مشرق ِ وسطیٰ کو اوبامہ کی کامیابی کی بھاری قیمت چکانا پڑی

810

واشنگٹن میں یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ اوبامہ نے عراق سے جو سبق سیکھا اس کے بعد وہ کچھ زیادہ ہی محتاط ہو چکے ہیں۔حالانکہ یہ سبق صرف عراق سے نہیں ملا

عراق زخموں سے چُور ہے ۔اس ہفتے بغداد میں ہونے والے دھماکے جن سے 90 سے زائد لوگ لقمئہ اجل بن گئے سے یہ بات ایک بار پھر شدت سے سامنے آئی ہے کہ وہاں حالات انتہائی مخدوش اور خطرناک ہیں مگر واشنگٹن میں بیٹھے مقتدر لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔

عراق کی متزلزل صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ پالیسی ساز کوئی فوری حل تجویز کریں۔سخت گیر اور اریزونا سے سینیٹر جان مکین نے زور دیا ہے کہ صرف اوبامہ انتظامیہ ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ  علاقے میں مزید فوجی دستے بھیج کر وہاں حالات کو کنٹرول کیا جائے۔جبکہ بعض کی رائے ہے کہ سفارتکاری اور سیاسی مشاورت ہی  سے فوجی کارروائیوں کو نتیجہ خیز بنایا جا سکتاہے ۔ابھی بھی  اس بات کی گنجائش  موجودہے کہ عراقی قیادت کی حوصلہ افزائی کی  جائے کیونکہ وہی اس بحران کے خاتمے کا کوئی راستہ دکھا سکتی ہے ۔

شام میں امریکہ کی اصل مشکل اس وقت شروع ہو گی جب دولت اسلامیہ کو شکست ہو جائے گی جس کے بعد عراق اور شام کے ان علاقوں کے مستقبل کا سوال پیدا ہو گا جس پر شدت پسند سنیوں کا غلبہ ہے اور جو بغداد اور دمشق دونوں کی بالادستی سے انکاری ہیں

شاید یہ بات اب فرض ِ عین بن چکی ہے کہ  عراق سے انخلا کے بعد ایک بار پھر اس ملک کی جانب اپنی  توجہ مبذول کی  جائے  ۔امریکہ پچھلے 15 سال سے فوجی ، سیاسی اور معاشی طور پر افغانستان میں بھی بہت زیادہ مصروف ہے ۔یہاں کئی بار چڑھائی کی گئی ۔جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگ میں ایک کھرب ڈالر جھونک دیئے گئے اور ابھی تک افغانستان کے دفاعی بجٹ کا ایک غالب حصہ ادا کیا جارہا ہے ۔

افغانستان میں عوام کی منتخب کردہ حکومت کام کررہی ہے ۔مگر اس کے باوجود اکتوبر میں اقوام متحدہ نے کہا کہ 2000ء کے بعد افغانستان میں پہلی بار اتنے زیادہ علاقوں تک شورش پھیل چکی ہے ۔ڈینیل مولان نے نیویارک ٹائمز کے لئے خبر دی کہ ہلمند کے تین اضلاع کے سوا تمام علاقوں پر یا تو طالبان قابض ہیں یا پھرقبضے کے لئے لڑائی ہو رہی ہے ۔اس نے مزید کہا کہ 36000پولیس آفیسرز جو کہ کل فورس کا ایک چوتھائی ہیں وہ گزشتہ سال اپنی نوکری کو خیر آباد کہہ گئے ۔نیو یارکرز کے ڈکسر فلکنز نے خبر دی کہ گزشتہ ماہ  طالبان نے کابل کے دروازے پر بھی دستک دے دی ہے جہاں انھوں نے  اس دارے (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی )کی عمار ت پر حملہ کیا جس کی   ذمہ داری دارلخلافہ کی حفاظت  ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 15 سال کا عرصہ زیادہ نہیں ہے ۔وہ اس کے لئے جنوبی کوریا اور جرمنی کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں بھی غیر معینہ وقت کے لئے قیام کرنا چاہئے

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 15 سال کا عرصہ زیادہ نہیں ہے ۔وہ اس کے لئے جنوبی کوریا اور جرمنی کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں بھی غیر معینہ وقت کے لئے قیام کرنا چاہئے ۔افغانستان میں امریکہ کے قیام کی کوئی مخالفت بھی نہیں کر رہا کیونکہ وہاں کی منتخب حکومت چاہتی ہے کہ امریکہ وہاں رہے لیکن امریکہ نے ایسا نہیں کیا ۔جرمنی اور جنوبی کوریا میں امریکی فوج ابھی بھی بیرونی خطرے  کی حالت میں ہیں ۔ حالانکہ وہاں عملاً ایسی  کوئی صورتحال نہیں ۔نہ ہی  ان ملکوں میں خانہ جنگی ہے نہ ہی ایسی صورتحال جس کا سامنا ویت نام کو کرنا پڑا تھا۔

