عسکریت پسندی اور بدعنوانی کا باہمی تعلق
منگل کو جنرل راحیل شریف نے سگنل رجمنٹ سینٹر کوہاٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ” ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کو ختم کیے بغیر ملک امن و استحکام ممکن نہیں ہے ،دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے لیکن ملک میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ بدعنوانی کو جڑ سے ختم کیا جائے۔پاکستان کی سالمیت، استحکام اور خوشحالی کے لیے ہر سطح پر احتساب ضروری ہے اور پاکستان کی مسلح افواج اس سمت میں بامعنی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گی تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے”۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا ؟ اور کون کرے گا ؟ موجودہ عدالتی اور سیاسی نظام تو یہ سب کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور کسی نئے نظام کی پیش بندی کااشارہ نہیں ہے ۔ فوج اگر مسئلے کا حل ہوتی تو بھی پاکستان کے مسئلے کب کے حل ہو چکے ہوتے ۔ایوب ،یحیٰ ،ضیا اور مشرف جیسے طرم خان بھی کچھ نہیں کر سکے ۔ہمارے پاس نہ کوئی مہاتیر محمد ہے نہ کوئی کمال اتا ترک ،لیکن حالات اس نہج پر ضرور ہیں جہاں پاکستان کسی انقلاب آفریں شخص کا راستہ دیکھ رہا ہے ۔
پاکستان میں بدعنوانی اب ایک کلچر کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔نااہل افسر شاہی اور لالچی اشرافیہ سب عوام کے مال پر اپنے اپنے ہاتھ صاف کر رہے ہیں ۔یہ گٹھ جور کس قدر مضبوط ہے اس کی ایک جھلک جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے احتساب بیورو کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب”یہ خاموشی کہاں تک” میں ملتی ہے ۔جس میں وہ لکھتے ہیں کہ کیسے انھیں پیٹرولیم اور چینی مافیا نے بدعنوانی کی تحقیقات سے روکا ۔ان پر صدر پرویز مشرف اور اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے دباؤ ڈالا کہ یہ کیس بند کر دیئے جائیں اور جب انھوں نے انکار کیا تو ان سے استعفی ٰ لے لیا گیا ۔ جنرل شاہد عزیز نے فوج میں بھی بدعنوانی کے قصے بیان کئے ہیں کہ کیسے فوجی ٹھیکے حاصل کرنے کے لئے لابنگ کی جاتی ہے۔
آرمی چیف کے بیان کو پانامہ پیپرز کی اشاعت کے پس منظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے ۔ کیونکہ احتساب بہرحال اسی وقت ثبت ہو گا جب یہ اوپر سے شروع ہو گا ۔ اگر اوپر کے کچھ لوگوں کے لئے نظام ”سہولت کار” کا کردار دا کرتا رہا تو پھر بدعنوانی کسی صورت ختم نہیں ہو سکتی ۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کا یہ بیان فوج کی حدود سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے ۔لیکن کیا یہ درست نہیں کہ فوج اندرون ملک شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں شریک ہے ۔بلکہ شوال آپریشن کی تکمیل کے بعد ایک طرح سے یہ آپریشن مکمل ہو چکا ہے ۔ فوج اب شہروں میں پھیلے دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف نبرد آزما ہے ۔یہ ٹارگٹڈ آپریشنز ہیں جوخفیہ معلومات کی بنیادپر کئے جا رہے ہیں ۔ یہ آپریشن ضرب عضب کا آخری مرحلہ ہے ۔مگر آرمی چیف نے یہ واضح کیا ہے کہ پائیدار امن اسی صورت ہو سکتا ہے جب بدعنوانی کو جڑ سے ختم کیا جائے ۔
