پاک چین اقتصادی راہداری:منصوبے سرخ فیتے کا شکار ہو رہے ہیں !
گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کی مالیت 410ارب روپے ہے،جبکہ ابھی تک چین کی طرف سے ایم او ایف سی اوایم کو گرانٹ منتقل نہیں کی گئی۔اسی طرح مشاورت کے لیے کسی کو نامز کیا گیا ہے اور نہ ہی ابھی تک بولی کے مرحلے کا آغاز ہو سکا ہے۔
تگذشتہ سال 2015ءکے ماہِ اپریل میں پاکستان اور چین کے مابین پچاس معاہدوں کی یادداشتوں پر مفاہمتی دستخط ہوئے۔ تعمیرو ترقی پرمبنی پاک چین اقتصادی راہداری کے اُن معاہدوں کی مالیت لگ بھگ چھیالیس بلین ڈالر بنتی ہے ۔
پنجاب میں300 میگا واٹ کا سالٹ رینج پاور پراجیکٹ جس کے لیے مالی تعاون چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن کا ہے ،التوا کا شکا رہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ مالی تعاون کرنے والی کارپوریشن اور کام کی جگہ پر مقدار کے مطابق معیاری کوئلہ دستیاب کرنے والوں کی طرف سے مقررکردہ ٹیرف زیادہ ہے۔
دونوں ممالک کے مشترکہ تعاون کمیٹی کا چھٹا اجلاس جون میں بلانے سے قبل اب جب دونوں اقوام نے تاریخ ساز معاہدے کی پہلی سالگرہ مکمل کی ہے تو یہ ضروری ہوگیا ہے کہ طائرانہ نگاہ ڈال کریہ دیکھا جائے کہ ترقی کے منصوبوں پر کس حد تک پیش رفت ہو ئی ہے؟یہ فیصلہ کرنا ایک مشکل اَمر ہے کہ اس سطح تک آکر عملدرآمد کی رفتارکیا رہی ہے؟لیکن ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ محکموں کو منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے تاحال مختلف قسم کے ابہامات اور مشکلات درپیش ہیں۔
پاک چین دوستی ہسپتال کی توسیع کیلئے9.9ارب درکار ہیں ،یہ پہلے مرحلے کی لاگت کا تخمینہ ہے ،ہسپتال میں پچاس بیڈوں کیلئے سامان کی ترسیل اور چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے ٹھیکیدار کی نامزدگی کیلئے پاکستان ابھی تک اس کی فزیبلٹی رپورٹ (عمل پذیری)کا منتظر ہے ۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے عمل میں گوادر کو پانی کی سپلائی کا کلیدی چیلنج درپیش ہے ۔اسی وجہ سے 11.2ارب کی رقم سواد اور شادی کور ڈیمز سے گوادر کو پانی کی ترسیل اور اُس کی تقسیم کے لیے مختص کی گئی ۔لیکن 15مارچ 2016تک گوادر پورٹ اتھارٹی(GPA)کو یہ واضح نہیں تھا کہ سواد سے گوادرشہر کو پانی کی ترسیل کا مالی طریقہ عمل کیا ہے؟نہ ہی اُسے دوسرے مرحلے کے بارے میں آگاہی ہے کہ کیسے شادی کور ڈیم سے یہ منسلک ہونے جارہا ہے؟گوادر پورٹ اتھارٹی اس پہلو سے آگاہ نہیں کہ اگر یہ منصوبہ ترقی پاتا ہے تو یہ گرانٹ سود سے پاک قرضہ ہوگی یا پھر چین کی طرف سے تجارتی قرضہ ہوگا۔
پاک چین دوستی ہسپتال کی توسیع کیلئے9.9ارب درکار ہیں ،یہ پہلے مرحلے کی لاگت کا تخمینہ ہے ،ہسپتال میں پچاس بیڈوں کیلئے سامان کی ترسیل اور چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے ٹھیکیدار کی نامزدگی کیلئے پاکستان ابھی تک اس کی فزیبلٹی رپورٹ (عمل پذیری)کا منتظر ہے ۔اسی طرح کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کو بھی غیر واضح صورتِ حال کا سامنا ہے ۔چین کی حکومت 600 میگا واٹ کوئلے پر چلنے والے منصوبے پر چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی (سی سی سی سی)کو بطور ٹھیکیدار نامزد کر چکی ہے ۔ لیکن اس کے بعد سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (CPPA) اورپرائیویٹ پاور اینڈانفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) کے اصرار پر کہ 300میگا واٹ پلانٹ بپلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لیے ہو گا اورا س کی لاگت 55 ارب ہو گی ،پر اتفاق ہوا۔
اس توانائی کے منصوبے کو درپیش بڑے اور اہم مسائل بشمول نیشنل ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنی کو نیشنل گرڈ سے جوڑنے میں تذبذب ، پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی)کی اظہارِ دلچسپی، توانائی کا خریدار کون ہوگا؟میں ابہام، اور اگر کوئلہ یا گیس بطور ایندھن کے ترجیح ہو،ہیں۔
15مارچ 2016تک گوادر پورٹ اتھارٹی(GPA)کو یہ واضح نہیں تھا کہ سواد سے گوادرشہر کو پانی کی ترسیل کا مالی طریقہ عمل کیا ہے؟نہ ہی اُسے دوسرے مرحلے کے بارے میں آگاہی ہے کہ کیسے شادی کور ڈیم سے یہ منسلک ہونے جارہا ہے؟
گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کی مالیت 410ارب روپے ہے،جبکہ ابھی تک چین کی طرف سے ایم او ایف سی اوایم کو گرانٹ منتقل نہیں کی گئی۔اسی طرح مشاورت کے لیے کسی کو نامز کیا گیا ہے اور نہ ہی ابھی تک بولی کے مرحلے کا آغاز ہو سکا ہے۔
پاکستان میں سی پیک کے فوکل کی طرف سے جو تازہ ترین معلومات پلاننگ کمیشن کوجمع کروائی گئی ہیں ،کی رُو سے کوئلے پر چلنے والا پورٹ قاسم کا 132میگا واٹ کا وہ بڑا منصوبہ جس کی مالیت 2.5 ارب ڈالر ہے ،کو پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔سندھ حکومت کی طرف سے لیز کے اقرار نامے کی رجسٹریشن ابھی تک ہنوز حل طلب ہے کیوں کہ زمین کی ملکیت کے تنازع میں سندھ حکومت کا وفاقی حکومت سے تنازع ہے۔
چین کے قرض دھندہ اس پر رضامند ہیں کہ رجسٹریشن کی ڈیڈلائن میں مزید تین ماہ کی توسیع کی جاسکتی ہے مگر آخرکار منصوبے کے تاخیر یا اُس کے ناکام ہونے کی تمام نوع کی ذمہ داری پاکستان پر ہو گی،کیونکہ پی پی آئی بی کی طرف سے 22دسمبر 2015کو جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشی اختتام کا اعلان کیا گیا۔توانائی کے انخلا کے لیے ٹرانسمیشن لائن کہیں نظر نہیں آرہی اور سندھ حکومت نے ابھی تک پانی کی سپلائی کے لیے بھی این اوسی جاری نہیں کیا۔
اس سب سے اُوپر وہ مسائل ہیں جن کا تعلق پلانٹ اور مشینری کی درآمدات پر عائد ہونے والے ٹیکس کی چھوٹ سے ہے اور درآمدات پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے استثنا ءسے ہے ،یہ بھی منصوبے کی عملدرآمدی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
یہ فیصلہ کرنا ایک مشکل اَمر ہے کہ اس سطح تک آکر عملدرآمد کی رفتارکیا رہی ہے؟لیکن ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ محکموں کو منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے تاحال مختلف قسم کے ابہامات اور مشکلات درپیش ہیں۔
بجلی کی خریداری اور عمل کے معاہدات کے لیے 2.5ارب کےایک سو بتیس میگا واٹ پر مبنی ساہیوال کو ل پاور پراجیکٹ پر 2015 میں دستخط ہوئے،لیکن اس کے مالیاتی اہداف کا حصول ابھی تک نہیں ہوسکا۔ تھر میں 660 میگا واٹ کا اینگرو پاورجن لمیٹیڈکاایک اور اہم منصوبہ مالیاتی اُمور کی تکمیل ابھی تک حاصل نہیں کر سکا یعنی اُس کے مالیاتی اُمور ابھی تک طے نہیں پاسکے ۔اور اُس کی حمایت کا خط پہلے ہی اپنی مدت پوری کر چکا ہے ۔پی پی آئی بی ،کوشش کر رہی ہے کہ کمپنی کی طرف سے یقین دہانی کرائی جائے کہ تجارتی عمل کی تاریخ میں کوئی تبدیلی نہ لائی جائے،جبکہ اس کے دیگر چیلنجز میں کان کنیپر زیادہ ٹیکسز اور سکیورٹی معاملات پر وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کے درمیان تنازعہ بھی ہے۔
پنجاب میں300 میگا واٹ کا سالٹ رینج پاور پراجیکٹ جس کے لیے مالی تعاون چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن کا ہے ،التوا کا شکا رہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ مالی تعاون کرنے والی کارپوریشن اور کام کی جگہ پر مقدار کے مطابق معیاری کوئلہ دستیاب کرنے والوں کی طرف سے مقررکردہ ٹیرف زیادہ ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پراجیکٹ کی توسیع میں جاری کی جانے والی تیسری مدت بھی امسال 19فروری کو پوری ہو چکی ہے اور ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔
اسی طرح کوئلے سے چلنے والی 300میگا واٹ کی حب پاور کمپنی کو بھی مسائل کا سامنا ہے،جیسا کہ بلوچستان کی طرف سے خدمات کے عوض تین فیصد منافع کا مطالبہ،، جیٹی کی تعمیر کے لیے وزارتِ دفاع کی طرف سے جاری کردہ این او سی میں مسئلہ اورکچھ پیچیدگیاں جیٹی ٹیرف کے تعین میں اور کچھ مسائل لیٹر آف سپورٹ میں ہیں ۔
اسی طرح شنگھائی الیکٹرک پاور پراجیکٹ جو تھر بلاک ون میں 1300 میگاواٹ کے لیے مالی تعاون کررہا ہے،کو پاور ریگولیٹر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ مکمل دستاویزات کے ساتھ اورضروریات پوری کرنے کے بعدنئے سرے سے اپنی درخواست جمع کروائے ۔نتیجے کے طور پر اظہارِ دلچسپی میں دوسری بار توسیع کی گئی جو کہ 10 مئی دوہزار سولہ تک ہے۔
ایس کے ہائیڈرو پاورپراجیکٹ ،870میگاواٹ کا ہے اور جس کی مالیت دوارب ڈالر ہے،کو ایگزم بنک آف چائنا اور آئی سی بی سی کی طرف سے فنڈ مہیا کیا گیا ہے ، اُس پراجیکٹ کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کی تاخیر کا سامنا ہوچکا ہے۔اس کی ڈیڈ لائن جو 31 دسمبر تک تھی ،تک خیبرپختونخوا حکومت کو زمین کے حصول جیسے مالیاتی اُمور طے نہ کرسکنے جیسی مشکلات کاسامنا تھا اور چین کے قرض دہندہ آہستہ خرامی سے مالی منظوری دے رہے ہیں ۔
دوارب ڈالر اور 720 میگا واٹ کا کیروٹ ہائیڈروپاورپراجیکٹ کو بھی تاخیر کا سامنا ہے اور اس کی وجہ پنجاب حکومت کی طرف سے زمین کی حصولی میں سست روی ہے۔جبکہ آزاد جموں کشمیر اور پنجاب دونوں پانی کے استعمال کی طلب بڑھاچکے ہیں ۔2.4 بلین ڈالر کا آزاد کشمیر میں کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ ابھی تک ہموار طریقے سے کام کر رہا ہے اور تازہ ترین صورتِ حال کے مطابق زمین کے حصول کا مرحلہ بھی بہ خوبی طے پارہا ہے۔اور ماہر ین کا پورا گروپ اس کی ٹیکنیکل سطح کا جائزہ لے رہا ہے۔شمال جنوبی ٹرانسمیشن لائن اور مٹیار ی لاہور لائن کو چند مسائل کا سامنا ہے ، ایک تو ٹرن اوور پرکم سے کم ٹیکس کی ادائیگی کے ضمن میں اوردوسرا10 سال کے لئے متبادل کارپوریٹ ٹیکس کی ادائیگی اور ٹیرف کو ابھی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے واضح کرنا ہے ۔
(بشکریہ ڈان : ترجمہ :احمد اعجاز)
فیس بک پر تبصرے