فرقہ واریت: اسی عطار کے لونڈے سے دوا
امید کرتے ہیں کہ اس ”نسخہ کیمیا“ سے فرقہ پرستی، انتہا پسندی اور شدت پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم میر سے بھی زیادہ سادہ ہیں۔ گاہے ہم اپنے درد کا علاج انھیں سے دریافت کرنے پہنچ جاتے ہیں جو درد بانٹے کا کاروبار کرتے ہیں
فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی بعض کوششوں کو ”اسی عطار کے لونڈے سے دوا“ لینے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاید میر کی یہ تعبیر بھی صحیح صورت حال کی پوری عکاسی نہیں کرتی۔ ہم تو فرقہ پرست عناصر کو اور بھی قوی کرتے جارہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس ”نسخہ کیمیا“ سے فرقہ پرستی، انتہا پسندی اور شدت پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم میر سے بھی زیادہ سادہ ہیں۔ گاہے ہم اپنے درد کا علاج انھیں سے دریافت کرنے پہنچ جاتے ہیں جو درد بانٹے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہماری کیفیت کی ترجمانی شاید یہ شعر کرتا ہے:
آپ ہی نے دردِ دل بخشا ہمیں
آپ ہی اس کا مداوا کیجیے
جب بھی کوئی ایسی مشکل پیش آتی ہے جو فرقہ واریت کی دین ہوتی ہے ہم امید بھری نظروں سے کن کی طرف دیکھتے ہیں، ہاں وہی جن کی شناخت ،شہرت، دولت، ریاست اور منصب سب فرقہ واریت کے فروغ سے فروغ پذیر ہوتے ہیں۔ فرقے اور فرقوں کے مابین شدت جن کی اہمیت میں اضافے کا ذریعہ ہے۔ ایسے افراد کس طرح سے فرقہ واریت کے خاتمے کی کسی مہم کا مخلصانہ حصہ بن سکتے ہیں۔
حکومت نے فرقہ وارانہ شدت پسندی کو کنٹرول کرنے کے لیے جو تدابیراختیار کیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ فرقوں کی بنیاد پر قائم اداروں کو زیادہ با اختیار بنا دیا ہے۔ ان کا کردار اب”قانونی تر“ ہو گیا ہے۔
اصل کرنے کا کام تو یہ تھا کہ نصاب کو دانش عصر سے ہم آہنگ کیا جاتا۔ پیش رفتہ سماجی اور انسانی علوم کے ناگزیر حصوں کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جاتا۔ معرفت انسان سے متعلق ضروری مطالب پر مشتمل ابواب کی تدریس کا اہتمام کیا جاتا۔ عالم اسلام اور عالم انسانیت کو درپیش اہم مسائل سے آگاہی کا اہتمام کیا جاتا نیز بین الاقوامی قوانین سے واقفیت پیدا کی جاتی۔ افسوس ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔
یہ بھی ضروری تھا کہ مسالک سے بالاتر نصاب کے جو اجزاءمشترک ہیں ان کے لیے مسالک کی تمیز کے بغیر کلاسوں کا اجرا کیا جاتا تاکہ مختلف مسالک کے طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ایک دوسرے سے بہتر طور پر آگاہ ہوتے، قربتیں پیدا ہوتیں جو بعدازاں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شرکت اور محبت میں تبدیل ہو جاتیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
حکومتوں کے تمام اقدامات ہنگامی، سطحی اور نمائشی ہیں۔ مختلف مسالک کے نمائندے اکٹھے ہوتے ہیں اور یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے مسلک اور ہماری مسلکی آزادی و اختیار پر کوئی نئی قدغن نہ لگے۔ وہ اپنے اپنے مسلک کے مفادات کے نمائندہ ہوتے ہیں اور انھیں کے تحفظ کے لیے کوشاں ہوتے ہیں بلکہ مزید مراعات و مفادات کے درپے ہوتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری فنڈسے قائم ماڈرن مدرسے بھی مسلکی مدرسوں میں بدل چکے ہیں۔ سو فیصد سرکاری سرمائے سے قائم ان مدرسوں نے کیا مختلف کردار ادا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ سرکاری سرمایہ تو عوامی ٹیکسوں سے تشکیل پاتا ہے اور ٹیکس تو تمام مسالک کے عوام بلکہ تمام ادیان کے ماننے والے دیتے ہیں۔ اس سرمائے سے بھی بالآخر مسلکی مدرسے وجود آ گئے۔ مدرسے کا نام”ماڈرن“ رکھنے سے وہ ماڈرن نہیں ہوجاتا۔ نظام، نصاب اور طرز تدریس کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے سے مدرسہ جدید ہوتا ہے۔
ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ جب داخلی اور خارجی دباﺅ میں کچھ اضافہ ہو جاتا ہے تو حکومتیں جلد بازی میں کچھ بھاگ دوڑ کرنے لگتی ہیں۔ حکومتوں کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ مذہبی مدارس کے ذمہ داروں کی میٹنگ کبھی وزارت تعلیم طلب کرتی ہے، کبھی وزارت داخلہ اور کبھی وزارت مذہبی امور۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ فیصلہ ہی نہیں ہوا کہ مذہبی مدارس کس وزارت کے تحت آتے ہیں۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ضروری ہے کہ کچھ خاص حالات پیدا ہوں پھر ہی حکومت اس نہایت اہم موضوع پر تبادلہ خیال شروع کرے اور جلد بازی سے مزید کچھ خرابیوں کی بنیاد رکھ دے۔
پاکستان کے مذہبی مدارس کے ذمہ داروں کے مطابق ان میں تقریباً تیس لاکھ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اگر ان مدارس سے ہر سال ایک لاکھ طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہوتے ہوں جن میں ہر کوئی ایک خاص مسلکی ذہنی ساخت کے ساتھ معاشرے داخل ہوتا ہے تو کیا حکومت کو اندازہ ہے کہ وہ معاشرے کو کس سمت لے جانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا میں کم و بیش ستاون اسلامی ملکوں میں کہیں مذہبی مدارس کی یہ نوعیت نہیں ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے۔سعودی عرب، ایران، مصر،ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے اس سلسلے میں کیا تجربات ہیں؟ ان کے ہاں مذہبی تعلیم کس انداز سے دی جاتی ہے؟ ان مدارس پر حکومتی کنٹرول کس قسم کا ہے؟ ان کے ہاں نصاب کی کیا صورت حال ہے؟ کیا حکومتی ذمہ داروں نے اس کا مطالعہ کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ ہم کسی ماڈل کا بھی سو فیصد چربہ نہ کریں لیکن دوسروں کے تجربات اور اپنے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کیا ہمیں کچھ سنجیدہ پیش رفت نہیں کرنا چاہیے؟
ہمیں اس پر بھی شدید تشویش ہے کہ فرقہ واریت کا عمل دخل پاکستان کی سیاست میں بھی بڑھتا جارہا ہے۔ قانون تو اجازت نہیں دیتا کہ فرقہ وارانہ یا مسلکی بنیادوں پر قائم جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں لیکن قانون کتابوں میں ہے اور جنون سڑکوں پر۔ یہ سلسلہ ھل من مزید کی پکار کے ساتھ روز افزوں ہے۔
اس پر ہی کیا بس ہے، اب تو ہماری خارجہ پالیسی پر بھی فرقہ واریت کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ ہمارے خارجہ تعلقات میں فرقہ واریت کے داغ دھبے نمایاں ہونے لگے ہیں۔ باہر کی بعض ریاستوں نے اگر مسلکی پالیسیاں اختیار کی ہیں تو ہمیں ان کی پیروی کرنے کے بجائے انھیں سمجھانے کی ضرورت ہے نہ کہ ہم بھی اسی آگ کو خرید لائیں جس میں دیگر کئی اسلامی ممالک جل رہے ہیں۔ اگر ریاستی اور حکومتی سطح پر اس طرح کی سوچ پیدا ہو گئی اور خارجہ تعلقات میں فرقہ واریت کا دیو داخل ہو گیا تو معاشرے کو دیو دنگل اور قانون جنگل سے کون بچائے گا پھر ہم حکومت سے فرقہ واریت سے نجات دلانے کا مطالبہ کریں گے تو میر ہم پر اپنا نام لے کر یہی پھبتی کسیں گے:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
فیس بک پر تبصرے