بدعنوانی اس وقت پنپتی ہے جب ریاستی ادارے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں ۔ایسے میں جس کی لاٹھی ا س کی بھینس کا رواج ہوتا ہے ۔پہلے یہ لاٹھیاں بدعنوان اشرافیہ کے ہاتھ میں تھیں اب عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں بھی آگئی ہیں
آرمی چیف کی یہ رائے سو فیصد درست ہے کیونکہ عسکریت پسندی اوربدعنوانی کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ اس کے لئے پہلے نائیجیریا کی طرف آتے ہیں جہاں ملک کے پسماندہ شمالی علاقے میں شدت پسند وں کا غلبہ ہے ۔بوکو حرام اور الشباب نے ریاست مشنری کومفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔عیسائی اور دوسری اقلیتوں کو علاقہ بدر کیا جا رہا ہے ۔شدت پسندوں سے قبل یہ علاقہ فالونی جاگیرداروں کے چنگل میں تھا جن کی بدعنوانی اور سیاسی اقربا پروری کی وجہ سے علاقہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھےرہ گیا ۔بیروزگاری اور لاقانونیت بڑھی تو اس کی کوکھ سے شدت پسندوں نے جنم لیا ۔یہی حال افغانستان کا تھا 1980 سے قبل یہاں کی بدعنوان اشرافیہ نے اپنے لئے آف شور جائیدادیں بنائیں ۔کابل اور چند دوسرے شہروں کو چھوڑ کر باقی افغانستان ازمنہ قدیم کی تصویر لگتا تھا ۔ چنانچہ جب ریاست عا م آدمی کے مسائل میں ناکام ہو گئی تو حالات پہلے خانہ جنگی اور بعد میں شدت پسندی کے طرف چلے گئے ۔عراق ، یمن ، مصر اور شام کے خراب حالات کے پیچھے بھی در اصل وہاں کی اشرافیہ کی بدعنوانی ہی تھی ۔
فوج کو اگر سرحدوں کے اندر کوئی ٹاسک دیا جاتا ہے تو یہ لازمی ہے کہ وہ اس کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھے ۔ پاکستان میں شدت پسندی کی وجوہات میں جہاد ِ کشمیر و افغانستان کا بھی عمل دخل ضرور ہے ۔جہاں ریاستی سرپرستی میں ایسی تنظیمیں پروان چڑھیں جن میں سے بہت ساری آج ریاست کے کاغذوں میں کالعدم ہو چکی ہیں ۔ جن تنظیموں کے مالی معاملات چلانے کے لئے پہلے خفیہ فنڈز دیئے جاتے تھے ان پر جب پابندی لگی تو انھوں نے متبادل ذرائع بھی تلاش کر لئے ۔ کہیں پر یہ رقم اغوا برائے تاوان سے اکھٹی کی گئی تو کہیں پر بھتہ لیا جانے لگا ۔ کہیں پر منشیات اور اسلحہ کے سمگلروں سے رقمیں لی گئیں تو کہیں پر ڈاکے بھی ڈالے گئے اور یہ صرف اسی لئے ہوا کہ پولیس جس کی ذمہ داری امن ِ عامہ کا قیام تھی وہ خود بدعنوان ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر چکی ہے ۔پاکستان کے قبائلی علاقے جہاں شدت پسندی پروان چڑھی اور جہاں انھوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لئے وہاں صرف منشیات کی سالانہ سمگلنگ کا حجم 27 ارب ڈالر ہے۔ چنانچہ یورپ سے افریقہ اور امریکہ تک پھیلی اس انڈر ورلڈ نے حالات کو مزید خراب کرنے کے لئے اس جنگ میں تیل ڈالا کیونکہ لا قانیت ان کے مفاد میں ہے ۔ان علاقوںمیں قائم پولیٹیکل ایجنٹ کے دفاتر خود بدعنوانی کے مراکز میں تبدیل ہو گئے ۔سرکاری افسر اربوں روپے کی رشوت دے کر یہاں پوسٹنگ کراتے ہیں ۔
