سعودی عرب کی ابتری بڑا خطرہ
اگر سعودی شہنشاہیت ختم ہوتی ہے تو اس کی جگہ لبرل اور جمہوریت پسندوں کا گروپ نہیں لے سکتا بلکہ اسلام پسند اور رجعت پسند ہی اس کی جگہ لے سکتے ہیں ۔
کیا امریکہ کو سعودی عرب سے اپنے تعلقات منقطع کرلینے چاہئیں؟ٍیہ سوال تازہ تنازعات اور اُوبامہ کے دورہ سعودی عرب کے دوران اُبھر کر سامنے آیا۔مَیں کئی دہائیوں سے سعودی عرب کاناقد چلاآ رہا ہوں ،لیکن تمام مسائل کے باوجود میرا خیال ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سعودی عرب کے ساتھ اتحاد بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ تعلقات منقطع ہوں۔
کانگریس شاید جلد ایک بل منظور کرے جس میں وہ انفرادی طو رپر اُن امریکیوں کو جن کے عزیز و اقارب نائین الیون واقعہ میں مارے گئے تھے،یہ اجازت دے کہ وہ سعودی حکومت پر مقدمہ دائر کرسکیں۔ مارے جانے والوں کے لواحقین اُوبامہ حکومت سے پہلے ہی یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ اٹھائیس صفحات پر مشتمل اُس رپورٹ کو جاری کرے جس میں سعودی حکومت کی حملے میں ملوث ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
لیکن کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ سعودیوں کو اس طاقت سے بھی محروم کرنا چاہتی تھی جوروایتی طور پر غیر ملکی حکومتیں رکھتی ہیں،اس سے واشنگٹن دنیا بھر میں آسان ہدف بن جا تا (شکار ہو جا تا)ہے۔ذرا تصور کریں اگر امریکی حکومت کو ہر ایک کی طرف سے اپنے کیے جانے والے ڈرون حملوں،خفیہ چھاپوں،خصوصی آپریشنوں ،یہاں جنگوں کا ذکر نہیں کیا جارہا ،ان سب کے لیے مقدمات کا سامنا کرنا پڑجائے ۔ جہاں تک رپورٹ کا تعلق ہے ،نائین الیون کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرفلپ ذیلی کوو،اٹھائیس صفحات پر مشتمل رپورٹ پر بحث کرتے ہیں کہ ایف بی آئی کی فائلز یہ ظاہر کرتی ہیں کہ” تحقیقات کی پیروی میں لوگوں کو بغیر کسی فائدے کے سنجیدہ نوعیت کے جرائم میں پھنسایا جاتا ہے تو یہ الزامات درست ہیں ۔“
کانگریس شاید جلد ایک بل منظور کرے جس میں وہ انفرادی طو رپر اُن امریکیوں کو جن کے عزیز و اقارب نائین الیون واقعہ میں مارے گئے تھے،یہ اجازت دے کہ وہ سعودی حکومت پر مقدمہ دائر کرسکیں۔
مجھے یقین ہے کہ سعودی عرب ظالمانہ استبداد،عدم برداشت اور اسلام کی انتہا پسندانہ تشریح پھیلانے میں اہم ذمہ داری نبھاتا ہے۔یوں اس سے جہادی فکر کو براہِ راست پیدا کیا جاسکتا ہے ۔لیکن گریگورے گوس فارن افیئر ز میں اپنے آنے والے مضمون میں نشاندہی کرتے ہیں ،اور یہ کہانی مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے ”سعودی عرب 1980میں شروع کی گئی پوری دنیا میں انتہا پسندی کی تحریک پر اپناکنٹرول کھو چکا ہے….اورسعودی حکومت بذاتِ خود اس تحریک کی طرف سے انیس سو نوے سے نشانہ بن چکی ہے۔“اس سب کے بعد اگر امریکہ القاعدہ کا ٹارگٹ نمبر ایک تھا تو سعودی عرب ٹارگٹ نمبر دو تھا۔
1950 میں سعودی عرب کا اسلام کا وہابی ورژن اورخانہ بدوش صحرائی ثقافت کی ترویج اس وقت تیز ہو گئی جب تیل کی پیداوار میں تیزی آئی اور سعودی دولت کی چمک کے ساتھ ،یہ خیالات پوری دنیا میں پھیلے۔
