چین پاکستان اقتصادی راہداری کا کرشمہ
اقتصادی راہداری پر عمل درآمد کے لیے چین پاکستان میں سیاسی استحکام اور امن و امان کو انتہائی اہم سمجھتا ہے
پاکستان کی سیاسی قیادت کے چین پاکستان اقتصادی راہداری پر اتفاقِ رائے کی خبر بیجنگ میں “ون بیلٹ ، ون روڈ ” کے منصوبہ سازوں کے لئے باعث ِ اطمینان تھی ۔ ان کا خیال ہے کہاس اقتصادی راہداری سے صرف چین ہی نہیں بلکہ پورے خطے کا فائدہ ہوگا،بلکہ وہ اس میں شریک تمام ممالک کے سیاسی ، اقتصادی ، انتظامی اور کاروباری ڈھانچے کو ایک نیا آہنگ دینا چاہتے ہیں ۔
جنوبی ایشیا ء ، چینیوں کے لئے ایک مشکل خطہ رہاہے کیونکہ یہاں جمہوری اور معاشی ماحول قدرے مختلف ہے اس کا ڈھانچہ بھی مختلف ہے بظاہر باہر سے یہ ایک جیسا ہی لگتا ہے ۔اندرونی اور بین الریاستی تنازعات اور کشیدگی ،چینیوں کے لئے باعث ِ تشویش ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی تنازعے کا حصہ بنے بغیر مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق اقتصادی تعاون کا حصول یقینی بنایا جائے ۔چین یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ خطے میں استحکام اور امن کے بغیر “ون بیلٹ ، ون روڈ ” کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
بظاہر چین اس کو شش میں ہے کہ وہ منصوبے میں شریک ممالک کے ساتھ معمول کے مطابق کام کرے کیونکہ اس طرح اسے جغرافیائی یا معاشی مدد کے بغیر صرف مؤثر سفارت کاری کی ضرورت ہو گی جس میں اخلاقی مدد یا تعاون کا پہلو غالب ہوگا اور اس کے ذریعے آگے چل کر وہ باہمی تعاون کی مزید راہیں تلاش کر سکتے ہیں ۔ چین اور انڈیا کے مابین حالیہ گرم جوشی اس کی ایک مثال قرار دی جا سکتی ہے ۔چین کی سفارت کاری کا یہ خاصا ہے کہ وہ آگے کی طرف دیکھتی ہے ۔چینی حکام جنوبی ایشیائی قوموں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور انھیں یہ بات بھی معلوم ہے کہ کس کے لئے “ون بیلٹ ، ون روڈ ” منصوبہ کس قدر اہم ہے ۔چین ،بنگلہ دیش ، انڈیا ، برما راہداری پر بھی پوری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تاکہ جنوب مغربی چین کے یو آن صوبے کو جنوبی ایشیاء کے ساتھ جوڑا جا سکے ۔جو کہ نہ صرف معاشی طور پر بلکہ جغرافیائی طور پر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس سے جنوبی ایشائی مارکیٹ کے ایک بڑے حصے تک بھی دسترس حاصل ہو جاتی ہے۔اور ساتھ ہی امریکہ کی ایشیاء پسفیک گھیراؤپالیسی کا توڑ بھی ممکن ہوگا۔
“ون بیلٹ ، ون روڈ ” کے سٹریٹیجک اثرات پر بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن چین کی سفارت کاری کے لئے اصل امتحان یہ ہے کہ منصوبے پر خطے کے ممالک کے ودرمیان باہمی تنازعات کا اثر کم سی کم پڑے۔ بالخصوص یہ دیکھنا خاصادلچسپ ہو گا کہ میں “ون بیلٹ ، ون روڈ ” منصوبے کے تناظرمیں کیا چین خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے کیا کردار ادا کرے گا۔ کیونکہ یہاں مسئلہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان نہیں بلکہ خطے کے دوسرے چھوٹے ممالک بھی انڈیا کی چودہراہٹ سے خوش نہیں ہیں ۔بالخصوص سری لنکا اور نیپال کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ انڈیا کی جانب سے نیپال کی حالیہ ناکہ بندی کے بعد ایک بار پھر چین ، نیپال اور انڈیا راہداری کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔اطلاعات کے مطابق نیپال اور چین ابتدائی راہداری کے منصوبے پر متفق بھی ہوگئے ہیں۔
جنوبی ایشیاء کا تحفظ اور استحکام چین کی ترجیح بن چکا ہے لیکن وہ یہ کام خطے میں اپنے جغرافیائی اور معاشی مفادات کی قیمت پر نہیں کرنا چاہتا ۔جہاں تک ” ون بیلٹ ، ون روڈ ” منصوبے کا تعلق ہے تو چین مسلسل اس پر غور و خوض کر رہا ہے ۔وہ اپنے جغرافیائی اہداف کو سامنے رکھ کر اس میں تغیر و تبدل بھی کر سکتا ہے ۔چین کے لیے یہ کوئی جامد تصور منصوبہ نہیں ہے۔ چین کے پالیسی سازاور اقتصادی حلقے ٹائم لائن اور سائنسی طریقہ کار کا بہت تذکرہ کرتےہیں اور یہ چین کی پالیسی کا نیا رخ ہے ۔ یعنی کسی بھی منصوبے کے لیے دو عوامل کو پیشِ نظر رکھا جائے
چین کے پا س وسائل کی فراوانی ہے اور چینی سرمایہ کار اپنے لئے نئے علاقوں کی تلاش میں ہیں ۔جہاں وہ اپنی افرادی قوت ، مہارت اور ترسیلات کی کھپت کر سکیں ۔اگر وہ سمجھیں گےکو ئی منصوبہ ان کی مطلوبہ مدت میں سا ئنسی ا صولوں کے مطابق مکمل نہیں ہو سکتا توان کی ترجیحات تبدیل بھی ہو سکتی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ چین کسی بھی ملک کے ساتھ ریاستی سطح پر معاہدہ نہیں کرنا چاہتا جس کی وجہ سے وہ اس پر عمل در آمد کا پابند ہو جائے اور قدرے لچک دار تعاون کے فارمولے پر عمل فرما ہو ۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک کے اندرونی تنازعات کے بارے میں چین کی پوزیشن بالکل واضح ہے ۔چین اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جنوبی ایشائی ممالک کی سیکورٹی ان کی اپنی ذمہ داری ہے ۔انھیں صرف اپنی راہداریوں اور اس سے متعلقہ اقتصادی زونز کی سیکورٹی کے بارے میں خدشات ہیں ۔ چین کے قطعی طور پر ایسے کوئی عزائم نہیں کہ وہ جنوبی ایشائی ممالک کے تنازعات میں مداخلت کرے یا پھر وہ اقتصادی راہداریوں کی سیکورٹی کے معاملات براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لے ۔ بیجنگ میں موجود جغرافیائی ماہرین کا کہنا ہے کہ “ون بیلٹ ، ون روڈ ” منصوبے نے چین کے کندھے پر بڑی بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے ۔اور اسے ان ممالک کے درمیان بات چیت کے لئے اپنا اثر و رسوخ کا استعمال بڑی مہارت سے کرنا ہے ۔ خطے میں استحکام کے لئے کم سے کم کوششیں ضرور کی جائیں گی،جیسا کہ چین افغانستان میں قیام امن کے عمل میں بھی ایک محدود کردار رکھتا ہے ۔کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اس کے مفادات کو زک پہنچائے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے قیام امن کے عمل میں چین کی شمولیت کی وجہ صرف استمبول امن عمل کا حصہ نہیں بلکہ سنگیانگ صوبے میں اس کے اپنے اندرونی مسائل ہیں جس کی وجہ سے چین مجبور ہے کہ وہ افغانستان سے ، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنگجوؤں جو افغانستان میں مقیم ہیں ،کے خلاف مد د طلب کرے ۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لئے بھی افغانستان میں امن کا قیام ناگزیر ہے کیونکہ افعانستان کے شمالی علاقوں میں عسکریت پسندی حالیہ سالوں میں بڑھی ہے ۔اور یہ ایک بڑا چیلنج ہے یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ چین سارک تنظیم کو علاقائی تعاون کے لئے ایک مؤثر فورم کے طور پر دیکھتا ہےاور اسے آسیان کی طرح کا اقتصادی فورم بنانا چاہتا ہے تاکہ “ون بیلٹ ، ون روڈ ” منصوبے کے ثمرات میں اضافہ ہو ۔بہرحال چین جنوبی ایشیائی ممالک کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا لیکن اس کی خواہش ضرور ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کا اصل دشمن غربت ہے ،جو امن اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔یہ قوموں کے درمیان تعلقات کو بھی متاثر کرتی ہے ۔تاہم انھیں اپنے مسائل اور وسائل کو دیکھتے ہوئے اپنی ترجیحات کو از سر نو متعین کرنے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ پاکستان کا سٹر یٹیجک چیلنج ایک حقیقت ہے مگرسوال یہ ہے کہ کیا اس کا معیشت یہ بوجھ بھی سہار سکتی ہے ؟ان حالات میں سارا دباؤ سیاسی حکومتوں پر پڑتا ہے اور اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کی تنظیمِ نو کے بجائے سیاسی حکومتوں پر بدعنوانی کے الزامات کوآسان رستہ سمجھتے ہیں۔ظاہر ہے اس رویے سے کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی۔
اقتصادی راہداری پر عمل درآمد کے لیے چین پاکستان میں سیاسی استحکام اور امن و امان کو انتہائی اہم سمجھتا ہے کہ یہ عوامل منصوبے کو طول دے سکتے ہیں اور طول دینے کا مطلب اسے سائنسی طرز کی منصوبہ بندی پر نظر ثانی کرنا پڑسکتی ہے۔اس لیے کبھی کبھار دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے روجہ اصولوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے –
(بشکریہ : ڈان ، ترجمہ : سجاد اظہر )
فیس بک پر تبصرے