خیبر پختون خوا میں زبانوں کے فروغ کا ادارہ
اس طرح کی قومی یکسانیت کا رجحان ’جدیدت ‘ (Modernity ) کے دوران دُنیا پر بہت غالب رہا۔
قومی وحدت کے خبط میں مبتلا ملکوں میں ثقافتی، مذہبی، لسانی اور نسلی تنوع کو اکثر ایک مسئلہ سجمھا جاتا ہے۔ ایک قومی ریاست اور ’شناخت ‘ کی تشکیل میں اس تنوع کو مختلف لسانی، مذہبی، نسلی اور ثقافتی گروہوں کی قیمت پر فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی وحدت کو فروغ دینے میں مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ایک طاقتور لسانی یا مذہبی گروہ معتبر سجمھا جاتا ہے اور دیگر کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کو کوشش کی جاتی ہے۔ اس طریقے سے ایک طرف اگر یہ دنیا اس متّنوع خوبصورتی سے محروم ہوجاتی ہے تو دوسری طرف تشدّد، استعماریت اور استحصال ’سماجی و سیاسی اقدار ‘ بن جاتے ہیں۔
اس طرح کی قومی یکسانیت کا رجحان ’جدیدت ‘ (Modernity ) کے دوران دُنیا پر بہت غالب رہا۔ اسی جدیدت نے نوآبادیت کو جنم دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ طاقتور گروہ نے بسا اوقات خود کو ’مہذب ‘ اور اپنی اقدار، روایات اور سماجی معیار کو ارفع سمجھ کر دوسرے گروہ کو ’اپنی طرح ‘ بنانے کی ٹھان لی۔
پاکستان کی حالت ایسی صورت حال میں کافی دلچسپ رہی ہے۔ متحدہ ہندوستان کی صورت میں پاکستان اس نوآبادیت حصہ رہا ہے۔ مگر جب یہ نوآبادیاتی نظام گر رہا تھا تو دُنیا میں ایسی کئی ریاستیں پیدا ہوئیں جو خود کو اس نوآبادیاتی ذہنیت سے آذاد نہ کرسکیں جو ان کو نوآبادیاتی حکمرانوں سے ورثے میں ملی ہے۔
پاکستان ثقافتی، نسلی، لسانی اور مذہبی طور پر ایک متّنوع ملک رہا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہاں اس تنوع کو صحیح طور پر پرکھا گیا نہ ہی سراہا گیا۔ یوں کہیں کہ پاکستان اس تنوع کو مینِج (Manage ) کرنے میں ناکام رہا۔ چھوٹے لسانی گروہ کے علاوہ یہاں پانچ، چھ بڑی لسانی وحدتیں رہتی تھیں۔ بنگالیوں کی الگ لسانی و ثقافتی شناخت کو سراہنے کی بجائے اس کو شک کی نظر سے دیکھا گیا اور اس بنا پر اسے وہ مقام نہیں دیا گیا جو اس کا حق بنتا تھا۔ اخر کار ان بنگالیوں نے اپنے لئے ایک الگ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں بنالیا۔
دوسری لسانی وحدت جسے ہر دور میں سیاسی عذاب سہنے پڑے پختون ہیں۔ ان پر بھی ہمیشہ شک کیا گیا اور یہاں کے قوم پرستوں کو ہمیشہ غدّار اور جھگڑالو سمجھا گیا۔ پھر کئی دہائیوں سے پختونوں کا یہ سیاسی خطہ ایسی سفّاک شورش کا شکار رہا ہے کہ یہاں کے سارے دوسرے مسائل پس پشت چلے گئے۔
