سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا ؟

1,259

والدین کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے ساتھ ساتھ بچوں کی پسند ،مرضی اور بے شمار خداداد صلاحیتوں کی روشنی میں اُن کی زندگیوں کا فیصلہ کریں، بہتر تویہ ہے کہ اُ نھیں اپنا راستہ خود چننے دیں

ہمارے ہاں کے نظامِ تعلیم کا ایک بنیادی نقطہ طالبِعلموں پر قبضہ کرنا ہے۔یہ کام تعلیمی نصاب اور اساتذہ کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔تعلیمی نصاب اس انداز کا ترتیب دیا جاتا ہے جس میں سوالات کی گنجائش کم سے کم ہوتی ہے ۔یہ دھیان رہے کہ تعلیم کاتو بنیادی کام ہی سوالات کو جنم دینا ہے ۔طالبِ علموں کے ذہنوں میں سوالات کانہ اُبھرنا ہی اُن پر قبضہ کاسبب بنتا ہے ۔جب تعلیمی نصاب اور یبوست زَدہ اساتذہ کی کوششوں کے نتیجے میں طالبِ علم قابو میں آجائیں تو مسئلہ ہی حل ہوجاتا ہے کیونکہ شعور کواُجاگرکرنے کاسفرتھم جاتا ہے۔طالبِعلم کائناتی حقیقتوں سے منہ موڑ کر غیر حقیقت کے تابع ہو کر رہ جاتے ہیں ۔چونکہ طالبِعلموں کی تخلیقی قوت ختم ہو چکی ہوتی ہے یوں ایسے میں کوئی نیاتصور جگہ بنا سکتا ہے نہ سچ آشکار ہو سکتا ہے ۔والدین بھی طالبِ علموں پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھی بن جاتے ہیں ۔ والدین ،اساتذہ ،تعلیمی ادارے ،نصاب اور تعلیمی نظام طالبِ علم سے اُس کا حق کیسے چھینتے ہیں ؟ نیز طالبِ علم اور قبضہ گروپ طاقتوں کے مابین تضادات کی نوعیت کس حد تک سنگین ہے ۔اس حقیقی کہانی سے سمجھتے ہیں ۔

پائیلو کوہلو کا ایک کردار کہتا ہے کہ”تمہیں ہمیشہ علم ہونا چاہیے کہ وہ کیا ہے ،جو تم چاہتے ہو“

فرحان کی امی کے چند سوالوں کی حقیقت اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال چالیس کی جماعت میں طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد دو چار بار کی کوششوں کے باوجود بھی میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلہ لینے سے معذور رہتی ہے

یہ علم رکھناچاہیے کہ جب تک ہمیں اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہو جاتا ، ذہنی رجحانات و میلانات کے بارے آگاہی نہیں ہوجاتی اور یہ معلوم نہیں ہو جاتا کہ ہم کیا چاہتے ہیں اُ س وقت تک ہماری شخصیت کی شاندار عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی ،شاندار عمارت تو کجا نیو ہی نہیں ڈالی جا سکتی ۔ یوں اس ماحول کی تخلیق کے ضمن میں میرا جہاںکچھ طالبِ علموں کے والدین سے ملنا رہا وہاں تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے بھی ملاقاتیں رہیں ۔جب گیارہویں جماعت میں داخلوں کا آغاز ہوتا اور والدین بچوں کو لے کر تعلیمی اداروں کا رخ کرتے تو مَیں یہ کھوجنے لگ جاتا کہ والدین اور اداروں کے سربراہان کو اس بات کا ادراک ہے کہ طالبِ علم کیا چاہتے ہیں ؟اور طالبِ علموں کویہ جان کاری ہے کہ وہ خود کیا چاہتے ہیں؟

یہ علم رکھناچاہیے کہ جب تک ہمیں اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہو جاتا ، ذہنی رجحانات و میلانات کے بارے آگاہی نہیں ہوجاتی اور یہ معلوم نہیں ہو جاتا کہ ہم کیا چاہتے ہیں اُ س وقت تک ہماری شخصیت کی شاندار عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی

مَیں نے دیکھا ،کہ والدین کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد اُ ن کے خوابوں کی تعبیر ثابت ہو ، ادارے کے سربراہان ،خصوصاََ نجی اداروں کے (سرکاری اداروں کے بیشتر سربراہان کو تو اس بات سے کہ کتنے طالبِ علموں نے اس سال داخلہ لینا ہے یا لیا ہے قطعی مطلب نہیں ہوتا )،ہمیشہ اس لالچ میں ہوتے ہیں کہ اُن کے ہاں داخلوں کی تعداد میں کسی نہ کسی طریقے سے اضافہ ہو۔ یوں دونوں فریق یہ نہیں سوچتے یا اس بات پہ قطعی غور نہیں کرتے کہ طالبِ علم کیا چاہتے ہیں؟ اور قربانی کے جانوروں(طالبِ علموں) کو اول تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟ اگر معلوم ہوتب بھی قربان ہونا مقدر ٹھہرتا ہے کہ اُ ن کی روز ِ اول سے تربیت ہی اس ڈھنگ سے کی جاتی ہے۔ یہاں ہم صرف ایک مثال سے یہ دیکھیں گے کہ جب کسی طالبِ علم کو یہ معلوم نہ ہو ”تمہیں ہمیشہ علم ہونا چاہیے کہ وہ کیا ہے جو تم چاہتے ہو“ ،والدین اوراساتذہ بھی اس سلسلے میں کوئی مدد نہ کر یں یا طالبِ علم کے چاہنے کے باوجود بھی اپنی پسند، مرضی اورضرورت کو ترجیح دیں اور حکومتی سطح پر لا تعلقی برتی جائے تو کیا نتائج نکلتے رہے ہیں، نکل رہے ہیں یا پھر مزید نکل سکتے ہیں ؟ مزید براں کہ انفرادی اور ملکی سطح پر کیا نقصان ہوتا رہا ہے ، ہو رہا ہے یا پھر مزید ہو سکتا ہے ۔؟

ہمارے ہاں کے نظامِ تعلیم کا ایک بنیادی نقطہ طالبِعلموں پر قبضہ کرنا ہے۔یہ کام تعلیمی نصاب اور اساتذہ کے ذریعے کیا جاتا ہے

یہ چند ایک برس اُدھر کا ایک واقعہ ہے، گیارہویں جماعت میں داخلوں کے بعد باقاعدہ پڑھائی کا آغاز ہو چکا تھا۔مَیں چنددن سے پری میڈیکل کے فرحان نامی ایک طالبِ علم کو اپنی نظر میں رکھے ہوئے تھا،مجھے لگ رہا تھا جیسے وہ ہر گذرتے دن کے ساتھ جسمانی طور پرسست ،کمزور اورلاغر ہوتا جا رہا ہے ۔ میرے مضمون میں پڑھائی کے حوالے سے درمیانے درجے کا تھا ،لیکن اُس کی گفت گواور باتوں سے میرا یہ یقین تھا کہ چند اچھے طالبِ علموں کی صف میں شامل ہو سکتا ہے، لیکن سائنس کے جملہ مضامین میں حالت تشویش ناک حد تک خراب تھی ،دیکھا جائے تووہ قطعی طور پر پری میڈیکل میں داخلے کا اہل نہیں تھا۔ایک دن گیارہویں اور بارہویں جماعت کے درمیان فٹ بال کا میچ تھا ، میری حیرانی کی اُ س وقت ابتدا ہوئی جب فرحان کو اپنی جماعت کی بہ طور کپتان کے نمائندگی کر تے دیکھا، جیسے ہی میچ کا آغاز ہوا ،حیرانی بڑھتی گئی کہ وہی دھان پان سا لڑکا جو کلاس روم میں سہما سہما سا رہتا ہے ایک چست اور ماہر کھلاڑی کی طرح پورے اعتماد سے گول پہ گول کیے جا رہاہے۔

