نوز شریف، وقار یونس کے راستے پر
وزیر اعظم نے اشارہ دیا کہ وہ ابھی بھی آشفتہ سر ہیں اور ہر قسم کا قرض چکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں
وزیر اعظم نواز شریف جب کل شام عوام سے خطاب کرنے آئے تو انھوں نے کہا کہ پوری سیاسی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ وہ ذاتی حوالے سے قوم کے سامنے آئے ہیں ۔انھوں نے پاناما لیکس کے بعد اپنے خاندان پر لگنے والے الزامات کا دفاع کیا ۔انھو ں نے سقوط ِ ڈھاکہ اور ذولفقار علی بھٹو دور میں اتفاق فاؤنڈری قومیانے سے اپنے مالی نقصانات کا تذکرہ کیا ۔بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں انتقامی کارروائیوں کا رونا بھی رویا اور پھر مشرف دور میں ایک بار پھر جب انھیں جلا وطن کیا گیا تو ان کے کاروبار بھی ٹھپ کر دیئے گئے ۔انھوں نے کہا کہ جلا وطنی کے دوران ان کے بزرگوں نے سعودی بنکوں سے قرض لے کر جدہ میں سٹیل مل لگائی ۔اور جلا وطنی ختم ہونے کے بعد یہ فیکٹری بیچی جس سے حاصل ہونے والی رقم سے میرے بیٹوں نے کاروبار شروع کیا۔انھوں نے کہا کہ انھیں معلوم ہے کہ اس سازش کے پیچھے کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ میں گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشا لگانے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس کمیشن کے سامنے جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں۔
تختہ دار سے لے کر خود کش حملوں تک کون سی ایسی قیمت ہے جو سیاست دانوں نے نہیں چکائی ۔مگر پھر بھی وہ اپنے دامن پر لگے داغ مٹانے میں ناکام رہے
وزیر اعظم کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے ہی سے ایک کاروباری خاندان کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ جب وہ سیاست میں وارد ہوئے تو ان کی کاروباری ساکھ بھی ان کے کام آئی ۔ پاکستانی سیاست میں پیدل وارد ہونے والے زر اور زمین کے مالک بن بیٹھے تو کئی نے اس کی بھاری قیمت بھی چکائی ۔تختہ دار سے لے کر خود کش حملوں تک کون سی ایسی قیمت ہے جو سیاست دانوں نے نہیں چکائی ۔مگر پھر بھی وہ اپنے دامن پر لگے داغ مٹانے میں ناکام رہے ۔ وزیر اعظم بھی پاکئ داماں کی خاطر اپنے دامن کو دیکھ رہے ہیں ۔الزامات کی تازہ لہر اور اس کے پیچھے چھپے مقاصد سےوہ بخوبی آشناء تو ہیں مگر کیا وہ رحمٰن ملک کی طرح ” را” کو ا س کا ذمہ دار سمجھتے ہیں یاپھر اپنے مشیر ظفر اللہ خان کی طرح اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد وہ سب سے زیادہ عمران خان کے دباؤ میں ہیں جو ایک اور دھرنے کی سکت ضرور رکھتے ہیں ۔آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے استعفیٰ سے تحریک انصاف کو بھی امیدیں ہو چلی ہیں مگر اس کا حل نواز شریف نے عدالتی کمیشن میں ڈھونڈا ہے ۔یہ پاکستان میں کسی بھی مسئلے کو”کھوہ کھاتے” لگانے کاایک آزمودہ نسخہ ہے ۔آج تک سییکڑوں کمیشن بنے جن کی رپورٹیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کوڑے دان میں پڑی ہیں ۔
آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے استعفیٰ سے تحریک انصاف کو بھی امیدیں ہو چلی ہیں مگر اس کا حل نواز شریف نے عدالتی کمیشن میں ڈھونڈا ہے ۔یہ پاکستان میں کسی بھی مسئلے کو”کھوہ کھاتے” لگانے کاایک آزمودہ نسخہ ہے ۔
وزیر اعظم کی اولاد کی جانب سے آف شور کمپنیاں بنانا کوئی غیر قانونی عمل تو ہر گز نہیں ہے تاہم کیا وزیر اعظم پاکستان کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے کہ ٹیکس بچانے کی خاطر ان کی اولاد آف شور کمپنیوں کا سہار الے ؟ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی شریک حیات تہمینہ درانی ،جو تہمینہ کھر تو کہلائیں مگر تہمینہ شریف نہیں کہلا سکیں کیونکہ شریف خاندان نے انھیں قبول ہی نہیں کیا ۔انھوں نے اپنا غصہ یہ کہہ کر نکالا کہ ہو سکتا ہے کہ آف شور کمپنیاں ، غیر ملکی جائیداد اور اکاؤنٹس قانونی ہوں لیکن میری نظر میں یہ غیر اخلاقی ضرور ہیں‘تہمینہ کے مطابق،ان کی نظر میں غیر اخلاقی کا مطلب اپنی روح بیچنا ہے اور یہ غیر قانونی ہونے سے کہیں بڑا گناہ ہے۔
کچھ قوتیں انھیں دباؤ میں رکھنا چاہتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح زرداری کو رکھ کر انھیں ایک روز بھی چین سے حکومت نہیں کرنے دی گئی اور بعد میں اس دور کے سپائی ماسٹر نے یہ تسلیم بھی کیا ۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں افتخار عارف کے شعر کا ایک مصرہ بھی پڑھا، یہ اشعار انھوں نے بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت کی سزا پانے والوں کی یاد میں لکھے تھے
بیچ آئے سرِ قریہ زر جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اْتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
وزیر اعظم نے اشارہ دیا کہ وہ ابھی بھی آشفتہ سر ہیں اور ہر قسم کا قرض چکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پنجاب میں رینجرز کے آپریشن کے بعد فوج سے ان کے تعلقات بھی نشیب کی جانب گامزن ہیں اور اگر اس دوران خدا نہ کرے پنجاب میں دہشت گردی کی مزید وارداتیں ہوں ۔اگر ایسا ہوا تو پنجاب کی سول انتظامیہ کے اختیارات محدود اور فوجی انتظامیہ کے لا محدود ہوتے جائیں گے ۔نواز شریف تیسری بار مسند اقتدار پر ہیں ۔ان کے ارد گرد جب کہیں ہلکی سی بھی کوئی سرسراہٹ ہوتی ہے تو وہ اس کے مقام اور مقاصد کی پیشین گوئی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔
دھرنوں ،اقتصادی راہداری کا روٹ ، افغانستان کا مسئلہ ، بھارت کے ساتھ تعلقات اور اب ان کے خاندان پر بد عنوانی کے الزامات ،یہ سب وہ معاملے ہیں جن کا حدود اربعہ انھیں ازبر ہے ۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی اپنی حودو و قیود کیا ہیں اور اگر ان حدود سے انھیں رو گردانی کی تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے ۔ لیکن انھیں ایسا لگتا ہے کہ اس کے باوجود کوئی ان سے خوش نہیں ہے ۔کچھ قوتیں انھیں دباؤ میں رکھنا چاہتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح زرداری کو رکھ کر انھیں ایک روز بھی چین سے حکومت نہیں کرنے دی گئی اور بعد میں اس دور کے سپائی ماسٹر نے یہ تسلیم بھی کیا ۔ نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ چند روز پہلے بھی قوم سے خطاب میں وہ اسی دباؤ میں دیکھے گئے تھے ۔ ابھی تک وہ اپنے حواس کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں مگر ایک روز وہ بھی پھٹ پڑیں گے ۔ کوچ وقار یونس کی طرح جو کرکٹ بورڈ کے خلاف پھٹ پڑے تو ساتھ ہی اپنے گھر آسٹریلیا لوٹ گئے ۔کیا نواز شریف کے پاس بھی وقار یونس کی طرح کوئی راستہ ہے ؟
فیس بک پر تبصرے