وہابیت کی اس عالمگیریت نے اسلام کے اندر تنوع کو تباہ کر دیا ہے ،لبرل کی سانس کھینچ لی ہے اور مذہب کی تکثیری تشریحات کو بنجر اور غیر روادار بنادیا ہے۔1980 کی دہائی میں افغانستان کی روس کے خلاف جنگ میں مذہبی جذبے کو استعمال کیا گیا اورجہادی ڈاکٹرائن کو فروغ دیا گیا تھا۔اس طرح بہت سے معاملات میں اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی دہشت گردی میں تبدیل ہوئی ہے ۔
نائین الیون کے بعد کے سالوں میں بہت زیادہ مدافعت اور تردید کے بعدسعودی عرب نے اپنا انداز بدلنا شروع کیا،حکومت نے مذہبی انتہاپسندی کی تحریک کو مالی امداد روک دی۔ڈیوڈ پیٹریاس نے ایک بار مجھے بتایا کہ جو بہت ہی نمایاں اور اہم حکمتِ عملی میرے وقت میں سامنے آئی وہ یہ کہ سعودی عرب جہادی گروپوں کے لیے ایک خاموش مددگار کے بجائے جارحانہ دُشمن میں تبدیل ہوا ہے۔آج سعودی خفیہ ایجنسی القاعدہ کی دولتِ اسلامیہ اور دوسرے گروپوں سے جنگ میں سب سے بڑی اتحادی ہے ۔
ابھی تک سعودی عرب کی مذہبی انتہا پسندی کے لیے امداد ختم نہیں ہوئی اوراس کے تباہ کن اثرات پاکستان سے انڈونیشیاءتک دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اگرچہ ان فنڈز کو جاری کرنے والے افراد ہیں ،حکومت نہیں ہے۔یہ ابھی تصور کرنا مشکل ہے کہ سعودی شہنشاہیت انتہا پسندوں کو بیرون اور اندرون ملک منتقل کی جانے والی رقم کوختم نہیں کر سکی ہے ۔
ڈیوڈ پیٹریاس نے ایک بار مجھے بتایا کہ جو بہت ہی نمایاں اور اہم حکمتِ عملی میرے وقت میں سامنے آئی وہ یہ کہ سعودی عرب جہادی گروپوں کے لیے ایک خاموش مددگار کے بجائے جارحانہ دُشمن میں تبدیل ہوا ہے۔
سعودی عرب مذہبی انتہا پسندوں کے خوف اور ردِ عمل کی وجہ سے تذبذب میں رہتا ہے۔سخت گیر مذہبی رہنما اور نظریہ پرست، ہچکولے لیتے سعودی معاشرے میں اہم ہیں۔مملکت اپنے وسیع اور بڑھتے ہوئے سوشل میڈیا سے جانی جاتی ہے ۔غیر معروف مگر اس وقت کے سب سے بڑے ستاروں میں وہ وہابی مبلغین اور انتہا پسندنظریاتی ہیں ،جو اس وقت ایران کے خلاف جدوجہد کے طور پرمخالف شیعہ ڈاکٹرائن کو پھیلارہے ہیں ۔یہاں مرکزی المیہ برقرار رہتا ہے :اگر سعودی شہنشاہیت ختم ہوتی ہے تو اس کی جگہ لبرل اور جمہوریت پسندوں کا گروپ نہیں لے سکتا بلکہ اسلام پسند اور رجعت پسند ہی اس کی جگہ لے سکتے ہیں ۔ہم بڑے پیمانے پر اسی طرح کی فلم عراق،مصر،لیبیا اور شام میں دیکھ چکے ہیں ۔مَیں بہت محتاط ہوں حکومت کے غیر مستحکم ہونے سے ،بہت سارے پہلوﺅں سے ،جیسے دفاع،تیل،اقتصادی اور ایک مستحکم اتحادی کے۔
سعودی عرب دنیائے اسلام میں بدصورتی کی تخلیق کر چکا ہے ،ایک ایسی بے قابو بدصورتی جو سعودی عرب اور مغرب کے لیے ایک جیسا خطرہ ہے۔سعودی شہنشاہیت اپنی اور برآمد کیے جانے والے نظریے کی اصلاح کرے۔لیکن حقائق یہ ہیں اور زیادہ امکان یہ ہے کہ واشنگٹن ریاض کے ساتھ جڑا رہے، بلکہ وہ خود کو فاصلے پر رکھے گا اور مملکت کو تنہائی میں جلنے کے لیے چھوڑ دے گا۔خارجہ پالیسی کا مطلب ہے کہ دنیا کے ساتھ معاملات ایسے ہوں جیسے کہ وہ ہیں ،البتہ ویسے نہیں جیسے معاملات کی خواہش ہوتی ہے۔ضرورت اس اَمر کی ہے کہ امریکہ اپنی اخلاقی برتری کی فتح پر اطمینان کرے اور خوشی کے شادیانے بجائے بلکہ اس کے بجائے وہ ممکنہ طور پر مایوس کن صورتِ حال کو ختم کرے۔بہ نسبت یہ کہ امریکہ کے اس عجیب صحرائی بادشاہت کے ساتھ جیسے بھی تعلقات ہوں ،بعض صورتوں میں اس سچائی میں اضافہ ہو جا تا ہے۔
بشکریہ واشنگٹن پوسٹ….ترجمہ احمد اعجاز
فیس بک پر تبصرے