آزادی اظہار پر وار ہونے والا ہے !

1,018

الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کے بل کی موجودہ شکل قانونی حقوق،آزادی رائے،رازداری،انسانی حقوق اور ملکی جمہوریت پر ناخوشگوار اثرات مرتب کرے گی۔ زہرایوسف، چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کے بل کی موجودہ شکل کو اختیار کرنے کے حوالے سے مَیں اپنے گہرے خدشات کا اظہار آپ کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں،کہ اس کی موجودہ شکل قانونی حقوق،آزادی رائے،رازداری،انسانی حقوق اور ملکی جمہوریت پر ناخوشگوار اثرات مرتب کرے گی۔

پاکستان کا انسانی حقوق کا ادارہ ،سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انفرادی سطح پر سخت جدوجہد کرنے والوں پر فخرکرتا ہے ،جنہوں نے مجوزہ قانون کے متنازعہ دفعات کو اجاگر کرنے اور سفارشات کا اشتراک اور قومی اسمبلی میں قانون سازی کرنے والوں کے ساتھ متبادل ضابطہ بندی اور بعدازاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن پر سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں، اپناوقت اور توانائیاں صرف کیں۔

جبکہ ہم اس معاملے پر سول سوسائٹی کے خدشات کو سننے کے لیے کمیٹی کی قدر کرتے ہیں،حکومت ،سول سوسائٹی کے محرکات میں پوچھ گچھ پر زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی دیتی ہے ،بجائے اس کے کہ وہ ان کی کوششوں کو سراہتی اور مسودے میں موجود خامیوں پر توجہ دیتی۔

پی ای سی بی کے حوالے سے اصل تشویش یہ ہے کہ مختلف جرائم کی تو پہلے ہی پاکستان پینل کوڈ وضاحت کرچکی ہے اور کچھ قوانین دوبارہ سے پی ای سی بی کے تحت مشتہر ہوئے جو دوسرے قوانین سے متصادم ہیں ،جن کی سزائیں ہمیشہ سخت اور مراحل آسان ہوتے ہیں ۔ایسے دفعات اور حصے قانون سے خارج کرنے چاہئیں جو مبہم ،عام ضابطے اور تضادات پر مبنی ہیں ۔

سب سے زیادہ خطرناک طریقے سے یہ بل حکومتی کنٹرول میں براہِ راست انتظامی باڈی کو،پی ٹی اے کو سینسر کرنے کے لیے وسیع اور بے لگام اختیا ر دیتا ہے ،تاہم یہ باڈی وسیع اختیارات کے ساتھ حکومتی کنٹرول سے مکمل آزاد بنائی گئی ہے ،جس میں پی ٹی اے کے ساتھ معاملہ نہیں ہے ۔الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کا بل کمزور دفعات پر مشتمل ہے یا پھر مختلف بنیادی حقوق میں تنازعات ہیں۔خاص طور پر نو،اَٹھارہ،اُنیس،بائیس،اُنتیس،چونتیس اور چھتیس کے حصوں میں،اس کے ساتھ ساتھ بل کی کئی تعریفیں ہیں جس کا متن انسانی حقوق اور بہتر عالمی طریقوں سے متضاد رہتا ہے۔

وہ سفارشات جو بل میں بہتری کے لیے تجویز کی گئی ہیں ۔درج ذیل ہیں ۔

i)جرم کی وضاحت کے حوالے سے سیکشن 9میں ترمیم کی جائے تا کہ متن سے لفظ ”ملزم“ہٹایا جاسکے اور اس بات کی یقین دہانی ہو سکے کہ ملزم سے مجرموں جیسا سلوک نہ برتا جائے۔اس سیکشن میں جمالیاتی اور سیاسی بیان کی حفاظت کی شرط بھی شامل کی جانی چاہئے۔

ii)سیکشن10کیلئے ضروری ہے کہ سائبر جرائم کے مقابلے میں سائبر سیکورٹی پر زیا دہ توجہ دیتے ہوئے بڑے پیمانے پراز سرنو مسودہ تیارکیاجائے۔اس کی موجودہ شکل میں بل مناسب طریقے سے سائبر دہشت گردی کی وضاحت کرنے سے قاصر رہا ہے،عمر قید اور50ملین روپوں کا جرمانہ بھی اہم ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی اور غلط استعمال جیسے بنیادی جرائم کی صورت میں کرتا ہے۔

iii)سیکشن 18بنیادی طور پرپاکستان پینل کوڈ کی دفعات499,500اور501کی نقل ہونے کے ساتھ ساتھ ہتک عزت ایکٹ2002میں شامل کئی جرائم سے بھی متجاوز ہے۔اس نے متصادم سزائیں بھی متعارف کروائی ہیں اورپاکستان پینل کوڈ اور ہتک عزت ایکٹ میں دی گئی دفاع کی صورتوں کو بھی ہٹا دیا ہے۔اس سیکشن کو بل سے نکال دینا چاہئے۔

iv)سیکشن 19کو دو الگ حصوں میں تقسیم کر دینا چاہئے ،ایک چھوٹے جرائم سے نمٹنے اورسائبر جرائم کے خلاف بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔اور دوسراسیکشن بالغ متاثرین کیلئے کام کرے اور انسانی حقوق کے معیاروں کے مطابق جائزہ لے،اس میں برے ارادے رکھنے والا بھی قابل تعزیر ہو نا چاہئے ، البتہ یہ جمالیاتی اور سیاسی بیان کی حفاظت کی شرط پر مشتمل ہو۔اس شرط کی تشکیل کیلئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کوذرائع ابلاغ کی ترقی کی تنظیم کی جانب سے سفارش پیش کی گئی ہے،میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی ادارہ ایسے معاملات زیر بحث لا تا ہے۔

