محفوظ اور ہم آہنگ پاکستان ، مگر کیسے ؟

1,201

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے رد ِ انتہاپسندی کے حوالے سے گزشتہ ہفتوں میں دس مکالموں کا انعقاد کیا جن میں ملک بھر سے دانشوروں ، ماہرین ِ تعلیم ،ممبران ِ پارلیمنٹ اور صحافیوں نے شرکت کی ۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے رد ِ انتہاپسندی کے حوالے سے گزشتہ ہفتوں میں دس مکالموں کا انعقاد کیا جن میں ملک بھر سے دانشوروں ، ماہرین ِ تعلیم ،ممبران ِ پارلیمنٹ اور صحافیوں نے شرکت کی ۔ان دس مکالموں میں سامنے آنے والے چارٹر پر  اسلام آباد میں ۲۵ مئی ۲۰۱۷کو اسلام آباد میں ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کی جبکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ظفر اللہ خان مہمان ِ خصوصی تھے  ۔

سمینار  میں مختلف شعبوں کے وابستہ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔سمینار سے جن مقررین نے خطاب کیا ان میں وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر ظفراللہ خان ،سینیٹر فرحت اللہ بابر ، سینیٹر جہانزیب جمالدینی ،سابق سینیٹر افراسیاب خٹک ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ، لوک ورثہ کی ڈائریکٹر فوزیہ سعید، ڈاکٹر سید جعفر احمد ، غازی صلاح الدین ، سلیم صافی ، نیکٹا کے بانی نیشنل کو آرڈینیٹر طارق پرویز، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانااور ایم ضیا الدین شامل تھے ۔ ۔سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف پالیسی سازی میں ماہرین اور دانش وروں کو شامل کرتے ہوئے سینیٹ میں’’ کمیٹی آف دی ہول ‘‘ کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں ان کی مشاورت لی جائے گی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام’’ محفوظ اور ہم آہنگ پاکستان ‘‘کے موضوع پر ایک قومی سمینار میں کیا  ۔سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے مگر ہمیں اس کا اتنا احسا س نہیں ہے اسی طرح جب ہم پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو ایران نے کہا کہ گھبرائیں مت جو کچھ آپ کو چاہئے ہم زمینی راستے سے دیں گے ۔سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ حالیہ دورہ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان جڑواں بھائی ہیں اگر ایک کو درد ہو گا تو دوسرا بھی محسوس کرتا ہے ۔قبل ازیں وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ قوم میں برداشت کو فروغ دینا ہو گا اگر ہم نے ایک دوسرے کو برداشت نہ کیا تو پھر کسی تیسرے کو کرنا پڑے گا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قوم کا فکری ڈھانچہ آزادی اظہار رائے سے مشروط ہے مگر اس کو قومی سلامتی کے نام پر ضبط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر فاٹا اصلاحات کا موقع ضائع کر دیا گیا تومتبادل بیانیہ کا سوال کیسے پیدا ہو گا ؟انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری ایک نسل جہاد فی سبیل اللہ پر تیار کی ہے اب جو بیانیہ چل رہا ہے وہ یہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا مسعود اظہر کی تنظیم کالعدم ہے مگر جب ان پر پابندی کی قرارداد سلامتی کونسل میں آئی تو کون تھا جو چین سے ویٹو کی درخواست کرنے گیا تھا ؟سینیٹر جہانزیب جمال الدینی نے کہا کہ ہمارے نظام میں انتہا پسندوں کے بارے میں ’’سافٹ کارنر ‘‘موجود ہیں ہم یہ تو کہتے ہیں کہ بھارت سیکولر رہے مگر اپنے ملک میں سیکولرازم کے خلاف ہیں ۔سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ فاٹا میں طالبان کے دفاتر دوبارہ کھل رہے ہیں مشرقِ وسطی ٰ میں داعش کمزور ہو رہی ہے مگر یہاں مضبوط ہورہی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کہا کہ نوروز اور بیساکھی کے تہوار منانے سے معاشرے میں تکثیریت کو فروغ ملتا ہے جس سے انتہا پسندی کے خلاف بیانئے کو طاقت ملتی ہے ۔ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ 1973کا آئین محفوظ اور ہم آہنگ پاکستان کی دستاویز ثابت ہو سکتی ہے اس لئے اس پر عمل در آمد کیا جائے ۔طارق پرویز نے کہا کہ ہماری انسداد دہشت گردی کی پالیسی فوج کے ارد گرد گھومتی ہے جب تک سول حکومت اس کی ذمہ داری نہیں لے گی اور اداروں کو اس قابل نہیں بنائے گی کہ وہ قائدانہ کردار ادا کر سکیں دہشت گردی کے مسئلے کا مستقل حل نہیں ہو گا ۔غازی صلاح الدین نے کہا کہ حکمران اشرافیہ کو صورتحال کی خرابی کا درست ادراک نہیں ہے ہمارے ہاں اخلاقی و فکری زوال ہے جب تک قوم کا فکری ڈھانچہ استوار نہیں ہو گا ترقیاتی ڈھانچہ استوار نہیں ہو سکتا اس مقصد کے لئے یونیورسٹیوں ، تھیٹر ز، لائبریریوں اور ثقافتی اداروں کو متحرک ہونا پڑے گا ۔سلیم صافی نے کہا کہ جب تک پاکستان کے جغرافیائی مسائل حل نہیں ہو ں گے یہاں پر انتہا پسندی کا مسئلہ طے نہیں ہو گا ۔ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ رد انتہا پسندی کی ضرورت صرف معاشرے کو نہیں بلکہ ریاستی اداروں کو بھی ہے کیونکہ وہی بگاڑ کے ذمہ دار ہیں متبادل فکر کے لئے سرسید احمد خان کی ترقی پسند سوچ کو ابھارا جائے ۔ایم ضیا الدین نے کہا کہ ہمیں متبادل بیانئے یا فوجی ایکشن کی بجائے ’’گڈ گورننس ‘‘ کی ضرورت ہے ۔عسکریت پسندوں کو غربت ، جہالت اور نا انصافی سے مدد مل رہی ہے ۔قبل ازیں محمد عامر رانا نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاپارلیمنٹ متبادل بیانئے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے پارلیمنٹ سیکورٹی ، تعلیمی اور ثقافتی پالیسی بنائے ۔انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو پھر یہ خلا وہ ادارے پر کریں گے جن کے پا س طاقت ہے ۔

