کیا شام میں وحشت گردی کا خاتمہ قریب ہے؟
11اپریل 2016کو شام کے مسئلے پر جنیوا میں مذاکرات کا آئندہ دور شروع ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے 27فروری2016کو ختم ہونے والے مذاکرات میں تمام فریقوں نے شام میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے شام کے اندر جاری تصادم میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ البتہ جنگ بندی کی قرارداد میں پہلے سے ہی یہ بات شامل تھی کہ داعش اور القاعدہ سے وابستہ النصرہ فرنٹ کے خلاف کارروائیاں اس جنگ بندی سے مستثنیٰ رہیں گی۔
جنگ بندی کی قرارداد میں پہلے سے ہی یہ بات شامل تھی کہ داعش اور القاعدہ سے وابستہ النصرہ فرنٹ کے خلاف کارروائیاں اس جنگ بندی سے مستثنیٰ رہیں گی۔
داعش اور النصرہ کے خلاف اس دوران میں شامی فوجوں کو بڑی قابل ذکر کامیابیاں ملی ہیں۔ مئی 2015میں آئی ایس آئی ایس نے پلمائرہ کے جس قدیمی شہر پر قبضہ کر لیا تھا مارچ 2016کے اواخر میں شامی فوج نے اسے واپس لے لیا اور اب تازہ ترین خبروں کے مطابق پلمائرہ سے 80کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ایک اور اہم قصبے القریتین پر بھی سرکاری فوج نے داعش کو شکست دیتے ہوئے قبضہ کر لیا ہے۔
اس دوران میں مارچ کے اواسط میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے احکامات پر شام سے روسی فوج کا انخلاءشروع ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق اس طرح روسی افواج کا شام میں موجود مرکزی حصہ اپنے ملک کو لوٹ گیا۔ البتہ روس کی وزارت دفاع کے مطابق شام میں دہشت گردوں کے خلاف روس اپنی فضائی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ روس نے شام کی خانہ جنگی میں ستمبر2015میں عملی قدم رکھا تھا۔ بی بی سی کے سفارتی امور کے ماہر یوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ روس شام میں فوجی مداخلت کے ذریعے صدر بشار الاسد کی پوزیشن مضبوط کرنا، سٹرٹیجک اہمیت کے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنا اور یہ یقینی بنانا چاہتا تھا کہ شام کے مستقبل میں بشار الاسد کا کردار ہو اور اس نے یہ سب اہداف حاصل کر لیے ہیں۔
کہ شام میں شکست کھاتی ہوئی داعش کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر اتر آئی
اس نامہ نگار کے تجزیے سے خارجی حقائق کی روشنی میں اتفاق کیا جاسکتا ہے کیونکہ روس کی عملی مداخلت سے پہلے امریکا یہ کہتا چلا آرہا تھا کہ بشار الاسد کا شام کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہے۔ شام کی اپوزیشن کے علاوہ سعودی عرب کا بھی اسی امر پر اصرار تھا۔ یہاں تک کہ شامی اپوزیشن کے راہنما امن مذاکرات میں شام کے حکومتی نمائندے سے بات کرنے کے لیے بھی آمادہ نہ تھے لیکن چند ماہ پہلے طوعاً یا کرھاً یہ پوزیشن تبدیل ہو گئی۔ اب مذاکرات اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں کہ رواں سال اگست تک شام کے لیے ایک نئے آئینی ڈھانچے پر اتفاق رائے حاصل کر لیا جائے۔ روس کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار شام کے عوام کو ملنا چاہیے۔ دن بدن صدر بشار الاسد کی داخلی پوزیشن مستحکم ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ اگر مزید آگے بڑھتا ہے تو یقینی طور پر مستقبل میں شام میں ان کے کردار کا تعین کرنے کے لیے عوام ہی کی طرف رجوع کرنے کا آپشن باقی رہ جائے گا۔
امریکی بمباری کے نتیجے میں داعش اور النصرہ کے 10بڑے کمانڈر مارے جا چکے ہیں