حالیہ دنوں میں امریکہ کی خارجہ پالیسی پر دو انٹرویو کرنے کا موقع ملا ۔ایک صدر اوبامہ اور دوسرا ن کے قریبی ساتھی بن روڈز کا ،دونوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے وہی فیصلہ کرتے ہیں جو ان کی ذاتی رائے میں درست ہوتا ہے ۔وہ خارجہ پالیسی کی اشرافیہ کو بھی گھاس نہیں ڈالتے اور اپنی من مانی کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

اوبامہ اور روڈز دونوں یہ چاہتے ہیں کہ انتظامیہ ان کے اقدامات کو مثبت قرار دے کر سراہے ۔وہ اس بات پر بھی فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے امریکی فوج کو شام میں پھنسنے سے بچایا۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ بشارالاسد سے متعلق  ان کے اپنے ہی غیر دانشمندانہ بیانات سےواشنگٹن کو اس جنگ میں کودنا پڑا۔

لیکن قصہ مختصر یہ کہ اوبامہ ٹھیک ہیں اور ان کے ناقدین غلط،امریکہ کی گزشتہ 15 سال کی خارجہ پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مخالفین کے خلاف فوج کشی آسان  عمل ہے بجائے اس کے کہ وہاں مشکلات میں گھرے ہوئے ممالک کو کوئی سیاسی نظام دیا جائے ۔

واشنگٹن میں یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ اوبامہ نے عراق سے جو سبق سیکھا اس کے بعد وہ کچھ زیادہ ہی محتاط ہو چکے ہیں۔حالانکہ یہ سبق صرف عراق سے نہیں ملا ۔ افغانستان اور لیبیا میں بھی مخالفین کو کچلنے میں صرف چند ہفتے ہی لگے ۔لیکن آنے والے سالوں میں مختلف حکمت عملی اختیار کرنے کے باوجود یہ ممالک افراتفری کا ہی شکار ہو کر رہ گئے ۔کیا کسی نے یہ بات سوچی بھی کہ شاید مزید فوج بھیجنے یا پھر کوئی متبادل حکمت عملی اختیار کرنے سے وہاں امن اور استحکام آجائے ۔

اوبامہ انتظامیہ کی یہ پالیسی ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کو جنگ میں مصروف رکھے جو زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔مجھے شبہ ہے کہ امریکہ یہاں بھی پھنس جائے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ واشنگٹن کی مجبوریوں کا بھی علم ہے جن سے وہ دوچار ہے ۔

شام میں امریکہ کی اصل مشکل اس وقت شروع ہو گی جب دولت اسلامیہ کو شکست ہو جائے گی جس کے بعد عراق اور شام کے ان علاقوں کے مستقبل کا سوال پیدا ہو گا جس پر شدت پسند سنیوں کا غلبہ ہے اور جو بغداد اور دمشق دونوں کی بالادستی سے انکاری ہیں ۔جنگ میں قائدانہ کردار کی وجہ سے امریکہ مجبور ہو جائے گا کہ وہ علاقے کا کنٹرول سنبھالے اور دولت اسلامیہ کے ہزاروں جنگجوؤں کو جیل میں ڈال دے ۔وہاں کے باشندوں کو تحفظ کی ضمانت دے ان کے معاشی نقصانات کا ازالہ کرے جو انھیں اس ہولناک خانہ جنگی سے ہوئے ۔

آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات آپ کی کامیابی ،ناکامی کے مقابلے پر  آپ کے لئے زیادہ مشکلات لے کر آتی ہے ۔

(فرید ذکریا سی این این کے مقبول شو “جی پی ایس ” کے میزبان ہیں ۔اس کے علاوہ وہ اے بی سی اور این بی سی  ٹیلی ویژن کے لئے بھی شو کرتے ہیں ۔آپ 2010ء سے ٹائم میگزین کے ایڈیٹربھی ہیں ۔واشنگٹن پوسٹ کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں اور  ایک مشہور کتاب “The Post-American World.” کے مصنف بھی ہیں۔)

انگر یزی سے ترجمہ : سجاداظہر

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...