زیرو ڈارک تھرٹی اہم حقائق بے نقاب ہوتے ہیں

1,080

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننث جنرل (ر) محمود احمد کے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ جب امریکی وفد ان سے ملنے کے لیے آیا تو سینئر کے دوسری جانب امریکیوں کے ساتھ ایم آئی کےسابق اہلکار کرنل حفیظ کو بیٹھا دیکھ کر جنرل محمود احمد پریشان ہوگئے۔

 نامور امریکی مصنف اور صحافی سیمور ہرش نے اپنی نئی کتاب”’دی کلنگ آف اسامہ بن لادن”  میں دعویٰ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں پاکستان نے امریکہ کی مدد کی تھی ۔  کتاب میں لکھا گیا ہے کہ  اگست 2010 میں ایک پاکستانی کرنل، امریکی سفارت خانے آئے اور پھر اُس وقت کے سی آئی اے اسٹیشن چیف جوناتھن بینک سے ملاقات میں کہا کہ ’اسامہ بن لادن ہمارے پاس 4 سال سے ہے۔سیمور ہرش کے اس انکشافات میں کتنی حقیقت ہے ؟ اس کا جواب پاکستان کے ایک معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید کی  کتاب  The Secrets of Pakistan’s War on Al-Qaeda میں بھی ملتا ہے۔ گزشتہ برس شائع ہونے والی  یہ کتاب جہاں اس نوع کے کئی سوالات کو اٹھاتی ہے وہاں اس کرنل کی بھی سرگرمیاں بتاتی ہے جس نے سیمور ہرش کے بقول امریکہ کو اسامہ کے بارے میں معلومات دی تھیں ۔ اس کتاب سے ایک باب کا ترجمہ قارئین ِ تجزیات کے لئے پیش کیا جا رہا ہے ۔

معروف صحافی اعزاز سید کی کتاب The Secrets of Pakistan’s War on Al-Qaedaسے اقتباس

ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے اندر 408بٹالین کو انتہائی اہم  تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ براہ راست آرمی چیف کو جواب دہ ہوتی ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ بٹالین کی عمل داری میں راولپنڈی ، ایبٹ آباد ، جہلم اور کھاریاں شامل ہیں یہ تمام نوآباد یاتی دور کی فوجی چھاﺅنیاں ہیں۔ فوج کا صدر دفتر جنرل ہید کوارٹرز بھی  راولپنڈی میں واقع ہے۔

اس بٹالین کا راولپنڈی کا کمانڈ نگ آفیسر اکثر لفٹینٹ کرنل کے عہدے کا افسر ہوتا ہے اور اُسے ایجنسی کا سب سے اہم شخص سمجھا جاتا ہے۔ وہ براہ راست ایم آئی کے سربراہ کو اور بعض حساس معاملات میں آرمی چیف کو جوابدہ ہوتا ہے۔

انٹیلی جنس کے حلقوں میں یہ طلاعات تھیں کہ امریکیوں نے ایک خفیہ کارروائی میں حافظ سعید کو ختم کرنے کا منصوبہ بندی کی ہے۔ حافظ محمد سعید نہ صرف امریکیوں بلکہ پاکستان مخالف تحریک طالبان پاکستان کا بھی ہدف ہیں۔ 

1994سے 1996تک ایم آئی 408بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر کرنل حفیظ تھے۔ ان کے فرائض کی بے انتہا پوشیدہ نوعیت کے باعث ان کے ساتھیوں نے انہیں حفیظ خفیہ کا نام دے رکھا تھا۔ اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد وہ اپنے پیش رو کرنل اقبال سعید الدین کے رابطے میں رہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں محسوس کیا گیا ہے کہ جب بھی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات خراب یاکشیدہ ہوئے تو اسلام آباد میں تعینات سی آئی اے سٹیشن  چیف کا نام ذرائع ابلاغ کے سامنے افشاءکر دیا جاتا ہے۔

کرنل اقبال سعیدالدین نے اس بٹالین میں 1991سے 1993تک خدمات سرانجام دیں لیکن انہیں جعلی کرنسی کے کاروبار کے الزام میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے قبل از وقت ریٹائر کردیا تھا۔ کاروبار میں دلچسپی رکھنے والے اقبال سعید الدین نے اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد کمپری ہنسو سیکورٹی کے نام سے ایک سیکورٹی کمپنی رجسٹر کروائی۔

سیکورٹی کی دنیا میں کام کرنے کے لیے انہوں نے ایم آئی میں اپنے سابقہ مقام ملازمت کے روابط اور تعلقات پر انحصار کرنا شروع کردیا۔ حفیظ نے اس سلسلے میں اقبال کی مدد کی۔ نئے کمانڈر نے بھی اپنے پیش رو کی رسائی اور تجربے  سے بہت کچھ حاصل کیا۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے۔

حفیظ نے 408بٹالین میں اپنی مدت پوری ہونے کے بعد ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں بھی خدمات انجام دیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں حفیظ نے اسی عرصے میں سی آئی اے کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔ اُس نے پاکستانی انٹیلی جنس کی ملازمت چھوڑنے کے بعد باقاعدہ طور پر سی آئی اے کے لیے کام کرنا شروع کردیا۔ یہ واضح نہیں کہ سی آئی اے میں اُس کے اصل فرائض کیا تھے۔ وہ سال 2000ءکے اوائل تک سی آئی اے کے اتنا قریب آچکا تھا کہ وہ اُس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹیننٹ کی سربراہی میں آنے والے اُس وفد میں بھی شامل تھا جس نے اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے حکام سے ملاقات کی۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ   جنرل (ر) محمود احمد کے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ جب امریکی وفد ان سے ملنے کے لیے آیا تو سینئر زکے دوسری جانب امریکیوں کے ساتھ ایم آئی کےسابق اہلکار کرنل حفیظ کو بیٹھا دیکھ کر جنرل محمود احمد پریشان ہوگئے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عروج کے عرصے کے دوران اسلام آباد میں سی آئی اے کے مخصوص ذمہ دار یوں کے حاصل افسران کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ 2006میں یہ تعداد 24تھی جو 2007تک بڑھ کر 45تک پہنچ گئی۔

بعض لوگوں کے خیال میں حفیظ نے آنیوالے برسوں کے دوران اقبال سعید الدین کو بھی سی آئی اے کے نیٹ ورک میں شامل کرلیا تاہم اس سلسلے میں حقیقی صورتحال واضح نہیں کیونکہ یہ دونوں کردار دستیاب نہیں ہیں۔

کمپنیوں کو رجسٹر کرنے والے ادارے سیکیور ٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق اقبال نے جولائی 1994میں کمپری ہنسیو سیکورٹیز(پرائیویٹ) کے نام سے اپنی نجی سیکورٹی کمپنی رجسٹرڈ کرائی۔ یہ کمپنی ابتدا میں کچھ زیادہ پیسہ نہیں کما رہی تھی لیکن پھر سال 2006اور 2007میں اس کمپنی کے مالی حالات اُس وقت بہتر ہوگئے۔ جب اُسے مصر اور فلسطین کے سفارتخانوں کی حفاظت کے ٹھیکے مل گئے۔

سیکورٹی کمپنی کو چلانا شاید اُس کا اصل کاروبار نہیں تھا۔ وہ خاموشی کے ساتھ سی آئی اے کے قریب ہورہا تھا۔

اقبال سعد الدین راولپنڈی کی ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی میں رہتا تھا جہاں جرنیلوں سمیت بہت سے دوسرے ریٹائرڈ فوجی افیسر بھی مقیم ہیں۔ وہ اکثر دعوتوں کا اہتمام کرتا جن میں تاجر ، فوجی اور انٹیلی جنس افسر اور سفارتکاروں سمیت غیر ملکی بھی شرکت کرتے تھے۔ اس ریٹائرڈ کرنل کی سرگرمیوں پر اُن سراغ رسانوں نے بھی کان نہیں دھرےجو عموماً اُس وقت خبردار ہوجاتے ہیں جب کوئی غیر ملکی سفارتکار پاکستانی شہریوں بالخصوص حاضر سروس یا ریٹائرد فوجی افسروں سے رابطہ کررہا ہو۔

ان ساتوں سٹیشن چیفس نے پاکستان میں انٹیلی جنس سے وابستہ افراد خصوصاً آئی ایس آئی کے لوگوں سے قریبی رابطہ رکھا۔ دسمبر2001سے2مئی 2011تک تعینات ہونے والے اُن سٹیشن چیفس اور ان کے ساتھ بڑی تعداد میں کام کر نے والے مخصوص ذمہ داریوں کے حامل افسروں نے پورے ملک میں انٹیلی جنس کا متبادل نظام قائم کر لیا۔ 

2007میں اُس نے اپنے ہی گھر میں سی آئی اے کا ایک ٹھکانہ (Sleeper Cell)بنا رکھا تھا۔ اور اُس کا یہ گھر نہ صرف یہ کہ ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کے قلب میں واقع تھا بلکہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیا نی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی رہائش گاہوں سے بھی زیادہ دور نہیں تھا۔

اقبال کے بعض قریبی دوست اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں سی آئی اے کے افسروں سے کھلے عام ملتا جلتا تھا۔ ایک ریٹائرڈ کرنل نے جو اقبال کے سابق رفیق کار ہیں اور خود بھی ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے وابستہ رہے ہیں اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی درخواست پر مجھے (مصنف کو) بتایا کہ 408بٹالین کے سابق کمانڈنگ آفیسر اور ریٹائرڈ کرنل حفیظ نے ہی اقبال کو سی آئی اے سے متعارف کرایا تھا۔

اقبال جب 1991سے 1993کے دوران خدمات انجام دے رہا تھا اُس وقت جہادی پاکستان کے شہروں میں کھلے عام گھوما پھرا کرتے تھے ایم آئی کا جہاد کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اقبال ان لو گوں کو جانتا تھا جو جہادیوں کے ساتھ معاملہ داری کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ان لوگوں کو اپنے گھر میں مدعو کیا کرتا تھا۔

میں اقبال کے کم از کم دو رفقائے کار سے الگ الگ ملا جنہوں نے اُس کی دیانتداری پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وہ 1990ءکی دہائی میں ناچ گانے کی مجالس منعقد کیا کرتا تھا اور تفتیش کے لیے غیر قانونی طور پر اُٹھائے جانے والے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقام راولپنڈی کی نواحی کالونی میں واقع سیف ہاﺅس تھا۔ ایک مرتبہ اُس نے تشدد کرکے ایک شخص کو مار دیا ، اس پر تحقیقات شروع ہوئیں لیکن اُسے وارننگ جاری کرکے معاملہ ختم کردیا تھا۔ا۔ 

اُس کی پہلی شادی اپنی حقیقی کزن (س) کے ساتھ ہوئی جس سے اُس کے تین بیٹے پیدا ہوئے۔ پھر اُس نے ایک ایئر ہوسٹس (ف) سے شادی کرلی جس سے اُس کے مزید دو بیٹے پیدا ہوئے۔ پہلی بیوی اور اُس کے بچے اقبال سے اس قدر نالاں تھے کہ انہوں نے اُس سے کوئی لین دین نہیں رکھا۔ دراصل انہوں نے اقبال کو اپنے گھر میں داخلے سے ہی روک دیا تھا۔ اقبال کا ایک بیٹا پچھلے کئی برسوں سے سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

سی آئی اے یا کسی بھی غیر ملکی ایجنسی کے لیے وہ جاسوس بہترین اثاثہ ہوتے ہیں جو پہلے ہی کسی ملکی انٹیلی جنس کے ساتھ منسلک ہوں کیونکہ وہ نہ صرف مقامی آدمی ہوتے ہیں بلکہ اُن کے مقامی راوابط بھی ہوتے ہیں۔

پاکستان میں چھان بین کا ایسا کوئی نظام دکھائی نہیں دیتا کہ انٹیلی جنس میں خدمات انجام دینے والے افراد کے غیر ملکی دوروں پر کوئی نظر رکھی جاتی ہو۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے بیرون ملک جانے پر کوئی نظر نہیں رکھی جاتی ۔ بظاہر اس معاملے میں انٹیلی جنس (اداروں) پر پارلیمنٹ کی کوئی نگرانی نہیں۔

2مئی کے واقعہ کے بعد امریکی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے متعلق کئی خبریں شائع کیں۔ اُسے ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا گیا جس نے ایبٹ آباد میں اُسامہ کی شناخت کے لیے امریکیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی ۔ پاکستان میں ماہرین نے آفریدی کو جاسوس کے طور پر پیش کیا جبکہ امریکیوں نے ایبٹ آباد میں دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد کی شناخت کی کوشش کرنے پر بطور ہیرو اُس کی تعریفوں کے پُل باندھے ۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی نے سی آئی اے کی ہدایات پر ایک بین الاقوامی  غیرسرکاری ادارے (این جی او) ‘سیو دی چلڈرن”کے ذریعے پاکستان میں پولیو کے خلاف مہم چلائی۔ اس غیر سرکاری ادارے کو امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یوایس ایڈ) مالی معاونت فراہم کررہا تھا۔ شکیل آفریدی کو دو خاتون طبی کارکنوں آمنہ بی بی اور مختیار بی بی کی معاونت بھی حاصل تھی جنھیں محض تیرہ سو ڈالرز(ایک لاکھ انیس ہزار روپے ) معاوضہ دیا گیا۔ آفریدی نے تو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے سے قبل ہی امریکی ویزابھی حاصل کر لیا تھا۔ پس منظر کے انٹرویوز میں انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اُن لوگون کی اصل شناخت سے آگاہ کیا گیا تھا جن کے ڈی این اے کے نمونے لینے کیلئے اُسے کہاگیا تھا شکیل آفریدی کا یہ مشن بری طرح ناکام ہوگیا تھا کیونکہ اُس گھر کے رہائشیوں نے اپنے خون کے نمونے دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ایبٹ آباد کی داستان میں جس شخص نے کہیں بڑا کردار ادا کیا اُس کا ذرائع ابلاغ پر کبھی تذکرہ نہیں ہوا۔ اُس شخص سے وہ تونجی طور پر باخبر ہیں جنھوں نے اس واقعہ پر نگاہ رکھی ہے یہ بات اس کتاب میں شامل میری طرف سے کیے جانے والے بعض انٹرویوز سے بھی ظاہر ہوتی ہے جن میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ وہ شخص اقبال صلاح الدین تھا جو کرنل کی حیثیت سے ایم آئی میں بھی خدمات انجام دے چکا تھا۔

ایبٹ آباد کے جدون پلازہ میں واقع دفتر اقبال کی سیکورٹی کمپنی کے نام پر خریدا گیا لیکن یہ سی آئی اے کے خفیہ مشن کیلئے استعمال ہوا۔ اس سیکورٹی کنٹریکٹر نے آپریشن سے قبل اسامہ کی رہائش والے ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹان کا کئی مرتبہ دورہ کیا۔ 

میں نے اقبال کے کردار کے متعلق جب جنرل پاشا سے دریافت کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اس سوال کو رد کر دیا کہ اُس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چونکہ آئی ایس آئی(نجی سیکورٹی کے) اُس کنٹریکٹر سے تفتیش نہیں کرسکی تو یہ بات شبہات کو جنم دیتی ہے کہ کیا وہ واقعی غیر اہم شخص تھا؟ کرنل (ر) اقبال نے نہ صرف اُس کمپاﺅنڈ کے متعلق خفیہ اطلاعات فراہم کیں جہاں اُسامہ مقیم تھا بلکہ ایبٹ آباد میں اپنا دفتر بھی سی  آئی اے کو اس کے کیمپ آفس کے طور پر استعمال کیلئے پیش کیا۔ جدون پلازہ میں واقع یہ دفتر اسامہ کی رہائش سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اقبال کی مددکے باعث ہی امریکیوں نے ایبٹ آباد میں کامیاب کارروائی کی۔

مئی کی اُس رات بھرپور حفاظتی انتظامات میں اور خفیہ آلات سے لیس پانچ (SUV) گاڑیاں ریٹائرڈ فوجی افسر اقبال صلاح الدین ہی کی رہنمائی میں (اسلام آباد سے ایبٹ آباد) جارہی تھیں۔ اقبال نجی سیکورٹی کے کنٹریکٹر کے طور پر امریکی سیکورٹی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا ۔ تمام گاڑیاں ٹیلی فون کی نگرانی کرنیوالے جدید ترین آلات اور  اس علاقے میں مواصلاتی رابطوں کو منجمد کرنے والے آلات سے لیس تھیں۔

ایبٹ آباد کے جدون پلازہ میں واقع دفتر اقبال کی سیکورٹی کمپنی کے نام پر خریدا گیا لیکن یہ سی آئی اے کے خفیہ مشن کیلئے استعمال ہوا۔ اس سیکورٹی کنٹریکٹر نے آپریشن سے قبل اسامہ کی رہائش والے ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاﺅن کا کئی مرتبہ دورہ کیا۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اُن لوگون کی اصل شناخت سے آگاہ کیا گیا تھا جن کے ڈی این اے کے نمونے لینے کیلئے اُسے کہاگیا تھا شکیل آفریدی کا یہ مشن بری طرح ناکام ہوگیا تھا کیونکہ اُس گھر کے رہائشیوں نے اپنے خون کے نمونے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ 

اُس نے اسامہ کے کمپاﺅنڈ کے پیچھے واقع زمین خریدنے کا بھی سوچا لیکن اُس زمین کے مالک نے کوئی دلچسپی نہ دکھائی تب اس کنٹریکٹر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ عمارت کے گر د واقع درختوں کو کٹوا دےتاکہ زمین کی سطح ہموار ہو جائے اور وہاں اترنے والے ہیلی کاپٹروں کو  اُس مقام پر اُترنے میں دُشواری کا سامنا  نہ کرنا پڑے۔

یہ حقیقت بعد میں معلوم ہوئی کہ اس کنٹریکٹر نے اپنے خاندان کے ہمراہ اپنا گھر 5مئی کو چھوڑ دیا تھا۔ اگلے دو روز وہ اپنے عملے سے رابطے میں رہا۔ اُس کے عملے کے مطابق وہ یہاں سے متحدہ عرب امارات اور وہاں سے امریکہ چلا گیا۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مئی کے واقعہ کے تحقیقاتی کمیشن نے مزیدکھوج کرید کیلئے بہت کچھ ادھورا چھوڑ دیا۔

پھر لیفٹینٹ کرنل (ر) اقبال کا معاملہ آیا جو ایک اور بڑا مشکوک کردار تھا ۔وہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی بنیاد پر ریٹائر ہوا اور پھر وہ سیکورٹی کے کاروبار میں چلا گیا اور اپنی ایک سیکورٹی کمپنی قائم کی۔ اس سے لگتا ہے کہ بہت پیسہ کمایا۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سی آئی اے کو خفیہ مددفراہم کر تا رہا۔ وہ آپریشن کے فوراًبعد 3مئی کو اپنے اہل ِ خانہ کے ہمراہ غائب ہوگیا۔ اُس نے پاکستان میں موجود اپنی جائیداد بھی فروخت کرنے کی کوشش کی۔ اُس کا سوانحی تعارف بھی سی آئی اے میں بھرتی ہونے والے دوسرے افراد  جیسا تھا۔

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے پاکستان میں2001سے تادم تحریر اپنے تقریباً سات سٹیشن چیف اور بہت سے مخصوص ذمہ داریوں کے حامل افسر تعنیات کیے تاکہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بڑے اہداف کو پکڑا جاسکے۔

ان ساتوں سٹیشن چیفس نے پاکستان میں انٹیلی جنس سے وابستہ افراد خصوصاً آئی ایس آئی کے لوگوں سے قریبی رابطہ رکھا۔ دسمبر2001سے2مئی 2011تک تعینات ہونے والے اُن سٹیشن چیفس اور ان کے ساتھ بڑی تعداد میں کام کر نے والے مخصوص ذمہ داریوں کے حامل افسروں نے پورے ملک میں انٹیلی جنس کا متبادل نظام قائم کر لیا۔ انہوں نے اس عمل کے دوران ریاست اور معاشرے کے مختلف طبقات میں اپنے جاسوس پیدا کرلیے۔

سی آئی اے کے ہر مشن چیف کے متعلق آئی ایس آئی ، آئی بی اور دفتر خارجہ کو مطلع کیا  گیا ۔انٹیلی جنس اداروں کا یہ معمول ہے کہ وہ اپنی ایجنسی کے سٹیشن چیف سےمیزبان ملک کو مطلع کرتے ہیں۔ پاکستان کے انٹیلی جنس آفیسرز بھی امریکہ میں پاکستانی مشنوں میں موجود ہیں۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کے وقت پاکستان میں سی آئی اے سٹیشن چیف رابرٹ گر ینیر تھے ۔ ان حملوں سے کچھ عرصہ قبل ہی سی آئی اے نے رابرٹ گرینیر کی قیادت میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف اداروں بالخصوص سول اور ملٹری بیورو کریسی میں سے جاسوس بھرتی کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد رابرٹ گرینیر  نےخفیہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی کی۔

گیارہ ستمبر کے حملوں نے دوسری ہرچیز کی طرح اسلام آباد میں تعنیات سی آئی اے کے عملے کی توجہ بھی دوسری طرف منتقل کردی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عروج کے عرصے کے دوران اسلام آباد میں سی آئی اے کے مخصوص ذمہ دار یوں کے حاصل افسران کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ 2006میں یہ تعداد 24تھی جو 2007تک بڑھ کر 45تک پہنچ گئی۔

پاکستانی خفیہ اداروں نے خالد شیخ محمد کو 2003اور ابوالفراج الیبی کو 2005میں امریکیوں کے حوالے کیا۔ ان دونوں افراد  سے تفتیش کے بعد سی آئی اے میں ان شکوک نے جنم لینا شروع کر دیا کہ اسامہ پاکستان میں ہی کہیں چھپا ہوا ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک ریٹائر افسر نے اس صورتحال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ 2007 تک سی آئی اے کو آئی ایس آئی کی مدد کی تقربیاً ضرورت ہی نہیں رہی تھی سی آئی اے کے افسران اس وقت تک ہمیں شاذوناذر ہی مدد کیلئے کہتے تھے وہ ہمیں صرف اطلاع دیتے تھے۔

سی آئی اے نے ابتدائی طورپر تو پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا لیکن 2006سے سی آئی اے نے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی خفیہ اطلاعات کا متبادل نظام قائم کر لیا حالانکہ سی آئی اے پہلے افغانستان کیلئے بھی آئی ایس آئی پر انحصار کیا کرتی تھی۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کے بعض لوگ اس صورتحال پر پریشان تھے۔

مثال کے طورپر خفیہ لوگوں کادعویٰ ہے کہ سی آئی اے نے فاٹا میں انسانی ذرائع سے خفیہ معلومات کے حصول کیلئے بے پناہ پیسہ لگایا۔ ان میں معلومات کی فراہمی کے وہ ذرائع بھی شامل تھے جو اس سے پہلے آئی ایس آئی کا اثاثہ تصور کیے جاتے تھے۔ اس حقیقت کو میجر جنرل احمد شجاع پاشا نے بھی تسلیم کیا جو اُس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشتر تھے اور سوات آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔

2009میں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کا ایک خفیہ سروے کر ایا گیا جس میں یہ انکشاف ہوا کہ شہر کے مختلف علاقوں کے412 گھروں میں امریکی رہائش پزیر ہیں اور ان میں سے صرف289سفارتکار ہیں ۔سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے داخلہ کے اس وقت کے چیئرمین سنیٹر طلحہ محمود نے یہ معاملہ بار بار اٹھایا لیکن وہ بھی ملک کی اعلیٰ فوجی قیادت کا سکوت نہیں توڑسکے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ پارلیمانی نمائندوں نے سلامتی کی پالیسی کا یہ معاملہ موثر طور پر اٹھایا اور یہ بات اُن کے اُس تصور کے بالکل برعکس ہے جو ان کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے۔

سی آئی اے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن طریقے سے اثرو رسوخ استعمال کررہی تھی اور پاکستانی انٹیلی جنس  کےلوگوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مختلف پیشہ وارانہ تبادلوں کے تحت اور کورسز کے لئے امریکہ جانے والے بہت سے پاکستانی فوجی افسروں سے امریکی انٹیلی جنس بعض اوقات انھیں سی آئی اے میں بھرتی کرنے   کے لئےبھی رابطہ کرتی ہے۔

ٍ          پاکستانی خفیہ اداروں کے ریٹائر افسروں کہنا ہے کہ رابرٹ گرینیر نے ہی انسداد دہشت گردی کے شعبے میں پاک امریکہ خفیہ تعاون کا خاکہ تیار کیا تھا۔ رابرٹ گرینیر کا اسلام آباد میں عرصہ ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان جگہ شون مرفی آئے جنھوں نے اگلے دوسال پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا شون مرفی کے جانے کے بعد اسلام آباد میں سی آئی اے کہ جو سٹیشن چیفس تعینات رہے ان میں فرینک ایکس آرکیبولڈ، جو ناتھن ڈی بینک، مارک پی ٹیلی، مارک ای کیلٹن پال کیب اورکین ہلبرٹ شامل ہیں ۔اس وقت اسلام آباد میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف گرین پی اوستمھ ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں محسوس کیا گیا ہے کہ جب بھی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات خراب یاکشیدہ ہوئے تو اسلام آباد میں تعینات سی آئی اے سٹیشن  چیف کا نام ذرائع ابلاغ کے سامنے افشاءکر دیا جاتا ہے۔