دوسری طرف یہ بات قابل ذکر بھی ہے اور قابل افسوس بھی کہ شام میں شکست کھاتی ہوئی داعش کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر اتر آئی ہے۔ اگرچہ داعش پر پہلے بھی یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے زہریلی اور کیمیائی گیسوں کو اپنے مخالفین کے خلاف مختلف مواقع پر استعمال کیا ہے۔ چنانچہ ایک رپورٹ کے مطابق اس نے سب سے پہلے 21اگست 2013کو دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ سیرین امریکن میڈیکل سوسائٹی(Syrian-American Medical Society) کے مطابق اب تک داعش 160مرتبہ کیمیائی اور زہریلی گیسیں استعمال کر چکی ہے جن میں سیرن، کلورائن اور ماسٹرڈ(Sarin, Chlorine and Mustard)گیسیں شامل ہیں۔ تازہ ترین واقعہ دمشق کے نواح میں موجود ایک ایئربیس پرپیش آیا ہے۔ اس ایئر بیس پر داعش نے کیمیائی حملہ کیا ہے۔ بعض خبر رساں اداروں نے اس حملے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔
2011سے لے کر اب تک شام کی خانہ جنگی میں تقریباً چار لاکھ ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شام کی نصف آبادی مختلف ملکوں میں پناہ گزین ہو چکی ہے۔
مبصرین کی رائے میں اس طرح کے واقعات داعش کی وحشت گری کے علاوہ اس کے نفسیاتی خلجان کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ بظاہر اس کے لیے عراق اور ترکی سے ملنے والی شامی سرحدوں کے آر پار جانے کے امکانات محدود ہوتے چلے جارہے ہیں۔فروری کے آخر میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد داعش اور النصرہ کے بڑی سطح کے متعدد کمانڈر بھی مارے گئے ہیں۔ اگرچہ اس دوران میں حزب اللہ کے بھی ایک اہم کمانڈر کے مارے جانے کی اطلاعات آئی ہیں لیکن مجموعی طور پر داعش اور النصرہ فرنٹ کو اس حوالے سے بڑی ضربیں لگی ہیں۔ شام میں مقیم امریکی اخبار کے ایک خبر نگار اسٹیف والس نے حال ہی میں خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مختصر عرصے میں امریکی بمباری کے نتیجے میں داعش اور النصرہ کے 10بڑے کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خود داعش کی صفوں میں اختلافات رونما ہورہے ہیں کیونکہ داعشی کمانڈروں کو خود اپنے ساتھیوں پر شک ہے کہ وہ ان کے مخالفین کو خفیہ میٹینگوں کے ٹھکانوں کی پیشگی اطلاعات دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان مقامات پر بمباری کی جاتی ہے۔ حال ہی میں داعش نے خود اپنے پندرہ افراد کو اسی شک کی وجہ سے قتل کردیا ہے۔
آئیے مایوسیوں کے بجائے نئی امیدوں کے ساتھ 11اپریل کو جنیوا میں شروع ہونے والے شام کے حوالے سے امن مذاکرات کی طرف دیکھتے ہیں۔
یہ تمام حقائق اپنی جگہ پر لیکن شام کا مسئلہ، مسئلہ نہیں بلکہ ایک بہت پیچیدہ اور گھمبیر المیہ ہے۔بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ 2011سے لے کر اب تک شام کی خانہ جنگی میں تقریباً چار لاکھ ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شام کی نصف آبادی مختلف ملکوں میں پناہ گزین ہو چکی ہے۔ ان پناہ گزینوں پر آئے روز گزرنے والی قیامت کی خبریں دنیا میں نشر ہوتی رہتی ہیں۔ شام کے قضیے کو امن و سلامتی کے ساتھ حل کرنے کے لیے اس میں شریک تمام قوتوں کو انسانیت پر رحم کھانا ہوگا اور اپنے مفادات کے بجائے انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھانا ہوگا۔ وہ تمام ممالک یا قوتیں جنھوں نے شامی عوام کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں اب انھیں غیر جانبداری سے شامی عوام کی آرا اور خواہشوں کے مطابق ایک آزاد و خود مختار حکومت کے چناﺅ میں مدد دینا ہوگی۔ مفادات کا کھیل ختم کرنا ہوگا۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی مرضی شامی عوام پر مسلط کرے۔ یہ شامی عوام ہیں جنھیں حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت منتخب کریں۔ اگر اس اصول کو خلوص دل سے اختیار کر لیا گیا تو پھر اگلا مرحلہ دربدر بھٹکنے والے شامیوںکی واپسی اور شام کی تعمیر نو کا ہوگا۔
آئیے مایوسیوں کے بجائے نئی امیدوں کے ساتھ 11اپریل کو جنیوا میں شروع ہونے والے شام کے حوالے سے امن مذاکرات کی طرف دیکھتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے