ڈیرہ میں لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام

840

سیاسی اثرورسوخ مسلمہ قوائد و ضوابط کو غیر موثر بنا کے رجسٹرڈ کمپنیوں کی بجائے غیر مستند کمپنیوں سے غیر معیاری ٹرانسفارمرز خریدنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے

گرمی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ ہی دور افتادہ شہروں میں ٹرانسفارمز پھٹنے اور بجلی کی تاریں گرنے جیسے حادثات بڑھ جاتے ہیں،جن کی فوری مرمت و بحالی کی صلاحیت ناپید ہونے کی وجہ سے گنجان آباد علاقوں میں مسلسل کئی کئی دن تک بجلی بند رہتی ہے۔تکنیکی خرابیوں کو بروقت سملجھانے میں دانستہ تاخیر اور غیر اعلانیہ لوڈ شڈنگ جیسے مسائل سے نمٹنے کی خاطر ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے کمشنر نے ایس ای سرکل سے لے کر پیسکو اور پیپکو چیف کو خط لکھ کے کوارڈینشن کی درخواست کی تو واپڈا کے ذیشان افسران نے جواب دینا تک گوارہ نہ سمجھا لیکن واپڈا اہلکاروں کی کوتاہیوں کے باعث اگر امن و عامہ کا مسلہ پیدا ہو جائے تو ذمہ داری انتظامیہ کے سر ہو گی،انہی عمیق تضادات نے انتظامیہ کو بے بس کر رکھا ہے ۔حیران کن امر یہ ہے کہ شہر اور مضافاتی علاقوں میں اب بھی ازمنہ رفتہ کی بوسیدہ تاریں،ناکارہ کنڈیکٹرز اور غیر معیاری ٹرانسفارمز کی تنصیب بجلی کی ترسیل کے نظام میں خرابیوں کے علاوہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی وجہ بنتی ہے، پیسکو اگر ان چھوٹی چھوٹی قباحتوں پہ قابو پا لیتی تو بجلی سے جڑے ستر فیصد مسائل ازخود حل ہو جاتے کیونکہ 12 سے14گھنٹوں پہ محیط یومیہ لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ تکنیکی خرابیوں کا آشوب اس گمبھیرتا کو زیادہ اذیتناک بنا رہا ہے،جس کے ازالہ کی اگر بروقت کوشش نہ کی گئی تو ضلعی اتھارٹی کے لئے شہروں کا نظم و نسق سمبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ایک تو ان معمولی تکنیکی خرابیوں کا تدارک یقینی بنانے کی ضرورت تھی جو بجلی کی ٹرپنگ اور کم وولٹیج کا سبب بن کے صارفین کی الیکٹرانکس اشیاءکے جلانے اور گنجان آباد علاقوں میں بجلی کی طویل بندش کے ذریعے عوام کو اشتعال میں لانے کے اسباب مہیا کرتی ہیں،دوسرے،پیسکو حکام اگر ان غیر معیاری ٹرانسفارمرز کی تنصیب روک لیں،جو ایم این ایز فنڈ سے واپڈا کی منظور شدہ کمپنیوں کی بجائے غیر مستند اداروں سے سستے داموں خرید کے نصب کئے جاتے ہیں، تو انرجی بحران پہ کافی حد تک کنٹرول پایا جا سکتا ہے،اگرچہ قانوناً ایم این اے فنڈ سے غیر رجسٹرڈ کمپنیوں سے ٹرانسفارمرز نہیں خرید سکتے لیکن سیاسی اثرورسوخ مسلمہ قوائد و ضوابط کو غیر موثر بنا کے رجسٹرڈ کمپنیوں کی بجائے غیر مستند کمپنیوں سے غیر معیاری ٹرانسفارمرز خریدنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جس سے قومی وسائل کے ضیاع کے علاوہ سماجی و انتظامی مسائل دوچند ہو جاتے ہیں۔بنیادی طور پر یہ ایف آئی اے کی ذمہ داری تھی جو ایسی بے ضابطگیوں پہ نظر رکھتی مگر دور افتادہ علاقوں کے وفاقی دفاتر میں تعینات مقامی اہلکاروں کو ذاتی مجبوریاں انہیں ایسی پیش دستیوں سے روک لیتی ہیں۔غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جو واپڈا کے مقامی اہلکار اپنی خامیوں پہ پردہ ڈالنے کےلئے روا رکھتے ہیں وہ بھی جلتی پہ تیل کا کام کرتی ہے ۔بلاشبہ توانائی بحران پہ قابو پانا تو پیسکو حکام کے بس میں نہیں لیکن ان چھوٹی مگر دور رس نتائج کی حامل خرابیوں سے نجات تو ممکن تھی لیکن سینکڑوں افسران اور ہزاروں کارکنوں پہ مشتعمل واپڈا کا سٹاف ان معمولی مسائل کا حل ممکن نہیں بناسکتا حالانکہ یہی چھوٹی خرابیاں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ بجلی کی طویل بندش کا سبب بن کے گھریلو خواتین اور معصوم بچوں تک کو پرتشدد احتجاج پہ آمادہ کر کے امن و امان جیسے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ابھی حال ہی میں مسلم بازار جیسے گنجان آباد علاقہ میں ایک ہفتہ میں دو بار بجلی کی ہائی پاور لائن کی تاریں ٹوٹ گرنے سے رکشہ ڈرائیور زندہ جل مرا مگر کسی کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ایف آئی اے والوں نے نوٹس لیا نہ اس حادثہ کی انکوائری کرائی گئی ،زخمی و جاں بحق ہونے والے خاندانوں کو زر تلافی تک نہیں ملا ،حتّیٰ کہ پسماندگان کے آنسو پونچھنے کوئی سرکاری اہلکار متاثرین کے گھر تک نہ جا سکا ۔صرف مئی کے مہینہ میں بجلی بندش کے خلاف خواتین کے سات مظاہروں اور تاجروں کی شٹرڈاون ہڑتال کے علاوہ ضلع بھر کے چالیس سے زیادہ مقامات پہ ہونے والے پرتشدد مظاہرے اگرچہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہے تاہم ان مظاہروں نے حکومتی ساکھ اور انتظامی اتھارتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

چند دن قبل مضافاتی علاقوں کے مشتعل صارفین نے واپڈا دفتر پہ دھاوا بول کے امن و امان کا مسلہ پیدا کیا تو پولیس نے مظاہرین کے خلاف فوجداری مقدمات درج کر لئے اگر انتظامیہ غیرقانونی اڈے قائم کر کے گھنٹوں بجلی بند رکھنے والے واپڈا اہلکاروں کے خلاف صارفین کو اکسانے اور اعانت جرم کی دفعات کے تحت جوابی مقدمات درج کر لیتی تو اصلاح احوال ممکن تھی اور پھر پیسکو والے بھی انتظامیہ کی بات سنتے۔

افسوس کے ایوب خان سے لیکر جنرل مشرف تک مہم جُو اصلاح کار خود تو کوئی مربوط سول نظام تشکیل نہیں دے سکے مگر اس منظم انتظامی ڈھانچہ کے تار پود بکھیر بھی ڈالے جو انگریز سے ہمیں ورثہ میں ملا تھا چنانچہ اب سروسیز فراہم کرنے والے سرکاری اداروں اور انتظامی اتھارٹی کے مابین کوارڈینشن مفقود ہے،اس لئے ضلعی انتظامیہ جو ریاستی اتھارٹی کا چہرہ ہے ایک عضو معطل بن کے رہ گئی ہے۔

چنانچہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مرکزی انجمن تاجران نے آگے بڑھ کے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں مذہبی و سیاسی جماعتوں کے علاوہ سماجی تنظیموں کی لیڈر شپ شریک ہوئی،مجموعی طور پہ اے پی سی کے شرکاءکے غم و غصہ کا ہدف وہ ممبران اسمبلی بنے جو ووٹرز کے مسائل حل کرانے میں دلچسپی لینے کی بجائے منافع بخش پوسٹوں پہ منظور نظر افسران کی تعیناتی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں،اس بے نواءکانفرنس کے شرکاءنے ایک بار پھر پُرسوز لہجہ میں رمضان شریف میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بند کرنے کی ان التجاوں کو دہرایا جنہیں ہم عرصہ سے سنتے آئے ہیں۔اس سماجی اجتماع میں اگرچہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسشین کی جانب سے ڈیرہ کے تاجران کو مختصر دورانیہ کے ٹیکس نوٹسیسز جاری کر کے دوکانیں سیل کرنے اور ٹی ایم اے کی طرف سے تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران بغیر نوٹس دیئے پختہ تھڑوں اور چھپر کو مسمار کرنے جیسے اقدامات کی مذمت کی گئی تاہم کانفرنس کے ماحول پہ بجلی کی بندش کا آشوب سایہ فگن رہا، مرکزی انجمن تاجران کے صدر راجہ اختر علی نے بتایاکہ کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن اور ایس ای بنوںسرکل سے ہونے والی تاجروں کی حالیہ ملاقات میں لوڈشیڈنگ کم کرنے،اووربلنگ اور ناجائز جرمانوں کے تدارک اور غیراعلانیہ لوڈ شڈنگ جلد ختم کرنے پر اتفاق ہوا تھا مگر بدقسمتی سے فیصلوں پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔مقررین نے کہا ،سرکاری اہلکاروں کی خود سری اور منتخب نمائندوں کی عوامی مسائل سے لاتعلقی ناقابل برداشت ہو چکی ہے،مصائب کی چکی میں پستے عوام کی دستگیری کرنے والا کوئی نہیں۔جن لوگوں نے دکھوں کے مداوا کے لئے  ممبران اسمبلی کو منڈیٹ دیا وہ شہریوں کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کے اقتدار کی غلام گردشوں میں کھو گئے،اب ان حالات میں جب میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمٰن کی کسی بات کو نہیں ٹالتے تو انہیں کس قوت نے اپنا حلقہ نیابت کے ووٹرز کی مشکلات کے ازالہ کے لئے واپڈا کا الگ سرکل منظور کرانے سے روک رکھا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...