برطانیہ میں نفاذ اسلام
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغرب میں تیزی سے پھیلتا مذہب اسلام ہے لیکن مذہبی فکر کو مغرب میں شکست ہو رہی ہے۔ مغرب میں جمہوریت، عدل اور مساوات کی جڑیں بہت گہری ہیں
صادق خان لندن کے میئر بنے تو پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمان، اور وہ بھی پاکستانی…. ہمیں برطانیہ میں ”نفاذِ اسلام“ کی منزل قریب نظر آنے لگی اور اس سے زیادہ خوشی اس بات کی …. یہ منزل ایک پاکستانی مسلمان سے سر ہونے لگی ہے۔
برطانوی سیاسی تربیت کے ساتھ، اگر صادق خان پاکستان میں میئرشپ یا ناظم شپ کا الیکشن لڑتے تو مکمل طور پر نااہل قرار پاتے۔ پاکستانی معاشرے میں اس عہدے تک پہنچنے کے لئے خدا جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے۔ نیچے سے اوپر تک پیسہ کھلانا پڑتا۔ عہدوں کی بندر بانٹ ہوتی۔ ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بولی لگانا پڑتی۔ مستقبل کے وعدے کرنا پڑتے، صحافیوں میں ”ہتھ ہولا“ رکھنے کے لیے لفافے تقسیم کرنا پڑتے۔ کردار کشی کی ”حق پرست “ مہم سے باز رکھنے کے لئے نوازنا پڑتا۔ درباروں اور مدرسوں میں حاضری دینا پڑتی۔ اِن کی تزئین و تعمیر کے لئے چندے کا اعلان کرنا پڑتا۔کیونکہ ناظم شپ تک پہنچنے میں پورا معاشرہ ننگا ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ مذہبی کیا صحافتی عدالتی کیا خاندانی سماجی کا سیاسی ہر شخص حمام میں کھڑا نظر آتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغرب میں تیزی سے پھیلتا مذہب اسلام ہے لیکن مذہبی فکر کو مغرب میں شکست ہو رہی ہے۔ مغرب میں جمہوریت، عدل اور مساوات کی جڑیں بہت گہری ہیں اگر کوئی مسلمان کسی عہدے تک پہنچتا ہے تو وہ انہی جمہوری اور سیاسی اقدار سے گزر کر پہنچتا ہے جو مغرب میں پروان چڑھ چکی ہیں۔ بدقسمتی سے، ایسی اقدار ہمارے ہاں پروان نہیں چڑھ سکیں۔ صادق خان ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ شفٹ ہوتے ہیں اُن کے والد ایک ٹیکسی ڈرائیور تھے یعنی ایک معمولی انسان تھے جو تعلیم اور معاشرتی سٹیٹس سے محروم تھے کیا ایسا تصور پاکستان میں کیا جا سکتا ہے کہ ایک بس ڈرائیور کا بیٹا کسی بڑے عہدے تک پہنچے…….. کبھی نہیں۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کبھی کوئی ہندو، سکھ اور مسیحی اپنی اہلیت اور کردار کی بنیاد پر پاکستان کے کسی اہم عہدے تک پہنچے۔ وہ مذہبی رنگ و نسل کی تفریق کا شکار نہ ہو۔
ہم نے یہ کہہ کر صادق خان کو ووٹ نہیں دینا تھا ”اک ڈرائیور دے پتر نوں ووٹ دینڈ دے بجائے میں اپنڑا ووٹ کسی کھو وچ نہ سُٹ دیاں“
ہماری خواہش ہے کہ اسلام ساری دنیا میں نافذ ہو جائے لیکن کبھی ہم نے اپنے سماج کی خبر نہیں لی۔ برطانیہ میں اکثریت غیرمسلموں کی ہے اور ایک یہودی خاندان کافرد مسلمان سے ہار جاتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک جمہوری اقدار، اہلیت اور کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہ سوچ تب پروان چڑھتی ہے جب قوم عدل و مساوات کو اپنا معیار بناتی ہے، مذہب رنگ اور نسل کو ترجیح نہیں دیتی۔ اگر ایسا ہوتا تو زک گولڈ سمتھ لندن کا میئر ہوتا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کبھی کوئی ہندو، سکھ اور مسیحی اپنی اہلیت اور کردار کی بنیاد پر پاکستان کے کسی اہم عہدے تک پہنچے۔ وہ مذہبی رنگ و نسل کی تفریق کا شکار نہ ہو۔
یقین کیجئے! مغرب سے زیادہ ہمیں اسلامی اقدار اور جمہوری روایات کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا سماج اس وقت I.C.U میں ہے جو کسی وقت بھی دم توڑ سکتا ہے۔
مذہبی فکر کے غالب نمونے طالبان ، القاعدہ، داعش، حزب التحریر اور المہاجرون کی شکل میں پروان چڑھتے نظر آتے ہیں ان کے علاوہ مسلم سماج میں بریلوی، دیوبندی، وہابی، شیعہ گہری جڑوں کے ساتھ موجود ہیں جن کا کلی نظام تقسیم و تفریق پہ قائم ہے۔ ایسے حالات میں ہم نے انسانیت کو کیا Deliver کرنا ہے۔ جن شخصیات کی شان میں، ہم دن رات رطب اللسان رہتے ہیں اُن کی اکثریت مغرب کے اداروں سے تعلیم اور تربیت یافتہ ہے۔ ان کے اذہان میں اسلام کا وہ تصور نہیں جس کے نقوش ہمارے سماج کے رویوں میں دوسرے انسانوں سے متعلق دکھائی دیتے ہیں۔
مذہبی فکر کے غالب نمونے طالبان ، القاعدہ، داعش، حزب التحریر اور المہاجرون کی شکل میں پروان چڑھتے نظر آتے ہیں ان کے علاوہ مسلم سماج میں بریلوی، دیوبندی، وہابی، شیعہ گہری جڑوں کے ساتھ موجود ہیں جن کا کلی نظام تقسیم و تفریق پہ قائم ہے۔
جس ریاست کو ہم نے پچاس کی دہائی میں کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا تھا وہ ابھی تلک عملی طور پر ہماری طرح کی مسلمان ہے۔ اچھا ہوتا کہ ہم ریاست کو کلمہ پڑھانے کے بجائے خود کلمہ پڑھتے اور اس حدیث کے پیروکار بنتے:
”مومن اپنے زمانے کی بصیرت رکھتا ہے“
یقین کیجئے! مغرب سے زیادہ ہمیں اسلامی اقدار اور جمہوری روایات کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا سماج اس وقت I.C.U میں ہے جو کسی وقت بھی دم توڑ سکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے