اپنے مستقبل کا فیصلہ آج ہی کیجئے۔

1,065

در اصل ہماری تربیت اس ڈھب سے کی گئی ہے کہ ہمارے احساس کو اس وقت تک تسکین مل ہی نہیں سکتی جب تک دونوں دوست ایک دوسرے کو بچاتے بچاتے شیر کے منہ میں نہ چلے جاتے۔

مشہور چینی کہاوت ہے کہ جب تیز آندھی چل رہی ہو تو اس وقت سر اونچا رکھنا حماقت ہے کیونکہ آپ آندھی سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح زلزلے کے دوران اپنی جان بچانا فرض ہے۔ ایسے موقع پر صبر و تحمل یہی ہے کہ اپنی اور دوسروں کی جان بچائی جائے۔

بعض اوقات دوسروں کی جان بچانے کے لیے اپنی درست اور حق بات سے پیچھے ہٹ جانا بزدلی نہیں بلکہ بہادری کہلاتا ہے۔ ایسی بہادری کو حماقت کہتے ہیں جس میں جان گنوا کر نقصان حاصل کیا جائے۔

ہمیں بعض قصے کہانیاں سنا سنا کر ایک جذباتی قوم بنا دیا گیا ہے۔ ہم ہر کام سوچ سمجھ کر کرنے کے بجائے جذبات اور بھرپور جوش و خروش کے ساتھ کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔ جوش جذبہ کوئی بری چیز نہیں تاہم اگر جوش کے ساتھ ہوش نہیں تو یہ جوش بعض اوقات اچھے بھلے انسان کو حیوان بنا دیتا ہے۔

علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں جوش اور ہوش کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے کہ

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

آپ نے دو دوستوں کا وہ مشہور مکالمہ ضرور سنا ہوگا جس میں ایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا کہ اگر آپ جنگل میں ہوں اور سامنے سے شیر آ جائے تو آپ کیا کریں گے ؟۔ دوست نے جواب دیا کہ میں نے کیا کرنا ہے ، جو بھی کرے گا ، شیر ہی کرے گا۔

اس لطیفے کو سن کر ضرور ایک قہقہ بلند ہوتا ہے لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ اگر ایسی صورتحال کا سامنا آپ کو ہو تو آپ کیا کریں گے ؟

میں یہاں ایک دوسرے واقعے کا ذکر کرتا ہوں کہ جو میں نے بچپن میں پڑھا تھا۔ ان دونوں واقعات سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم واقعات سے نتائج کیسے اخذ کرتے ہیں۔

دو دوست تھے اور دونوں کا یارانہ بڑا گہرا اور مثالی تھا۔ ایک دن دونوں شکار کی غرض سے قریبی جنگل گئے۔ جنگل پہنچے تو اچانک سامنے سے شیر آ گیا۔ شیر کو دیکھتے ہی دونوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک درخت پر چڑھ گیا جبکہ دوسرا فورا زمین پر لیٹ گیا۔ شیر قریب پہنچا تو اس نے لیٹے ہوئے نوجوان کا منہ کان سونگھنا شروع کر دیا۔ لڑکا ڈرا لیکن اس نے کوئی حرکت نہیں کی۔ شیر نے اس نوجوان کو کچھ نہیں کہا اور آگے بڑھ گیا۔

جب شیر دور چلا گیا تو جو درخت پر تھا ، وہ نیچے اتر آیا اور زمین پر لیٹنے والا کھڑا ہو گیا۔ درخت پر چڑھنے والے نے زمین پر لیٹنے والے سے پوچھا کہ شیر نے تمھارے کان میں کیا کہا ؟ اس نے جواب دیا کہ شیر نے مجھے کہا ہے کہ جو دوست مشکل میں کام نہیں آ سکتا ، اس سے دوستی کا کوئی فائدہ نہیں۔

اس کہانی کا عنوان بے وفا دوست تھا۔

اب یہ بات درست ہے کہ دوست وہی ہوتا ہے جو مشکل میں کام آئے تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ مشکل وقت میں سب سے پہلے خود کو بچانا بھی فطری جذبہ ہے۔ اس واقعے سے دوست کی بے وفائی کا نتیجہ نکالنے کے بجائے اگر دونوں کی ذہانت کا نتیجہ نکالا جاتا تو یہ ایک عقلی اپروچ تھی۔ ایک نے درخت پر چڑھ کر اپنی جان بچائی جبکہ دوسرے نے زمین پر لیٹ کر اپنا سانس بند کردیا۔ شیر نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ یوں دونوں نے ذہانت سے اپنی جانوں کو بچا لیا۔

میرے خیال میں اس کہانی کا عنوان ذہین دوست ہونا چاہیے تھا۔

در اصل ہماری تربیت اس ڈھب سے کی گئی ہے کہ ہمارے احساس کو اس وقت تک تسکین مل ہی نہیں سکتی جب تک دونوں دوست ایک دوسرے کو بچاتے بچاتے شیر کے منہ میں نہ چلے جاتے۔

پھر اس کہانی کا عنوان وفادار دوست ہوتا۔

یہ ایک فطری جذبہ ہے کہ ماں کو بیٹے کے ساتھ انتہائی محبت ہو تی ہے۔ وہ سارے دکھ برداشت کر لیتی ہے لیکن اولاد کا دکھ برداشت نہیں کر سکتی۔ اولاد کی محبت اسے پاگل کر دیتی ہے کیونکہ وہ اسے اپنا تن جلا کر بڑا کر تی ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک خاتون کا جوان بیٹا بیمار تھا۔ وہ صبح و شام اس کی حالت دیکھ کر روتی رہتی اور کہتی کہ ہائے کاش ، میری عمر میرے بیٹے کو لگ جائے اور یہ ٹھیک ہو جائے۔ مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ اس کا پڑوسی صبح و شام یہ سنتا رہتا۔

ایک شب پڑوسی نے لمبا سفید چوغہ پہنا اور مریض کے گھر دستک دی۔ نصف شب دستک سن کر مریض لڑکے کی ماں پریشان ہو گئی۔ دروازے پر آکر پوچھا کہ کون ہے ؟ جواب ملا کہ میں عزرائیل ہوں اور روح قبض کرنے آیا ہوں۔ ماں نے کانپنا شروع کر دیا اور بولی زرا بیمار تندرست کا خیال رکھنا۔

یہ انسان کی فطرت ہے کہ مشکل وقت میں سب سے پہلے ہر انسان اپنے بچاؤکے بارے میں ہی سوچتا ہے۔

ہمارے نوجوان زندگی کے کسی ایک امتحان میں ناکام ہونےکے بعد مایوس ہو جاتے ہیں۔ اکثر آپ نے اخبارات میں خبریں پڑھیں ہوں گی کہ امتحان میں ناکامی پر کسی نوجوان نے خود کشی کر لی۔

مجھے یاد ہے کہ ایبٹ آباد میں میٹرک کی ایک طالبہ نے میٹرک میں فرسٹ ڈویڑن اے ون گریڈ لینے کے باوجود خود کشی کر لی ، وجہ صرف یہ تھی کہ جو لڑکی فرسٹ آئی تھی ، اس کے اس لڑکی سے دس نمبر زیادہ تھے۔

اس کی وجہ ہمارے گھروں میں پروان چڑھایا جانے والا وہ جذباتی ماحول ہے جس میں ہم عقل کے تمام دروازے بند کر دیتے ہیں۔ ہم چھوٹی سے ناکامی کو عمر بھر کی ناکامی سمجھ لیتے ہیں۔ ہم کسی کا سامنا کرنے سے شرمندہ رہتے ہیں۔ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ زندگی میں ہر بال پر چھکا نہیں لگتا تاہم ہر بال کھیلتے وقت چھکا لگانے کی ہمت ضرور کرنی چاہیے۔ اگر اس بال پر چھکا نہ لگے تو مایوس ہونے کے بجائے اگلی بال کے حوالے سے حکمت عملی بنانی چاہیے۔ آپ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں اکثر سنا ہوگا کہ ٹیم پریشر کی وجہ سے کھیل نہیں سکی۔ ہم بھی بعض اوقات پریشر کی وجہ سے اچھے بھلے کام نہیں کر سکتے جو ہم عام حالات میں بہت اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں۔

میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جن کا عدلیہ میں بڑا نام ہے۔ اس خاندان کے لوگ عدلیہ میں اہم مناصب پر فائز رہے اور ہیں۔ اس وقت بھی اس خاندان کے دو نام سپریم کورٹ کے نامور وکیل ہے۔ اس خاندان کے ایک شخص (جن کے ساتھ میرا ادب ، احترام اور محبت کا رشتہ ہے ) نے اپنے بیٹے کو دھمکی دی کہ اگر تمھارے ایف ایس سی میں نمبر کم آئے تو پھر اس گھر میں داخل نہ ہونا۔ وہ بیٹے کو میڈیکل کالج میں داخل کرانا چاہتے تھے جس کے لئے میرٹ ہائی ہوتا ہے۔ اس وقت اس لڑکے کے نمبر کم آئے اور وہ لڑکا پھر گھر میں داخل نہیں ہوا بلکہ والد کے ڈر سے ایک دوست کے گھر رہنے لگا۔ اس نے محنت کی اور مختصر عرصے میں پیسے اکٹھے کر کے اسکالر شپ پر امریکا چلا گیا۔ آج وہ ایک کامیاب سافٹ وئیر انجنئیر ہے اور اس کی ماہانہ آمدنی لاکھوں میں ہے۔

اب دیکھیں ایک جانب جذباتیت کا مظاہرہ کیا گیا تو دوسری جانب عقل کا شاندار استعمال کیا گیا۔

ہمارے ہاں بچوں کے رشتے کرواتے وقت بھی اسی قسم کے جذباتی مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا یا بیٹی ان کی مرضی کے مطابق شادی کرے۔ شادی کرانے کے لیے والدین بعض اوقات بلیک میلنگ شروع کر دیتے ہیں۔ بچے ماں باپ کی ضد کے آگے مجبور ہو کر شادی تو کر لیتے ہیں لیکن بعد کی زندگی ان کے لئےایک عذاب سے کم نہیں ہوتی۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ شادی خالص ایک نجی معاملہ ہے۔ آپ زبردستی کسی کے ساتھ تعلق یا محبت قائم نہیں کر سکتے۔ اس کا عقلی حل یہ ہے کہ بچوں سے مشاورت کی جائے اور شادی جیسے عمل کے لیے کم از کم  دو تین سال سوچا جائے۔ ہمارے ہاں شادی کے بعد سوچیں گے لیکن شادی سے پہلے کبھی غور نہیں کیا جائے گا۔ آپ کو اپنے ارد گرد کئی ایسی کہانیاں نظر آئیں گی جہاں پٹ منگنی اور چٹ بیاہ اور شٹ طلاق والا معاملہ دیکھا ہو گا۔

اسی طرح مذہبی ، سیاسی ، لسانی ، ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں ہمارا رویہ بحیثیت مجموعی جذباتیت پر مبنی ہے۔ ہمارا جس شخص سے اختلاف ہو جائے ، اسے ہم کافر ، غدار اور واجب القتل بنا کر ہی چھوڑتے ہیں۔ زرا غور کیجئے کہ عقلی اپروچ کو استعال نہ کرنے کی وجہ سے آج ہمارے ملک میں مذہب ایک خوف کی علامت بن چکا ہے کیونکہ ہم اپنے فرقے اور مسلک کے علاوہ دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی اور عسکری اداروں کے درمیان پراکسی وار چل رہی ہے۔

کرپٹ قومیں عقل و دانش کے بجائے ہمیشہ حادثات اور واقعات پر اپنے بیانئے تشکیل دیتی ہیں۔ یہ رویہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا رویہ ہے جس کا نتیجہ وہی ہے جس کا مظاہرہ ہم صبح و شام اپنے ملک میں دیکھتے ہیں۔

ہم ایک ذہنی خوف کا شکار قوم بنتے جا رہے ہیں اور گیٹڈ کیمیونٹی کا تصور ہمارے ہاں فروغ پاتا جا رہا ہے۔ ایک بہتر سماج ، ایک فلاحی معاشرے اور ویلفئیر سٹیٹ کا تصور ہمارے ہاں پایا ہی نہیں جاتا۔ ہمارے اسپتال ، اسکول ، سڑکیں بازار ،سیاسی ، سماجی اور مذہبی ادارے اپنی حالت کا نوحہ بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہم بحثیت معاشرہ ان تمام اداروں کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن ہم اس وجہ سے یہ کام نہیں کرتے کیونکہ ہم اسے صرف حکومت کی ہی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

ہمارے ہاں سے امت یعنی سول سو سائٹی کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ہم پوری دنیا کے لیے امت کا تصور لیکر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اپنے ملک کے کوچہ و بازار میں خاموش رہتے ہیں۔ دنیا کی ٹھیکے داری کا جذباتی تصور ہمیں روز پتھر کے دور دھکیل رہا ہے۔

معاشی طور پر کمزور شخص کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، اپنی آواز مضبوط کرنی ہے تو پہلے اپنی حالت بدلیے۔ اپنی معیشت اور معاشرت کو بہتر بنائیے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ سب سے پہلے اپنی اور اپنے گھر کی حالت کو بہتر بنائیے۔

آپ ابھی سے یہ طے کرلیں کہ ہم نے ہر کام Emotional Approach کے بجائے Rational Approach کے ساتھ کرنا ہے تو دیکھئے گا آپ کی زندگی میں کتنی مثبت اور موثر تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں یہ وقت آتا ہے کہ وہ عقل کے بجائے جذبات سے سوچتا ہے لیکن آپ اس رویے کو بدل سکتے ہیں۔ آپ اپنے تعلیمی اداروں میں مسائل کا عقلی حل نکالنے کی مشق کیجئے اور گروپس کی صورت میں طلبہ کو کسی مسئلے کا حل نکالنے کی ذمہ داری دیجئے۔

اپنے دماغ کو جذبات کے بجائے عقل کے تابع رکھنا ایک مستقل پریکٹس ہے۔ مسلسل اپنا محاسبہ ہے۔ کچھ روز کریں گے تو اپنی شخصیت میں خوشگوار تبدیلیاں محسوس ہوتی نظر آئیں گی۔ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر پر ایک بھر پور نظر دوڑا کر سوئیں۔ آپ آج تھوڑا عقل سے کام لیں گے تو کل ایک روشن صبح آپ کا انتظار کرے گی، لیکن آپ اگر کل کا انتظار کرتے رہیں گے تو کل کبھی نہیں آئے گی ، اس لئے کرنے سے پہلے سوچئے اور کل کے بجائے آج سے شروع کیجئے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...