ایسی صورت حال میں 2008ء کے عام انتخابات میں پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کا اس صوبے میں اقتدار میں آنا ایک معجزہ لگتا ہے۔ یہ شائد عالمی طاقتوں کی مجبوری تھی یا پھر اندرون خانہ کوئی معاہدہ لیکن قدرے سیکولر قوم پرستوں کا اقتدار میں آنا اچھنبے کی بات ضرور لگتی ہے۔ اس اقتدار کی بڑی قیمت ان لوگوں کو دینی پڑی۔ ان کے کارکن اور لیڈران کو چن چن کر مارا گیا۔ قوم پرستوں کے اس دور کو بڑا بدعنوان دور کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات ماننی پڑے گی کہ انہوں نے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا جو پانچ سال اقتدار میں رہے۔ میڈیا اور دوسرے ادارے ان کے اور وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے پیچے پڑ گئے۔ ان کو اس قدر اور اس تواتر کے ساتھ بدنام کیا کہ عام لوگوں کو ان سے نفرت سی ہوگئی اور اس کا اثر یہ ہوا کہ پانچ سال بعد دونوں جماعتوں کو عبرت ناک شکست کا سامنا ہوا۔
یقنیناً یہ دونوں جماعتیں نہ صرف نااہل ہوں گیں بلکہ بدعنوان بھی لیکن ملکی اداروں اور ’غیر ریاستی ‘ عناصر کا ان کے ساتھ جو سلوک رہا اس نے بھی ان جماعتوں کی شکست میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ ایک وقت تو ایسا لگتا تھا کہ مرکز میں عدلیہ نے ان کی درگت بنائی ہے تو صوبے میں ان غیر ریاستی عناصر نے۔
دونوں جماعتیں جیسی بھی ہیں ملکی طور پر لسانی، نسلی اور مذہبی تنوع کے بارے میں یہاں سرگرم دوسری جماعتوں کے مقابلے میں ذیادہ کشادہ ذہن واقع ہوئی ہیں۔
پیپلز پارٹی اگر اب سندھ تک محدود ہوکر سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے تو عوامی نیشنل پارٹی نے جاتے جاتے خیبرپختون خوا میں لسانی تنوع کو تعلیمی نظام کا حصّہ بنانے کے لئے ابتدائی قانون سازی کی جسے خیبر پختون خوا فروغ علاقئی زبانوں کا قانون کہا گیا۔ اس قانون کے تحت صوبے میں مختلف زبانوں کے فروغ کے لئے ایک ادارے کا قیام عمل میں لانا تھا اور ساتھ ساتھ صوبے کی پانچ زبانوں کو ابتدائی تعلیم کے نصاب میں بتدریج شامل کرنا تھا۔
ان زبانوں میں پشتو کے علاوہ ہندکو، سرائیکی، کھوار اور کوہستانی شامل تھیں۔ اس قانون کی رو سے ان علاقوں کے سکولوں میں مذکورہ زبانوں کو ابتدائی جماعتوں میں پڑھانا تھا اور آہستہ آہستہ ان علاقوں میں ان زبانیں کو ذریعہ تعلیم ہونا تھا جہاں کی اکثریتی آبادی ان ذبانوں کو بطور مادری زبان بولتی ہو۔ پشتو صوبے کی بڑی زبان ہے۔ ہندکو پشاور شہر کے علاوہ کوہاٹ، آبیٹ اباد، ہری پور اور مانسہرہ میں بولی جاتی ہے۔ سرائیکی جنوبی اضلاع میں جبکہ کھوار صوبے کے سب سے بڑے صوبے چترال اور کوہستانی ضلع کوہستان میں بولی جاتی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی اقتدار سے محرومی کے بعد علاقئی زبانوں کے فروغ کے لئے مذکورہ مقتدرہ کا قیام ابھی تک ممکن نہیں بنایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے یہاں اقتدار میں آکر ہی ایک مبہم اور پیٹے ہوئے تعلیمی نظریے ’یکساں نظام تعلیم ‘ جس سے ان کی مراد شائید صرف ’یکساں نصاب ‘ ہی تھا، کا پرچار کیا۔ تین سال گزرنے کے باوجود صوبے میں یکساں نظام تعلیم کا تو کہیں وجود نہیں لیکن یہاں بسنے والی ساری لسانی آکائیوں کو یکساں نصاب ضرور ملا ہے جو جنرل ضیاءالحق کا ترکہ لگتا ہے۔
لگتا ہے صوبے کی حکومت میں پالیسی کا دخل کم اور افسر شاہی کی پسن نا پسند کی مداخلت ذیادہ ہے۔ گذشتہ سال کے آخر میں جب صوبے میں ثقافت اور سیّاحت کا شعبہ ایک معتبر اور پڑھے لکھے آفیسر کے ہاتھ لگا تو موصوف نے شعبے کے تحت کچھ اچھے اقدامات اٹھائے جن میں صوبے کےپانچ سو غریب فنکاروں اور لکھاریوں کو ماہانہ مشاہرے؍ معاوضہ، ضلع کی سطح پر ثقافتی سرگرمیوں کے لئے فنڈز مہیّا کرنا اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیاں شامل تھیں۔ اگرچہ ان اقدامات کے انصرام میں بےقاعدگیاں سرزدہوئیں لیکن مجموعی طور پر یہ ایک قابل ستائش عمل رہا۔ تاہم جو بڑا سقم یہاں نظر آیا وہ کسی پالیسی کی بجائے ایک شخص کی ذاتی چاہت تھی۔
اس سے پہلے 2014ء کو پشاور میں سرگرم ایک سماجی تنظیم گندھارا ہندکو بورڈ کو صوبے کے سالانہ ترقیاتی منصوبے کے تحت سات کروڑ روپے کے فنڈز کا اعلان کیا گیا جس سے ہندکو زبان کی ترقی و ترویج کے لئے گندھارا ہندکو ایکیڈیمی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ بظاہر قابل ستائش قدم بھی ہندکوان سے منسلک افسرشاہی کی خواہش لگتی ہے۔ ہندکو زبان سے منسلک لوگ پختونوں کے بعد اس صوبے کے زمام اختیار میں سب سے ذیادہ شامل ہیں۔ شایئد یہی وجہ ہے کہ ہندکو زبان کے لئے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ موجودہ حکومت کے اس بظاہر نیک کام میں ایک شرارت چپھی لگتی ہے۔ ہندکو زبان بھی ان پانچ زبانوں میں شامل تھی جن کو نصاب میں شامل کرنے اور ان کے فروغ کے لئے صوبائی اسمبلی نے Promotion of Regional Languages Authority Act منظور کرایا تھا۔ ایک طرح سے ان پانچوں زبانوں میں سے صرف ایک کو بذریعہ سالانہ ترقیاتی منصوبے (Annual Development Plan) نوازنا اس ادارے کے قیام سے جان چھڑانا ہے جس کی منظوری پوری صوبائی اسمبلی نے ایکٹ کے ذریعے دی تھی۔ پشتو زبان کو صرف عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک تصور کرکے صوبے کی بڑی اکثریت سے ناانصافی مقصود ہے۔ اسی طرح کھوار، سرائیکی اور کوہستانی زبان کے اس حق کو غصب کرنا مقصود ہے جسے صوبائی اسمبلی نے تسلیم کیا تھا۔
صوبے میں دوسرے طاقتور گروہ ہندکوان کو خاموش کرانا مقصود تھا۔یہ لوگ اپنے حق کے لئے دوسری چھوٹی لسانی گروہوں کی نسبت ذیادہ شور مچاسکتے تھے اس لئے ان کو اس وقتی اقدام کے ذریعے چپ کرانا تھا۔ اس میں حکومت کامیاب بھی ہوئی ہے کہ اب ان ہندکوان کی طرف سے اس مقتدرہ کے لئے کوئی آوازاٹھتی ہے نہ کھوار، سرائیکی اور کوہستانی کی جانب سے۔ بلکہ ہندکو اکیڈیمی کی وساطت سے دوسرے لسانی گروہوں کےہاں جاکر کچھ سرسری سرگرمیاں کروا کر مادری زبان کی مسلّمہ تدریسی اہمیت کو پس پشت ڈالنا مقصود لگتا ہے۔
صرف ہندکو زبان کی ترقی کے لئے اگر کوئی ادارہ بنا ہے تو قابل ستائش ہے۔اسی طرح پشتو زبان کی اکیڈمی بھی کئی سالوں سے سرگرم ہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ آیا حکوت صوبےمیں باقی بائیس زبانوں کے لئے بھی ایسے الگ الگ اکیڈمی بنا پائے گی؟ اگر ہاں تو بہت بڑی بات ہوگی۔ اگر نہیں تو اس کو فی الفور اس ’مقتدرہ برائے فروغ علاقئی زبانیں ‘ کو قائم کرنا ہے جس کے لئے صوبائی اسمبلی نے گذشتہ حکومت کے آخری ایام میں قانون پاس کرایا تھا۔
فیس بک پر تبصرے