ریمنٹلا ڈیوس سیکنڈل

سی آئی اے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی 27جنوری 2011کو لاہور کے ایک ریستوران میں اس کے پاکستانی رابطوں سے ملاقات طے تھی۔وہ لوگ شاید جماعت الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید کے متعلق بات کرنا چاہتے تھے۔ جماعت الدعوة کو امریکہ نے2008میں دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا تاہم پاکستانی عدالتوں نے اس تنظیم کو اپنے خیراتی کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی کیونکہ یہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کسی بھی سرگرمی میں کبھی ملوث نہیں پائی گئی ۔

ڈیوس نے تھانہ میں پولیس کو بتایا کہ اس نے یہ اقدام اپنے ذاتی دفاع میں کیا۔ اس نے ایک تفتیش کا رکو بتایا کہ حافظ سعید کے متعلق ملاقات اکٹھی کر رہا تھا۔ انٹیلی جنس کے حلقوں میں یہ طلاعات تھیں کہ امریکیوں نے ایک خفیہ کارروائی میں حافظ سعید کو ختم کرنے کا منصوبہ بندی کی ہے۔ حافظ محمد سعید نہ صرف امریکیوں بلکہ پاکستان مخالف تحریک طالبان پاکستان کا بھی ہدف ہیں۔ تحرک طالبان پاکستان کے رہنماؤں  کا خیال ہے کہ حافظ سعید نہ صرف فوج کے آلہ کار ہیں بلکہ انہوں نے 2001سے2010کے درمیان القاعدہ ، طالبان کے بعض اہم کمانڈروں کی گرفتاری میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد بھی کی۔

ڈیوس کی فائرنگ پاکستانی ذرائع ابلاغ کیلئے ایک بڑی خبرتھی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا شبہ تھا کہ امریکیوں نے پورے پاکستان مین جاسوسوں کا جال بچھا دیا ہے۔ امریکی صدر اوبامانے 15فروری2011کو بیان دیا کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارتکار ہے اور اس لیے وہ سفارتی تحفظ کا حق دار ہے تاہم کچھ عرصہ بعد امریکیوں نے تسلیم کیا کہ ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کا ایک کنٹریکٹر تھا۔ سی آئی اے نے فروری کے آخر میں  ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے براہ راست با ت چیت شروع کر دی۔

امریکی کانگریس کی تحقیقی سروس (کانگریشنل ریسرچ سروس) کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کئی ہفتوں کے بند کمروں کے مذاکرات ، عدالتوں پر پاکستانی حکام کے سیاسی دباﺅ اور بالآخر متاثرہ خاندان کے لیے2.3ملین  ڈالر کی  ”دیت” کے بعد 16 مارچ 2011 ء کو رہا ہوا اور ملک (پاکستان) سے چلا گیا۔

ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے امریکی جنرل مائیکل مولن نے جنرل کیانی کے ساتھ اپنے پرانے روابط استعمال کیے۔ جنرل کیانی کے احکامات پر ہی آئی ایس آئی سربراہ جنرل پاشا نے ڈیوس کی واپسی کی ذاتی طور پرنگرانی کی، پاکستانی حکام اور امریکی سفیر کے ساتھ انتظامات کیلئے رابطہ کاری کی۔ سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں جنرل کیانی کے کردار کی تعریف کی۔

آج 2015میں بھی پاکستان کے اندر سی آئی اے کا نیٹ ورک خفیہ طور پر کام کر رہا ہے لیکن غیر ملکی انٹیلی  جنس کے لوگوں کی موجودگی ختم کرانے کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا اور شاید ایسے اقدامات اٹھانے میں بُنیادی رکاوٹ امریکی امدا د ہے۔

اسامہ کے بعد اب امریکہ کی توجہ القاعدہ سے ہٹ کر عراق اور شام میں اسلامک سٹیٹ اور تحریک طالبان پاکستان پر مرکوز ہوگئی۔

سی آئی اے اب ایمن الظواہری یاالقاعدہ کے باقی ماندہ لوگوں کی گرفتاری میں ذیادہ دلچسپی لیتی نظر نہیں  آتی۔کیونکہ سی آئی اے کا نیا چیلنچ اور مرکز نگاہ عراق اور یمن کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...