بلوچستان کی شورش کے پیچھے بھی بدعنوانی کا کردار ہے ۔ آج کا بلوچستان بھی قبل از تاریخ کے دور کی تصویر پیش کرتا ہے ۔یہاں بھی بدعنوان افسر شاہی کے ساتھ سرداروں کے گٹھ جوڑ پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔جس کے بعد کچھ بیرونی طاقتوں کے اشارے پر قوم پرستوں نے ایسا بیانیہ تشکیل دیا جس میں اس پسماندگی کی تمام تر ذمہ داری وفاق پر ڈال دی گئی ہے ۔اگر آج کے بلوچستان میں نوجوانوں کو روزگار میسر ہوتا ، انھیں پینے کا صاف پانی ، صحت ،تعلیم ، بجلی اور گیس کی سہلتیں میسر ہوتیں تو یقیناً قوم پرست جماعتیں وہاں کے لوگوں کو ورغلا نہ سکتیں ۔
پاکستان میں شدت پسندی کی وجوہات میں جہاد ِ کشمیر و افغانستان کا بھی عمل دخل ضرور ہے ۔جہاں ریاستی سرپرستی میں ایسی تنظیمیں پروان چڑھیں جن میں سے بہت ساری آج ریاست کے کاغذوں میں کالعدم ہو چکی ہیں ۔ جن تنظیموں کے مالی معاملات چلانے کے لئے پہلے خفیہ فنڈز دیئے جاتے تھے ان پر جب پابندی لگی تو انھوں نے متبادل ذرائع بھی تلاش کر لئے ۔ کہیں پر یہ رقم اغوا برائے تاوان سے اکھٹی کی گئی تو کہیں پر بھتہ لیا جانے لگا ۔
کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں سے بھی عسکریت پسندی اور بدعنوانی کے گٹھ جوڑ کے شواہد ملے ہیں ۔بھتہ خور عناصر ،ٹارگٹ کلرز ،اغوابرائے تاوان ،کار چوری اور ڈکیتی ان سب کے پیچھے جرائم کو جو دنیا آباد ہے اس میں ہر کوئی اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔سیاسی جماعتیں ہوں یا کالعدم تنظیمیں ،غیر ملکی ایجنسیاں ہوں یا پھر قبضہ مافیا ،سب اس الٹی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔کیونکہ بدعنوانی اس وقت پنپتی ہے جب ریاستی ادارے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں ۔ایسے میں جس کی لاٹھی ا س کی بھینس کا رواج ہوتا ہے ۔پہلے یہ لاٹھیاں بدعنوان اشرافیہ کے ہاتھ میں تھیں اب عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں بھی آگئی ہیں ۔فوج چونکہ عسکریت پسندوں کے خلاف بر سر پیکار ہے اس لئے اگر وہ پاکستان میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتی ہے تو وہ اس میں مکمل حق بجانب ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا ؟ اور کون کرے گا ؟ موجودہ عدالتی اور سیاسی نظام تو یہ سب کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور کسی نئے نظام کی پیش بندی کااشارہ نہیں ہے ۔ فوج اگر مسئلے کا حل ہوتی تو بھی پاکستان کے مسئلے کب کے حل ہو چکے ہوتے ۔ایوب ،یحیٰ ،ضیا اور مشرف جیسے طرم خان بھی کچھ نہیں کر سکے ۔ہمارے پاس نہ کوئی مہاتیر محمد ہے نہ کوئی کمال اتا ترک ،لیکن حالات اس نہج پر ضرور ہیں جہاں پاکستان کسی انقلاب آفریں شخص کا راستہ دیکھ رہا ہے ۔ ہمارے ارد گرد حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ہمارے پاس مواقع اور وقت کم ہے ۔اگر اس وقت ترقی کی رفتار تیز نہ کی گئی تو آبادی کادباؤ اور عسکریت پسندی کا پھیلاؤ سب کچھ بہا لے جائے گا ۔
فیس بک پر تبصرے