شاہ سلمان کا سعودی عرب بدلتاہوا سعودی عرب
شاہ سلمان اور نائب ولی عہد و زیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی خواہش ہے کہ 2032 ء میں جب سعودیہ اپنی صد سالہ تقریبات کا انعقاد کرے تو نئی نسل کو اپنی لیڈر شپ پر فخر ہو اور وہ ہر اعتبار سے خوش اور مطمئن ہو،اسے نہ کسی دشمن کا خطرہ ہو اور نہ ہی معاشی مسائل کاسامنا ہو
سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو برسراقتدار آئے ہوئےصرف پندرہ ماہ کا عرصہ ہواہے لیکن اتنی قلیل مدت میں انہوں نے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کر کے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے۔انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال میں سعودیہ کو خطے کی مضبوط اور فعال طاقت میں تبدیل کر دیا ہے۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنی توجہ ملک کی خارجہ پالیسی اور دفاع پر مرکوز کی اور عرب ملٹری الائنس تشکیل دیا جس کا مقصد یمن میں عبد ربہ منصور ہادی کو اس کا اقتدار واپس دلانا تھا جس پر حوثی باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا، بعض حلقے اس جنگ کو فرقہ وارانہ اختلافات کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں جو کہ سرا سر سعودیہ اور یمن کی تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہے،اس سے قبل1934ء میں بھی سعودیہ اور یمن کے درمیان جنگ ہو چکی ہے جس میں یمن کو شکست ہوئی تھی۔
لیکن اب تو ایسے ہے کہ تیل ہمارا آئین بن چکا ہے۔قرآن اور سنت کے بعد تیل ہی کا نام لیا جاتا ہے۔یہ ایک بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے۔ہمیں سعودی عرب میں تیل کے نشے کی لت پڑچکی ہے اور اسی نے گذشتہ برسوں کے دوران بہت سے دوسرے شعبوں میں ترقی کے عمل کو تہس نہس کیا تھا’‘
دوسرا اہم اقدام دسمبر2015ء کو سامنے آیا جب نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ سعودی عرب دہشتگردی کے خلاف 34 ممالک پر مشتمل ایک اتحاد بنا رہا ہے جس کے تحت “رعد الشمال(نارتھ تھینڈر)” فوجی مشقیں بھی ہوئیں ،پاکستان کو اس اتحاد کا اہم حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
سب سے اہم اقدام حالیہ دنوں میں کیا جانے والا 2030 ویژن کا اعلان ہے جس کے مطابق سعودیہ تیل پر انحصار کرنے کی بجائے زراعت،صنعت اور تجارت پر بھی فوکس کرے گا اور آرامکو کمپنی کے صرف 5٪ بجٹ سے 2030ء تک 2کھرب ڈالر کا دنیا کا سب سے بڑا دولت فنڈ قائم کرے گا۔
اس ویژن میں کہا گیا ہے کہ :”ہمارا مقصد سماجی ترقی کو فروغ دینا ہے تاکہ ایک مضبوط اور پیداواریت کے حامل معاشرے کی تعمیر ہو سکے۔اس کے تحت تعلیم ،صحت عامہ ،شہری ترقی ،سعودی شناخت پر فخر ،سلامی جڑوں ،سیاحت ،ثقافت اور تفریح ،صحت مند طرز زندگی ،خاندانی زندگی کے فروغ اور بچوں کی کردار سازی ،جدید سماجی بہبود ،چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے صلاحیتوں کی ترقی ،خواتین کو بااختیاربنانے اور اقتصادی شہروں کی بحالی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
محمد بن سلمان جو اس مجوزہ پروگرام کے چیئرمین بھی ہیں نے کہا کہ ہم یہ ثابت کریں گے کہ ہمارا ملک پیٹرول اور تیل پر انحصار کیے بغیر بھی چل سکتا ہے۔
سب سے اہم اقدام حالیہ دنوں میں کیا جانے والا 2030 ویژن کا اعلان ہے جس کے مطابق سعودیہ تیل پر انحصار کرنے کی بجائے زراعت،صنعت اور تجارت پر بھی فوکس کرے گا اور آرامکو کمپنی کے صرف 5٪ بجٹ سے 2030ء تک 2کھرب ڈالر کا دنیا کا سب سے بڑا دولت فنڈ قائم کرے گا۔