سمینار میں محمد اسماعیل خان نے رد ِ انتہا پسندی کے حوالے سے سامنے آنے والے چارٹر کے نمایاں نکات بھی پیش کئے جو درج ذیل ہیں

ایک محفوظ پاکستان کا راز اس کے تنوع میں پوشیدہ ہے ۔ انتہا پسندوں کا مقابلہ اس رنگا رنگی سے کیا جا سکتا ہے جو ہمارے طرز زندگی میں بردرجہ اتم موجود ہے اگر اس کو پالیسی سازی کا محور قرار دیا جائے تو عسکریت پسندی کا توڑ ممکن ہے ۔انتہا پسندی کی لہر نے پاکستان کے تنوع اور رنگا رنگی کو نقصان پہنچایا ہے حتی ٰ کہ ملک بھر میں ایک مکتبِ فکرکے مسلمان بھی دوسرے سے محفوظ نہیں ہیں ۔بلکہ دوسرا عقیدہ رکھنے والوں کے لئے جگہ تنگ کر دی گئی ہے ۔انتہا پسندی کے خاتمے لئے ضروری ہے کہ شدت پسندی کے خلاف ایک وسیع تر حکمتِ عملی بنائی جائے ۔جو نہ صرف عملی پیش رفت کرے بلکہ انتہا پسندوں کی شیطانی فکر کا توڑ بھی کر سکے ۔عسکریت پسندوں کا مقابلہ صرف جنگ سے نہیں بلکہ فکری محاذوں پر بھی کیا جائے ۔جو عسکریت پسند اپنے کئے پر نادم ہوں ان کی واپسی اور بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔فرقہ پرست مدارس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کے ساتھ عمومی تعلیم کے اداروں میں انسدادِ شدت پسندی کے لئے طلبا ء و طالبات میں برداشت اور بقائے باہمی کو فروغ دیا جائے اور اس مناسبت سے تعلیم بھی دی جائے ۔خواتین کے حقوق کی ضمانت کے ساتھ مقامی ثقافتوں کو اظہار کے بھر پور مواقع دئے جائیں۔اس طرح تکثیریت کا فروغ ہو گا اور معاشرے میں بقائے باہمی کا کلچر پروان چڑھے گا ۔


پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے مندرجہ بالا سفارشات ،قومی سطح کے ان دس مکالموں کے بعد سامنے آئی ہیں جن کا مقصد شدت پسندی کے خلاف حکمتِ عملی مرتب کرنا تھا۔کئی اہم نکات کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے بارے میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کا خیال ہے کہ اگر ان کو عملی جامہ پہنایا جائے تو شدت پسندی کا خاتمہ ممکن ہے ۔۔انسدادِ شدت پسندی کا خاکہ دراصل پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے 2016میں منعقد کئے گئے مکالموں میں سامنے آیا تھا جن کے بارے میں عملی تجاویز رواں سال ہونے والے مباحثوں میں سامنے آئی ہیں ۔
مندجہ ذیل عنوانات کے تحت ہونے والے یہ دس مکالمے ایک نقطہ آغاز ہے جن کے موضوعات درج ذیل ہیں :
مذہبی فکر کے ذریعے انتہا پسندی کا خاتمہ ۔عسکریت پسندوں کی واپسی اور بحالی ۔قومی مکالموں کے ذریعے معاہد ہ عمرانی کا از سر نو جائزہ ۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد ۔کیا آئینِ پاکستان انتہا پسندی کے پنپنے کی وجہ ہے ؟شہریت اور حکومت۔ نوجوانوں کی شمولیت۔میڈیا کی حالت۔ ثقافتی تنوع کے ذریعے تکثیریت کا فروغ ۔ تعلیمی اصلاحات اور داخلی سلامتی کو درپیش چیلنجز


مندرجہ بالا تمام موضوعات کے تحت ہونے والے مذاکرے انسدادِ شدت پسندی کے لئے ایک لائحہ عمل کی تشکیل کا حصہ تھے ۔تاکہ یہ تجویز کیا جا سکے کہ ا س مسئلے کا عملی حل کیا ہے ؟شرکاء اس بات پر متفق پائے گئے کہ آئینِ پاکستان ہی ایک ایسی دستاویز ہے جو کہ انسدادِ شدت پسندی کے لئے فکری اور عملی رہنمائی کر سکتی ہے ۔
ان مشاورتی بحث مباحثوں میں اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی کہ صرف فوجی آپرشنوں کو مسئلے کے حل کے لئے کافی سمجھ لیا گیا ہے ۔شرکاء کا کہنا تھا کہ اس قسم کے اقدامات صرف وقتی ثابت ہوں گے اور یہ دوررس اثرات ظاہر نہیں کریں گے ۔۔مشاورتی اجلاسوں میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انسدادِ شدت پسندی کی کوئی بھی حکمت عملی صرف اسی صورت کارگر ہو گی جب سول قیادت ا س کی ذمہ ادری اپنے کاندھوں پر لے کر سول اداروں کو اس قابل بنائے کہ وہ شدت پسندی کے لئے قائدانہ کردار ادا کرسکیں ۔پارلیمنٹ نگرانی کرتے ہوئے ان پالیسیوں کا جائزہ لے جو کہ عسکریت پسندی کے خاتمے میں مدد گار ہو سکتی ہیں ۔پہلے سے موجود قوانین کو مؤثر بنایا جائے ۔وفاقی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی کے نظام کو پائیدار بنائے ۔


انسدادِشدت پسندی کے اہم نکات :
(
پر تشدد انتہا پسندی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاست اس مسئلے پر دو ٹوک مؤقف نہیں اپناتی ۔تمام اداروں اور صوبوں کی مؤثر شمولیت کے بغیر یہ کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں ۔اس لئے ریاست سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان (جس کا آغاز 2015میں کیا گیا تھا )پر عمل در آمد کرے ۔
(انسدادِ شدت پسندی کے لئے حکومت اپنی اب تک کی کاکردگی کا تنقیدی جائزہ لے ۔
(شدت پسندی کے خاتمے کی بحث، زیادہ تر دہشت گردی کے خاتمے کے ارد گرد گھومتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں ان مظاہر پر توجہ نہیں دی جارہی جو کہ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر پر تشدد یا غیر تشدد انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں ۔جو بعد ازاں دہشت گردی کی وجہ بن جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لئے ریاست کی کاوشیں نتیجہ خیز نثابت نہیں ہو پاتیں کیونکہ وہ درورس نہیں ہوتیں ۔انسدادِ شدت پسندی کے لئے ایک کارگر حکمتِ عملی کہیں موجود نہیں ہے ۔جس کی بڑی مثال نیشنل ایکشن پلان بھی ہے جو صرف فوجی آپریشنز کے ارد گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔اور ا س کا عملی حصہ بھی فوج یانیم فوجی ادارے ہیں ۔پولیس بھی سختی سے ’’پکڑلو یامار دو ‘‘ کی حکمت عملی پر توجہ مرکو زکئے ہوئے ہے ۔لیکن کسی ایسی حکمتِ عملی کا فقدان نظر آتا ہے جس میں فوجی آپریشنز جیسی سرعت ہو ۔اس لئے نیشنل ایکشن پلان کا از سرِ نو جائزہ لے کر پر تشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے مزید ضروری اقدامات اٹھائے جائیں ۔
(پر تشدد حکمت عملی کے خلاف جوبھی ضروری اقدامات اٹھائے جائیں ان میں سول اداروں کا قائدانہ کردار ہونا چاہئے ۔سیکورٹی پالیسی کی تشکیل پارلیمنٹ کرے ۔انتہا پسندی کے تدارک کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہراول دستے کا کردار ادا کریں ۔


(ماضی کی ان کوتاہیوں اور لغزشوں کااعتراف کیا جائے جن سے عسکریت پسندی نے جنم لیا۔قوم کو درپیش سنگین سیاسی و فکری مسائل پر ملک گیر مکالمے کئے جائیں جن کی روشنی میں ایک ’’نیشنل چارٹر آف پیس ‘‘ جاری کیا جائے ۔پارلیمنٹ بھی اس جانب پیش رفت کر سکتی ہے ۔
( ملک میں کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے آئینِ پاکستان سے ایک رہنما دستاویز کے طور پر رہنمائی لی جائے ۔بالخصوص آئین کی وہ دفعات جن میں مذہبی اقلیتوں کو ثانوی درجے کا شہری قرار دیا گیا ہے ان دفعات پر نظر ثانی کی جائے بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں آئین میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں ۔
(ریاست کی کسی صورت کوئی مذہبی یا نسلی شناخت نہیں ہوتی کیونکہ پاکستان مختلف مذاہب ،نسلوں اور ثقافتوں کاحامل ملک ہے ۔


(انصاف کا نظام مؤثر بنایا جائے ۔بالخصوص نچلی سطح پر ۔جو مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے کیونکہ انہی میں سے کئی عسکریت پسندوں کے دست و باوز ثابت ہوتے ہیں ۔جب انصاف پر مبنی نظام قائم ہو گا تو انتہا پسندوں کو پراپیگنڈہ کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا اور وہ عام آدمی کی ہمدردیاں بھی حاصل نہیں کر سکیں گے ۔اس لئے انصاف کے پورے نظام کو ازسر نو استوار کیا جائے ۔بالخصوص شواہد کی دستیابی کے نظام میں کئی خرابیاں ہیں ۔


(انسدادِ شدت پسندی کی کسی بھی حکمتِ عملی میں ’’سائبر سپیس‘‘پر خصوصی توجہ دی جائے جہاں پر نوخیز ذہنوں کو شدت پسندی کی جانب مائل کیا جارہا ہے۔
(پاکستان کے غیر مسلموں کو بھی پاکستان کا مساوی شہری تسلیم کیا جائے ۔غیر مسلموں کو بھارت یا مغرب کے ساتھ نتھی کرنا تاریخی حقائق سے آنکھیں موڑنا ہے ۔وہ ا س دھرتی کے باشندے ہیں ۔اس خطے میں ان کی خدمات تاریخ پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔
(مقامی ثقافتوں کو کسی صورت محدود نہ کیا جائے ۔نہ ہی مقامی شناختیں کسی تنازعہ کا باعث بن سکتی ہیں ۔کسی روایت یا ثقافت کی بنیاد پر عورتوں پر تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
آگے کا راستہ

