پر پرجوش طریقے سے حملہ کیا،یہاں تک کہ  زہاوی نے  اپنی ایک نظم میں  نقاب کو جلا ڈالنے کی ترغیب دے ڈالی جو ناراضگی کا طوفان اس کے سر لے آئی۔

 اگر  تنقید کرنا ہی تھی تو اس ویڈیو پر    جو کہ محض گفتگوپر مبنی ہے کی بجائے عرب معاشرے میں  عملی طور پرعورت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک  پر تنقید کی جاتی،کیونکہ  آج بھی  عرب ممالک میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں عورت کو وہ حقوق اور وہ آزادی نہیں دی جا رہی جو اسلام آج سے چودہ سو سال قبل دے کر گیا تھا،اس ضمن   میں مثال کے طور چند سال قبل انگریزی میں شائع ہونے والی کتاب” پرنسس” کا نام لیا جا سکتا ہے جس میں سعودی عرب کی ایک شاہی فیملی سے تعلق رکھنے والی خاتون نے عورتوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا  کھل کر تذکرہ کیا ہے،عرب شہزادی نے بتایا ہے کہ رائل فیملی میں ہونے کے باوجود کس طرح  سولہ سالہ دوشیزہ کو پینسٹھ سالہ بوڑھے سے  بیاہ دیا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ   ایک طرف عرب معاشرہ بہت سے تغیرات سے گزر رہا ہے اور عورت کو اتنی  تیزی سے آزادی کی راہ دکھائی جا رہی  ہے کہ  جس نے مغرب کی مادر پدر آزادی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے تو دوسری طرف  آج بھی ایسے علاقوں کی کمی نہیں ہے  جہاں  عورت کو محبوس  اور محدود رکھا جاتا ہے اور اسے صرف مرد کی تسکین و آسائش  کا ایک ذریعہ اور تعیش و لذت اندوزی کی ایک شے سمجھا جاتا ہے اس کے علاوہ عورت کی ذاتی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

یہی وجہ ہے کہ وقتا فوقتا ہمیں عرب سماج کی کچھ انصاف پسند طبیعتوں کی طرف  سے ایسی آوازیں  سننے کو ملتی رہتی ہیں جس میں کھل کر عور ت کے حقوق کی بات کی جاتی ہے  اور عورتوں کے ساتھ روا رکھے  گئے   جاہلانہ رویوں اور ظلم و زیادتیوں پر کڑی تنقید کی جاتی ہے گذشتہ صدی میں عرب دنیا  میں ایک معتبر نام معروف ادیب اور دانشور قاسم امین کا ہے جنہوں نےبڑی ہمت اور خلوص کے ساتھ عورت کا مسئلہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنی دو کتابوں “حریت المراۃ” اور “المراۃ الجدیدۃ”( جو انیسویں صدی کے اختتام پر قاہرہ سے شائع ہوئی تھیں   اور ان کا متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے میں عورت کا مرتبہ واضح کیا ہے۔قاسم امین نے تعلیم  نسواں کی حمایت بڑی قوت کے ساتھ کی،ان کا ماننا تھا  کہ لڑکیوں کی تعلیم کو لڑکوں کی تعلیم پر ترجیح ہونی چاہیے۔

آزادی نسواں کی تحریک کو عراق  میں  دو زبردست حامی میسر آئے جو کہ شاعر تھے،ممتاز عراقی شاعر رصافی اور زہاوی نے عورتوں پر عائد پابندیوں پر پرجوش طریقے سے حملہ کیا،یہاں تک کہ  زہاوی نے  اپنی ایک نظم میں  نقاب کو جلا ڈالنے کی ترغیب دے ڈالی جو ناراضگی کا طوفان اس کے سر لے آئی۔

اس ضمن میں دو عورتوں کے نام  لیے جاسکتے ہیں جنہوں نے آزادی نسواں کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،ایک حنفی نسیف جو کہ باحثۃ البادیہ کے فرضی نام سے لکھتی  تھیں اور دوسری   میری زیادہ جن کا قلمی نام “مے” تھا،یہ عجیب بات ہے کہ پردے کی مخالفین ان دو عورتوں نے اپنے نام   تک ہمیشہ پردے میں ہی رکھے ۔

یہ حقیقت ہے کہ   ایک طرف عرب معاشرہ بہت سے تغیرات سے گزر رہا ہے اور عورت کو اتنی  تیزی سے آزادی کی راہ دکھائی جا رہی  ہے کہ  جس نے مغرب کی مادر پدر آزادی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے تو دوسری طرف  آج بھی ایسے علاقوں کی کمی نہیں ہے  جہاں  عورت کو محبوس  اور محدود رکھا جاتا ہے

یہ حقیقت ہے  کہ ترقی پذیر ملکوں میں عورت کو اس کا جائز مقام نہیں مل رہا دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ حقوق نسواں کے نام سے اٹھائی جانے والی تحریکیں بھی عورت کا استحصال ہی کر رہی ہیں اور بہ قول شخصے” یہ عورت کی آزادی کی نہیں بلکہ عورت تک پہنچنے کی آزادی  کی تحریکیں ہیں”۔یہ تحریکیں چونکہ ردعمل میں اٹھی ہیں اس لیے فطری طور پر ان کا   بھی ایک انتہا پر ہونا یقینی ہے۔اگر ترقی پذیر ممالک میں  عورت سے روا رکھاجانے والا سلوک ایک انتہا ہے تو ترقی یافتہ ممالک  اس معاملے میں  بالکل دوسری انتہا پر کھڑے نظر آتے ہیں۔عورت نہ  پابندیوں میں جکڑ کر رکھی جانے والی مخلوق ہے نہ ہی جنس بازار۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ  یہ  قدآور شخصیات اپنی جدوجہد کو   اپنے ہدف یعنی  خواتین کو ان کے حقوق دلوانے تک محدود رکھتیں اور  حقوق کی آڑ میں اسلام کے احکامات کو تختہ مشق نہ بناتیں ،ایسا کرنے سے  ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہی ہوتا۔اسلام  مساوات کا درس دیتا ہے اور بحیثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں رکھتا،اگر   اسلام نے فرق  رکھا  ہے تو صرف  رشتوں میں،کسی رشتے میں  مرد کو فوقیت ہے جیسے میاں  بیوی کا رشتہ ،اور کسی میں عورت کو  جیسے ماں باپ کا رشتہ۔مشہور حدیث میں ماں کی باپ پر تین گنا برتری اور فضیلت بتائی گئی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...