1932 میں سعودی عرب نےمعرض وجود میں آنے کے بعد ابتدائی چھ سال پیٹرول کے بغیر ہی گزارےتھے اور اسی عرصہ میں یمن کے خلاف لڑی جانے والی پہلی جنگ میں فتح بھی حاصل کی تھی، مارچ 1938 میں قدرت اپنے گھر کے رکھوالوں پر مہربان ہوئی اور سعودیہ کی زمین نے تیل امڈنا شروع کر دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سعودیہ معاشی استحکام کی طرف بڑھتا ہوا ایک نمایاں ملک بن گیا،تیل کی فراوانی سے جہاں سعودیہ کو معاشی استحکام نصیب ہوا وہیں اس کا منفی اثر یہ پڑا کہ صنعت و زراعت کمزور ہو گئی،اورسعودی معیشت تیل اور پیٹرول کی مرہون ہو کر رہ گئی، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ ” ایک وقت آئے گا کہ سعودی کی ایک نسل اس حالت میں بیدار ہوگی کہ کالے سونے کے سوتے خشک ہوچکے ہوں گے۔پھر یہ لوگ اپنے خیموں میں چلے جائیں گےیا اس سرزمین کو خیرباد کہہ رہے ہوں گے،یہ وہ وقت ہو گا جب سعودیہ معدنی وسائل سے محروم ہو رہا ہو گا۔”
ایک عرصہ سے سعودی خیر خواہ دہائی دے رہے تھے کہ سعودیہ کا بالکل ہی تیل پر انحصار غیر صحت مند علامت ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک کامستقبل تاریک اورغیر محفوظ ہو سکتا ہے۔
سعودی ٹی وی العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے جد امجد اور بانئ سعودیہ شاہ عبدالعزیز بن سعود کے بارے میں کہا کہ:
شاہ عبدالعزیز اور جن لوگوں نے ان کے ساتھ ریاست کے قیام کے لیے کام کیا تھا،انھوں نے تیل پر انحصار نہیں کیا تھا۔انھوں نے تیل پر انحصار کیے بغیر سعودی مملکت قائم کی تھی۔انھوں نے اس ریاست کو تیل کے بغیر چلایا اور تیل کے بغیر ہی اس ریاست میں رہے تھے۔انھوں نے برطانوی کالونیل ازم کو چیلنج کیا اور برطانوی سعودی عرب کی سرزمین کا ایک انچ بھی حاصل نہیں کرسکے تھے۔انھوں نے یہ سب تیل پر انحصار کیے بغیر کیا،
لیکن اب تو ایسے ہے کہ تیل ہمارا آئین بن چکا ہے۔قرآن اور سنت کے بعد تیل ہی کا نام لیا جاتا ہے۔یہ ایک بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے۔ہمیں سعودی عرب میں تیل کے نشے کی لت پڑچکی ہے اور اسی نے گذشتہ برسوں کے دوران بہت سے دوسرے شعبوں میں ترقی کے عمل کو تہس نہس کیا تھا”۔
انہوں نے بڑے کھلے لفظوں میں عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ بعد از تیل دور کے لیے تیار رہیں کیونکہ تیل نہ تو ملک کا آئین ہے اور نہ ہی کوئی مقدس چیز،اس لیے اب سیاہ سونے کو ایک ایسے ذریعے میں تبدیل کیا جائے گا جو دوسرے وسائل کا حصہ ہوگا اور یہ ہماری معیشت کا واحد اور مقدس ذریعہ نہیں رہے گا۔
تیل پر انحصار کم کرنے کا ایشو بھی شاہ سلمان کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا لیکن ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا تقاضا تھا کہ وہ پہلے دفاع کی طرف توجہ دیں اور دفاع کو اس قدر مضبوط کر دیں کہ کو ئی میلی آنکھ ملک کی طرف نہ اٹھ سکے،اسی لیے پہلے یمن میں آپریشن “عزم کا طوفان،34ممالک کا فوجی اتحاد اور نارتھ تھینڈر جیسی فوجی مشقیں عمل میں لائی گئیں، دفاع سے اطمینان کے فورا بعد شاہ سلمان ملکی معیشت کے استحکام کی طرف بھی متوجہ ہو گئے ہیں،اور ویژن 2030 منصوبہ اسی کا مظہر ہے۔
شاہ سلمان اور نائب ولی عہد و زیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی خواہش ہے کہ 2032 ء میں جب سعودیہ اپنی صد سالہ تقریبات کا انعقاد کرے تو نئی نسل کو اپنی لیڈر شپ پر فخر ہو اور وہ ہر اعتبار سے خوش اور مطمئن ہو،اسے نہ کسی دشمن کا خطرہ ہو اور نہ ہی معاشی مسائل کاسامنا ہو، اور نئی نسل اپنے آپ کو ہر قسم کے تفکرات سے آزاد کر کے پوری دلجمعی کے ساتھ تعلیم کی طرف متوجہ ہو،اور پھر تعلیم کے میدان میں اپنا لوا منوا کر پوری دنیا کے لیے مثالی کردار ادا کرے۔
یہ ہے وہ سعودی عرب جو شاہ سلمان کا ویژن ہے،نائب ولی عہد محمد بن سلمان اپنے والد کے اس ویژن اور خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے والد کے شانہ بشانہ میدان عمل میں ہیں اور سعودی عرب کو ترقی کی معراج پر پہنچانے کے لیے پوری محنت ،لگن اور جذبے سے جت چکے ہیں۔اگر ترقی کا سفر اور محنت کا گراف یہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب سعودیہ کامیابی کی بام عروج پر ہو گا۔
فیس بک پر تبصرے