مَیں نے اگلے دن کلاس روم میں اُس سے کہا”ڈئیر فٹ بال کے کھیل میں تو تمہیں بہت مہارت ہے “کہنے لگا” سر مجھے لگتا ہے کہ جن کاموں میں میری مرضی شامل ہو اُنھیں اچھے انداز سے بغیر کسی تھکاوٹ اور بے زاری کے سر انجام دے سکتا ہوں۔“”بہت خوب “میں نے کہا ،اورپوچھا”مزید ایسے کون سے کام ہیں جنھیں تم اچھے انداز سے سرانجام دے سکتے ہو؟“۔ کہنے لگا ” تصویریں بہت اچھی بناتا ہوں ۔ “ کچھ دنوں بعد اچانک اُس کی ماں سے ملاقات ہوئی تو کہا”آپ جانتی ہیں کہ آپ کا بیٹا اپنے ہم جماعتوں سے پڑھائی میں بہت پیچھے ہے ؟“ کہنے لگی ” جی جانتی ہوں ،مَیں اور میرے میاں تو ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کسی طریقے سے پڑھائی میں اچھا ہو جائے ،گھر میں بھی دو اُستاد پڑھانے آتے ہیں ،مگر قصور اِ س کا اپنا ہے ، اس کے شوق ہی نہیں پورے ہوتے ساری ساری رات رنگوں سے خود اور کمرے کو خراب کرتا رہتا ہے ،اپنے پاپا سے کئی بار ڈانٹ بھی کھا چکا ہے ۔“ مَیں نے کہا” سائنس کے مضامین کے علاوہ باقی مضامین میں ٹھیک ہے کہیں ایسا تونہیں کہ آپ اُسے مجبور کررہے ہوں کہ وہ سائنس ہی پڑھے اور سائنس بطور مضمون کے اُسے پسند ہی نہ ہو اور وہ خود کو آرٹس کے لیے موزوں سمجھتا ہو۔“کہنے لگی” ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارا بچہ ڈاکٹر بنے دکھی انسانیت کی خدمت کرے ،غریبوں کا مفت علاج کرے ،ہمارے پاس اللہ تعالی کا دیا بہت کچھ ہے “مَیں نے کہا” دیکھیں آپ کا جذبہ قابلِ ستائش ہے مگر آپ کو اپنے بچے کے ا ندر چھپی خداداد صلاحیتوں کا بھی تو سراغ لگانا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ “ یہاں وہ غصے میں آ کر کہنے لگی” تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم آرٹس میں داخلہ دلوا کر معصوم بچے کا مستقبل تباہ کر دیں ۔ اچھا آپ ذرا یہ بتائیں کہ پاکستان میں آرٹس کی تعلیم کا کوئی مستقبل ہے یا سکولوں کالجوں میں مصوری کا کوئی مضمون پڑھایا جاتاہے۔ اور کیا تصویریں بنانا ہمارے مذہب میں جائز ہے ؟ “

فرحان کی امی کے چند سوالوں کی حقیقت اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال چالیس کی جماعت میں طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد دو چار بار کی کوششوں کے باوجود بھی میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلہ لینے سے معذور رہتی ہے اس لیے کہ وہ اُس کام کو کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں جس کام کو کرنا ہی نہیں چاہتے ،پھر مجبوراََ بی ایس سی اور ایم ایس سی کرتے ہیں اور زندگی بھر اپنی اور ملکی ترقی میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ یہ طے ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب وہی افراد ملیں گے جنہوں نے اپنے شعبے کا انتخاب خوب سوچ وبچار کے بعد کیا ہو گا اور ایسے افراد ہی ملک اور قوم کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں ۔

والدین کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے ساتھ ساتھ بچوں کی پسند ،مرضی اور بے شمار خداداد صلاحیتوں کی روشنی میں اُن کی زندگیوں کا فیصلہ کریں، بہتر تویہ ہے کہ اُ نھیں اپنا راستہ خود چننے دیں،جہاں بچے خود اُن کی ضرورت محسوس کریں وہاں مدد کو پہنچیں ۔ طلباو طالبات کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہمیشہ اس بات ”تمہیں ہمیشہ علم ہونا چاہیے کہ وہ کیا ہے جو تم چاہتے ہو“پر غور وفکر کرتے ہوئے عمل کرتے رہیں۔

جب سوچے سمجھے اور جہالت پر مبنی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے طالبِ علموں پر قبضہ کر لیا جائے تو ایک متوازن اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد کیونکر رکھی جاسکتی ہے ؟جب ہم یہ کہتے ہیںکہ ہمارا معاشرہ صحت مند نہیںتو دَراصل ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ہماری تعلیم صحت مند نہیں ۔ ہمارا طالبِ علم حقیقت کے ادراک اور اُس کے تنقیدی جائزے کی صلاحیت رکھتا ہے؟قبضہ گروہ کی اِجارہ داری میں مذکورہ صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے؟حاشا و کلاہ!!!

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...