دینی مدارس کا نصاب ونظام ۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت

1,050

دینی تعلیم کے نصاب میں اصلاح کی بات کم وبیش ڈیڑھ صدی سے ہمارے ہاں چل رہی ہے اور کم سے کم اصولی طور پر نصاب میں تبدیلی کے مسئلے پر ارباب مدارس نے جمود کا مظاہرہ نہیں کیا

ملک کے معروف غیر حکومتی ادارے پیس ایجوکیشن اینڈ ڈویلپمنٹ فاونڈیشن نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے تعاون سے وفاق المدارس العربیہ کے نصاب کے تجزیے پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کی تیاری میں مولانا مفتی محمد زاہد، خورشید احمد ندیم اور راقم الحروف نے حصہ لیا۔ یہ رپورٹ 96 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ’’درس نظامی ۔ وفاق المدارس العربیہ کے نصاب کا تنقیدی جائزہ ۔ پس منظر، تجزیہ اور سفارشات’’کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ، اپنی نوعہت کا غالباً‌ پہلا کام ہے جس میں وفاق المدارس کے موجودہ نصاب کی تاریخی اساس اور ارتقا کو تحقیقی وتجزیاتی بنیادوں پر واضح کیا گیا ہے اور موجودہ نصاب کے مندرجات کا بعض دوسرے وفاقوں کے نصاب کے ساتھ موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی وتدریسی نقطہ نظر سے اس میں پائی جانے والی خامیوں، خلاوں اور اصلاح طلب امور کی نشان دہی کی گئی ہے۔

وفاق المدارس العربیہ کا موجودہ نصاب اپنی تفصیلات اور ترجیحات کے لحاظ سے ستر اسی فی صد تک درس نظامی کے اصل نصاب سے مختلف ہو چکا ہے، اور اب اسے محض ایک تاریخی نسبت سے ہی ’’درس نظامی’’ کہا جا سکتا ہے

ایک ایسے ادارے کی طرف سے جو مدارس کے نظام کا حصہ نہیں، ایک ایسی رپورٹ کا شائع ہونا جو ماحول میں پھیلے ہوئے عامیانہ اور سطحی سوالات کے بجائے خالص تعلیمی وتدریسی نوعیت کے موضوع پر ارتکاز کرتی ہے، اس کی بات کی علامت ہے کہ ہمارے ہاں دانش ورانہ پختگی بڑھ رہی ہے اور معاشرے کے مختلف طبقوں اور اداروں کا مطالعہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ درست تناظر میں کرنے کی اہمیت وضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے۔

دینی تعلیم کے نصاب میں اصلاح کی بات کم وبیش ڈیڑھ صدی سے ہمارے ہاں چل رہی ہے اور کم سے کم اصولی طور پر نصاب میں تبدیلی کے مسئلے پر ارباب مدارس نے جمود کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مثال کے طور پر وفاق المدارس العربیہ کا موجودہ نصاب اپنی تفصیلات اور ترجیحات کے لحاظ سے ستر اسی فی صد تک درس نظامی کے اصل نصاب سے مختلف ہو چکا ہے، اور اب اسے محض ایک تاریخی نسبت سے ہی ’’درس نظامی’’ کہا جا سکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود اصلاحات کی گنجائش آج بھی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے جتنی پہلے دن تھی۔ اس کی بنیادی وجہ اصل میں نصاب کے اہداف ومقاصد کی تعیین میں زاویہ نظر کا اختلاف ہے۔ ہم نے اپنی رپورٹ میں جن اصلاح طلب پہلووں کی نشان دہی کی ہیں، وہ اس پر مبنی ہیں کہ آج کی علمی وتعلیمی ضروریات کے تناظر میں معاشرے کو کس طرح کے دینی علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہماری رائے میں نصاب میں نہ صرف مسلمانوں کی مجموعی علمی روایت اور اس کی نمایاں شاخوں کا غیر جانب دارانہ تعارفی مطالعہ شامل ہونا چاہیے، بلکہ ایسے عصری علوم اور مباحث سے بھی علماکو واقفیت ہونی چاہییے جو دور جدید کے غالب نظریہ حیات کو سمجھنے اور اس کے تناظر میں اسلام کا زاویہ نظر واضح کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

موجودہ تناظر میں بنیادی ضرورت مذہبی فکر اور نفسیات کو موضوع بنانے کی ہے، جبکہ نصاب پر گفتگو کی اہمیت ثانوی ہے، کیونکہ نصاب، سوچ کو نہیں پیدا کر رہا، بلکہ سوچ نصاب اور اس کی ترجیحات کو متعین کر رہی ہے۔

اس کے برعکس ارباب مدارس کا بنیادی مطمح نظر اپنے بزرگوں اور اکابر کی قائم کردہ تعلیمی روایت کو لے کر آگے چلنا ہے جس کے بنیادی ڈھانچے اور مزاج میں کوئی تبدیلی ان کے لیے قاٖبل قبول نہیں اور جزوی وفروعی تبدیلیاں بھی حد درجہ ہچکچکاہٹ اور تردد کے بعد بامر مجبوری قبول کی جا رہی ہیں۔ گویا داخلی طور پر نصاب کے اہداف کو ازسر نو متعین کرنے اور پھر اجتہادی زاویہ نظر سے نصاب کی تشکیل کا داعیہ ارباب مدارس میں نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے اس ضمن میں کی جانے والی اچھی سے اچھی کوششیں اور تجاویز سرد خانے میں ہی پڑی رہتی ہیں۔

چنانچہ مدارس کے نظام ونصاب میں اصلاح کے خواہش مند حلقوں کو یہ پہلو بہرحال مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہاں نقطہ نظر کا ایک جوہری اختلاف موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے اس سمت میں کوئی حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔ اس لیے اصلاحی مساعی کو اس نکتے پر زیادہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس کے ماحول میں فکری طور پر وہ تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس کی روشنی میں نصاب ونظام میں مطلوبہ اصلاحات کے لیے آمادگی پیدا ہو سکے۔ اس کے لیے موجودہ تناظر میں بنیادی ضرورت مذہبی فکر اور نفسیات کو موضوع بنانے کی ہے، جبکہ نصاب پر گفتگو کی اہمیت ثانوی ہے، کیونکہ نصاب، سوچ کو نہیں پیدا کر رہا، بلکہ سوچ نصاب اور اس کی ترجیحات کو متعین کر رہی ہے۔

اس ضمن میں ریاست کی دلچسپی کا محوری نکتہ اب تک یہ رہا ہے کہ مدارس کے نظام کے ساتھ فرقہ واریت یا مذہبی انتہا پسندی جیسے جو مسائل وابستہ ہیں، ان سے انتظامی سطح پر کیسے نمٹا جائے۔ جہاں تک مدرسے کے مجموعی کردار اور اس میں مطلوب اصلاحات کا تعلق ہے تو ارباب حکومت کو ابھی تک اس سے کوئی خاص دلچسپی پیدا نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک وفاقوں کے ساتھ رابطے اور اصلاح نصاب کے ضمن میں مذاکرات وغیرہ کا فریضہ عموماً‌ وزارت داخلہ کے ذمہ داران ہی انجام دیتے ہیں۔ وزارت تعلیم نے کبھی اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔یہ ایک المیہ ہے اور جب تک حکومتیں اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری کے طور پر قبول نہیں کرتیں، وہ اس حوالے سے کوئی مفید کردار ادا نہیں کر سکتیں۔

اگر ریاست واقعتاً‌ مدرسے کے معیار اور کردار کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے تو دینی تعلیم کے مسئلے پر قومی سطح پر ایک جامع اور سنجیدہ بحث ومباحثہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بحث ومباحثہ کی روشنی میں ایک جامع قومی پالیسی وضع کی جائےاور تیسرے مرحلے پر اس پالیسی کو رو بہ عمل کرنے کے لیے جامع قانون سازی کی جائے۔ اس حوالے سے وقتاً‌ فوقتاً‌ محض نیم دلی سے کی جانے والی حکومتی کوششیں معاملے کو درست سمت میں آگے بڑھانے اور مطلوب اصلاحات کو رو بہ عمل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...