کیا حزب اللہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ؟
حزب اللہ پرلبنانی صدررفیق الحریری کے قتل کا بھی الزام ہے،اگر عالمی عدالت میں یہ ثابت ہوجاتا ہے تو اس تنظیم پر عالمی پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں، فی الحال مشرق وسطی میں عائد ہونے والی پابندیاں بھی حزب اللہ کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ہیں
خبر ہے کہ 17اپریل 2016 اتوار کی شام عرب پارلیمنٹ نے حزب اللہ کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا،اس بات کا اعلان عرب پارلیمنٹ کے سربراہ محمد بن احمد الجروان نے قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں کیا،انہوں نے کہا کہ حزب اللہ اپنے اسلحے کا رخ اسرائیل کی طرف کرے،اس سے قبل عرب وزراء خارجہ کونسل 11 مارچ کو قاہرہ میں اور عرب وزراء داخلہ کونسل 2 مارچ کو تیونس میں حزب اللہ کو دہشتگرد تنظیم قرار دے چکی ہے جبکہ عراق ،لبنان اور الجزائر نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ او آئی سی نے ایران کی عرب ممالک کے معاملات میں کسی بھی قسم کی بالواسطہ یا بلاواسطہ دخل اندازی کو مسترد کر دیا ہے اور یہ کہ ایرانی صدر حسن روحانی او آئی سی کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔
رواں ہفتے یہ دو خبریں ایک ساتھ چھپی ہیں،ان دونوں خبروں کا آپس میں کیا ربط ہے؟
“ہم حزب اللہ امت کے وہ جوان ہیں جن کے ہراول دستہ کو ایران میں اللہ نے فتح دی اور جس نے ایک مرتبہ پھر دنیا میں مرکزی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھ دی ہے،ہم ایک عادل وحکیم قیادت کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں جو کہ آیت اللہ العظمی امام روح اللہ الموسوی الخمینی کی صورت میں ولی فقیہ کی تمام شرائط کی جامع شخصیت ہیں”
حزب اللہ کب اور کیوں بنی؟اس کا ایران سے کیا تعلق ہے؟عرب ممالک اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس تنظیم پر پابندی کی کیوں ضرورت پیش آئی؟اور پابندی کے بعد اس پر کیا اثرات پڑیں گے؟ ذیل میں ہم انہی امور کو جاننے کی کوشش کریں گے۔
حزب اللہ لبنان کی ایک شیعہ سیاسی و عسکری تنظیم ہےجو کہ 1982 میں ایرانی انقلاب کے اثرات کی بدولت لبنان کی تحریک “امل الشیعہ”(جسے بعد میں “امل الاسلامیہ ‘کا نام دیا گیا) کے بطن سے وجود میں آئی۔ابتدامیں تنظیم کا نظم شورائی تھا اور پانچ افراد پر مشتمل مجلس شوری تمام امور مشاورت سے طے کرتی تھی،پھر دیگر تنظیموں اور ملکوں سے روابط بڑھنے کے بعد تنظیم کو ترجمان کی ضرورت محسوس ہوئی تو 1985 میں ابراہیم امین کو ترجمان مقرر کر دیا گیا 1989 میں شیخ صبحی طفیلی کو جنرل سیکرٹری بنایا گیااور ساتھ ہی مجلس شوری میں دو ارکان کا اضافہ کردیا گیا اس طرح مجلس شوری کے ارکان کی تعداد سات ہو گئی، 1991 میں شیخ عباس موسوی جنرل سیکرٹری منتخب ہو ئے جنہیں فروری 1992 میں قتل کردیا گیا،ان کے بعد مئی 1993 میں حسن نصراللہ حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری بنے جو کہ تاحال جماعت کے سربراہ ہیں۔
مراکش یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد نشطاوی کے مطابق حزب اللہ لبنان میں ہونے کے باوجود مکمل طور پر ایرانی تنظیم ہے،اس لیے کہ 16 فروری 1985 کو شائع ہو نے والے حزب اللہ کے تعارفی پمفلٹ”ہم کون ہیں؟اور ہماری پہچان کیا ہے؟” میں تنظیم نے خود اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے :
شام اور حزب اللہ کے تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا ،یہاں تک کہ 1987 میں حزب اللہ کو 20 لاشیں بھی اٹھانی پڑیں لیکن ایران کی مداخلت سے تعلقات معمول پر آئے،1996 میں خمینی دمشق گئے اور حافظ الاسد کے ساتھ مل کر حزب اللہ کی توسیع پر اتفاق کیا
“ہم حزب اللہ امت کے وہ جوان ہیں جن کے ہراول دستہ کو ایران میں اللہ نے فتح دی اور جس نے ایک مرتبہ پھر دنیا میں مرکزی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھ دی ہے،ہم ایک عادل وحکیم قیادت کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں جو کہ آیت اللہ العظمی امام روح اللہ الموسوی الخمینی کی صورت میں ولی فقیہ کی تمام شرائط کی جامع شخصیت ہیں”
انہوں نے دعوی کیا ہے کہ کہ حزب اللہ کے تمام ارکان ایران کے ولی فقیہ کو اپنا دینی وسیاسی رہنما سمجھتے ہیں اور یہ کہ یہ تنظیم ہر قسم کی مالی امداد ایران سے وصول کرتی ہے اور اپنے تمام اخراجات ایران کے تعاون سے ہی چلاتی ہے۔