v)سیکشن 22سپیمنگ کے ساتھ منسلک ہے،سمپینگ کو بین الاقوامی سطح پرسائبر جرم میں شامل نہیں کیا جا تا۔فی الحال یہ بل چھوٹے کاروباری مالکان کو ہدف بناتا ہے جو اپنی مصنوعات کی تشہیر کیلئے مارکیٹنگ ای میلز اور ایس ایم ایس پر انحصار کر تے ہیں۔سپیمنگ کو اصولاََ پی ٹی اے لائسنسنگ معاہدے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کے تحت حل کیا جانا چاہئے۔تاہم اگر اسے PECB(الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کا بل)کے تحت شامل کرنا لازم ہو تو اسے مجرمانہ جواب دہی کے بغیر سول جرم میں شامل کرنا چاہئے۔اس شق کی متبادل تشکیل ڈیجٹیل حقوق کی تنظیم ”بولو بھی“ کی جانب سے سینٹ کی قا ئمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کو پیش کی گئی ہے تاکہ اس پر غور کیا جا سکے۔

vi)شق29ٹریفک کے اعدادو شمار کو برقرار رکھنے سے متعلق ہے،انسانی حقوق اور صنعت کی بنیادوں پر خدشات کو اٹھاتی ہے۔انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے کسی بھی شخص کے ذاتی ڈیٹا کو ایک سال تک اپنے پا س رکھنے کی اجازت دیتا ہے اگر یہ ڈیٹا چوری ہو کر کسی اور کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس سے شہریوں کی رازداری پر حملہ ہو سکتا ہے۔اس طرح اعدادوشمار کو برقرار رکھنے کیلئے قواعد بین الاقوامی معیار کے مطابق ہونے چاہئیں اور اس کو استعمال کرنے کیلئے طریق حفاظت کی وضاحت بھی اچھی طرح بیان ہونی چاہئے۔انڈسٹری نے بھی مجرمانہ جواب دہی کے نفاذ پر خدشات کا اظہا ر کیا ہے ،اورپی ٹی اے کے لائسنسنگ معاہدے کے تحت اس پہلو سے نمٹنے کی سفارش کی ہے۔

vii)سیکشن32ایک تحقیقاتی افسر کے اختیارات کی تفصیلات کے متعلق ہے،اس قانون کی دیگر شقوں کے ساتھ پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تفتیشی افسر اور ایجنسی ممکنہ طور پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔اس سیکشن کا بھی ازسر نو جائزہ لینا چاہئے تا کہ اس میں شہریوں کے تحفظ اور حفاظتی اقدامات کیلئے طاقت کے ناجائز استعمال کی روک تھام کو یقینی بنا یا جاسکے۔

viii)سیکشن 34اس بل کی سب سے زیادہ سختی سے مخالفت کی جانے والی شق ہے۔دنیا بھر میں تمام سول سوسائٹی کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔اس شق کی زبان آئین کے آرٹیکل19سے مستعار لی گئی ہے،جس کے تحت آئینی شقوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اختیارات ایک ایگزیکٹیو کمیٹی کو سونپ دئے گئے ہیں ،جو بغیر کسی نگرانی کے ڈیجیٹل میڈیا کو سنسر کرنے کا اختیا ر رکھتی ہے۔مکمل طور پر اس پورے سیکشن کو بل سے نکال دینا چاہئے۔

ix)سیکشن 36فیئرٹرائل ایکٹ میں بیان کئے گئے نگرانی کے طریقہ کار سے براہ راست تضاد کا شکار رہا ہے۔اصل وقت کی نگرانی لوگوں کی پرائیویسی کے حقوق کے تئیں سنگین مضمرات رکھتی ہے۔یہ سیکشن مناسب طریقے سے ان خدشات سے نہیں نمٹتااور شواہد اکٹھا کرنے کے ایک ناگوار طریقے کیلئے حدتاثر کا کم درجہ رکھتا ہے۔یہ سیکشن خام انٹیلی جینس کو بطور ثبوت استعمال کرنے کا قانونی حق دیتا ہے ۔خام انٹیلی جینس یا نگرانی کے اعدادوشمار کو عدالت میں ایک جرم کے ثبوت پر قابل قبول نہیں ہو نا چاہئے،اور جو اختیارات اس شق کے ذریعے دئے گئے ہیں ،انہیں محض مزید شواہد اکٹھا کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔

رائے اور اظہار کی آزادی کے فروغ اور تحفظ پر اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹرنے پہلے ہی پی سی ای بی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ”اگر قانون سازی کے اس مسودے کو اپنا یا گیا تو اس کا نتیجہ سنسر شپ اور میڈیا کی جانب سے خود احتسابی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔“مجوزہ قانون جسے سینٹ میں رائے دہندگی کیلئے پیش کیا جائے گا ،جو کہ مکمل طور پر ایک ناقص پیمانہ ہے ،یہ کئی ایسی شقیں رکھتا ہے جو جارحانہ ہیں جنہیں کسی بھی مہذب معاشرے کے قانون میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

ترجمہ :احمد اعجاز

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...