*انتہا پسند جو اپنی توجیح اسلام کو قرار دیتے ہیں ان کاا ثر زائل کرنے کے لئے ایک مذہبی بیانئے کی ضرورت ہے ۔انتہا پسندی سے متاثرہ معاشرے کے لئے یہی راستہ کارگر ہو سکتا ہے ۔
*جو عسکریت پسند تشدد کا راستہ ترک کر کے واپسی کے خواہش مند ہوں ان کی بحالی آئین کے دائرے میں ہو ۔
*بلوچ علیحدگی پسندوں اور اسلامی عسکریت پسندوں کا معاملہ الگ الگ ہے ۔بلوچ علیحدگی پسندوں کی بنیادی وجہ معاشی اور عسکری ہے اس لئے اس کا حل بھی سیاسی ہوناچاہئے ۔ نیشنل ایکشن پلان میں بھی یہی تجویز کیا گیا ہے ۔


*اگر تمام شہریوں کے ساتھ بلا لحاظِ عقیدہ مساوی سلوک کیا جائے تو عسکریت پسندی کی فکر کوپنپنے سے روکا جا سکتا ہے ۔انتہا پسندوں کے لئے ا س لئے بھی فضا سازگار ہے کیونکہ غیر مسلموں کو معاشرے سے بالکل الگ کر دیا گیا ہے ۔
*تعلیمی اصلاحات کا اہم جزو نصاب کا از سر نو جائزہ ہے ۔انتہا پسندی ان کا مسئلہ نہیں جو پڑھے لکھے نہیں ۔نصاب سے دنیا کے بارے میں جو رائے بنتی ہے وہ ا س رائے سے مختلف بالکل بھی نہیں ہے جو رائے دنیا کے بارے میں انتہا پسند رکھتے ہیں ۔
*ایک ایسے فریم ورک یا بیانئے کی ناگزیر ضرورت ہے جو کہ تمام شہریوں کے ساتھ ان کی نسل ، عقیدے یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مساوی سلوک کرے ۔آئین کو ماخذ بنا کر مساوی شہریت کے مضامین پڑھائے جائیں ۔
*میڈیا کمرشل ازم کی وجہ سے لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے اس لئے میڈیا کے لئے ایسے ضابطے بنائے جائیں جس میں وہ انتہا پسندی کے فروغ نہیں بلکہ اس کے خاتمے لئے کام کر سکے ۔
*تکثیریت کو فروغ دے کر انتہا پسندی کی جگہ کم کی جا سکتی ہے ۔اس کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر ثقافتی پالیسیاں لائی جائیں جن میں تسلیم شدہ عالمی انسانی اقدار جھلکتی ہوں اور جن کی آبیاری کا پاکستان نے عالمی سطح پر عزم کر رکھا ہے صنفی مساوات جس کا بنیادی اصول ہے ۔قومی سطح پر ایک’’ کلچرل نیشنل ایکشن پلان‘‘ بنایا جائے جس کے تحت تمام عقائد اور نسلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے ۔
*پاکستان کا تعلیمی نظام طبقاتی ہے جس پر نظر ثانی کی جائے ۔نصابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ مختلف طبقوں کے سکولوں (مذہبی ، پرائیویٹ اور سرکاری )کے بارے میں یکساں نظام لایا جائے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے ۔
*نوجوان جو کہ ملک کا اکثریتی طبقہ ہیں ان کوجب اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں ملتی تو وہ عسکریت پسندوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اس لئے ملک کے نوجوانوں کو باہم میل جول کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔انسدادِ شدت پسندی کے لئے انٹر نیٹ پر نظر رکھی جائے کیونکہ یہاں سے نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔
*پاکستان کے تمام علاقوں میں قانون کی عمل داری یقینی بنائی جائے کیونکہ عسکریت پسند ان علاقوں کواپنا گڑھ بنا لیتے ہیں جو باقی ملک سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔
*عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں مثلاً فاٹا وغیرہ میں سکولوں کی تعمیر کی جائے اور بالخصوص لڑکیوں کو سکولوں کی جانب راغب کیا جائے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...