اس کے علاوہ تنظیم کی دینی و سیاسی تربیت بھی ایران ہی میں ہو تی ہے جس کا واضح ثبوت حزب اللہ کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ ہیں جنہوں نے ایران کے شہر قم سے اپنی تعلیم مکمل کی، اس طرح حزب اللہ کا تاریخی،دینی،سیاسی و عسکری ہر سطح کا بہت گہرا تعلق ایران سے ہے۔شام میں حزب اللہ کا اسدی حکومت کے ساتھ کھڑا ہونا بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ایران اور حزب اللہ میں کوئی فرق نہیں”
شام اور حزب اللہ کے تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا ،یہاں تک کہ 1987 میں حزب اللہ کو 20 لاشیں بھی اٹھانی پڑیں لیکن ایران کی مداخلت سے تعلقات معمول پر آئے،1996 میں خمینی دمشق گئے اور حافظ الاسد کے ساتھ مل کر حزب اللہ کی توسیع پر اتفاق کیا اس طرح ایران شام کی سرزمین کے ذریعہ حزب اللہ کو تعاون فراہم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ حسن نصر اللہ کی قیادت سنبھالنے کے بعد شام حزب اللہ تعلقات میں مزید بہتری آئی۔ حسن نصراللہ نے قیادت سنبھالنے کے بعد تنظیم کو فعال کیا،مختلف شعبہ جات قائم کیے،”الانتقاد” کے نام سے اپنا اخبار نکالا اور “المنار” کے نام سے ٹی وی چینل قائم کیا،یہ وہی چینل ہے جس پر مصر نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے حالیہ دورہ مصر کر دوران پابندی عائد کر دی تھی۔ 1996 اور پھر 2006 کی جنگ میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا کر اپنا سکہ بٹھا دیا،عرب نوجوانوں نے بلاتفریق رنگ و نسل و مسلک حزب اللہ کے کردار کو سراہا اور حسن نصراللہ ہیرو بن کر ابھرے، اس طرح اس تنظیم کی جڑیں عوام میں مضبوط ہوئیں۔ایران کے ساتھ ساتھ شام نے بھی حزب اللہ کی بھرپور مدد کی،
ایران اور شام کے اس گٹھ جوڑ نے جہاں ایک طرف حزب اللہ کو مضبوط کیا تو دوسری طرف لبنان کی ریاست کو کمزور کردیا،نوجوان سرکاری فوج کی بجائے حزب اللہ میں شامل ہونے کو ترجیح دینے لگے جس سے حزب اللہ کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا لیکن لبنانی ریاست پر اس کا منفی اثر پڑا اور ریاست کمزور ہوئی ،اس وقت لبنان دنیا میں واحد ملک ہے جس کا کوئی صدر نہیں،
لبنان میں حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ،شام میں اسدی حکومت کے شانہ بہ شانہ جنگ میں شرکت،یمن میں حوثیوں کا بھرپور تعاون اور بحرین میں نظام کو ڈیریل کرنے کی کوششیں وہ عوامل میں جنہوں نے عرب ممالک کو حزب اللہ کے خلاف انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کیا اور عرب پارلیمنٹ نے اسے دہشتگرد تنظیم قرار دے کر اس کی ہر طرح کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ، اور تنظیم کے سہولت کاروں پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے قبل 1997 میں امریکہ بھی حزب اللہ کو دہشتگرد تنظیموں کی لسٹ میں شامل کرچکا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق شام میں اسدی حکومت کے ساتھ مل کر خون کی ہولی کھیلنے کی وجہ سے یہ تنظیم عوامی اثرو رسوخ کھو چکی ہے،شامی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے معصوم بچوں اور بے گناہوں کے بہیمانہ قتل کے پیچھے حزب اللہ کا ہی ہاتھ ہے۔
ایران اور شام کے اس گٹھ جوڑ نے جہاں ایک طرف حزب اللہ کو مضبوط کیا تو دوسری طرف لبنان کی ریاست کو کمزور کردیا،نوجوان سرکاری فوج کی بجائے حزب اللہ میں شامل ہونے کو ترجیح دینے لگے
حزب اللہ پرلبنانی صدررفیق الحریری کے قتل کا بھی الزام ہے،اگر عالمی عدالت میں یہ ثابت ہوجاتا ہے تو اس تنظیم پر عالمی پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں، فی الحال مشرق وسطی میں عائد ہونے والی پابندیاں بھی حزب اللہ کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ہیں،اور توقع کی جارہی ہے کہ حزب اللہ اپنی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر نظرثانی کرے گی۔
اگر امریکا کا یہ دعوی سچ ثابت ہو جائے کہ “شام کے مستقبل میں بشار الاسد کی کوئی جگہ نہیں ہے” تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شام کے مسقبل میں حزب اللہ کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے،اور یہ کہ حزب اللہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی۔
فیس بک پر تبصرے