دولتِ اسلامیہ کا نیا رخ

1,292

آئی ایس پاکستانی عسکریت پسند گروپوں میں کشش کھو رہا ہے مگر خطرہ ٹلا نہیں،یہ عالمی دہشت گرد گروپ میں تبدیل ہورہا ہے۔

برسلز میں ہونے والے دہشت گردحملوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ عسکریت پسند دولتِ اسلامیہ  (آئی ایس)عالمی دہشت گرد گروپ میں تبدیل ہورہا ہے۔اس کی ایک وجہ عراق اور شام کے علاقوں میں اس گروپ کی کمزور پڑتی گرفت بھی ہوسکتی ہے۔مگر سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ گروپ اسلامی عسکریت پسند تحریکوں میں کشش کھو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ اس کی انتہائی متشدّد فرقہ وارانہ ساکھ ہے۔آئی ایس کا، نام نہادخراسان چیپٹر بھی افغانستان اور پاکستان میں پسپا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔افغانستان میں اس کے حامیوں اور اتحادیوں کوافغان طالبان،ڈرون حملوں اور افغان سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔اسی طرح پاکستان میں وسیع نگرانی اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والوں کوایسے دہشت گرد سیلز تباہ کرنے میں بہت مدد ملی،جو ایسےِ افراد کی جانب سے قائم کئے گئے تھے

آئی ایس بطور دہشت گرد گروپ عالمی سلامتی کے لئے القاعدہ سے بڑا خطرہ ہے، اس کی وجہ کثیر انسانی وسائل اور مضبوط لاجسٹک سپورٹ ہے

جو آئی ایس سے وابستہ یا متاثر تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ گروپ اپنے انتہائی تنگ نظر خیالات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے زیادہ تر عسکریت پسند گروپوں میں کشش اور ساکھ کھورہا ہے،یہاں تک کہ دیوبندی عسکریت پسند گروپوں کوجو علاقے میں وسیع پیمانے پر عسکریت موقف کے حامل اوربنیادی ڈھانچے(انفرا اسٹرکچر) کو کنٹرول کرتے ہیں،انہیں آئی ایس کے عدل وانصاف کے پیمانے کے سبب اس سے گٹھ جوڑ کرنا مشکل لگا۔یہاں تک کہ کئی تجزیہ نگار اس گروپ کے جلد اور تیز زوال پر حیران ہیں جبکہ دوسرے اسےِ مقامی عسکریت پسند گروپ سے عالمی دہشت گرد گروپ میں تبدیل ہونے کے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
آئی ایس بطور دہشت گرد گروپ عالمی سلامتی کے لئے القاعدہ سے بڑا خطرہ ہے، اس کی وجہ کثیر انسانی وسائل اور مضبوط لاجسٹک سپورٹ ہے،خاص طور پر مغرب میں جہاں اس گروپ نے ہزاروں نوجوانوں کو ہم خیال بنالیا ہے۔آئی ایس پاکستان کے عسکریت پسند گروپوں میں کشش کھو رہا ہے مگر خطرہ اب بھی باقی ہے۔

کہ اگر آئی ایس صرف دس فیصد غیرملکی عسکریت پسندوں کو ان کے آبائی علاقوں میں بھیجے تو ممکنہ طور پروہاں انتہائی موثر دہشت گرد سیل اور مددگار نیٹ ورک کی بنیاد نظر آئے گی

دہشت گردی کے امور کے معروف تجزیہ نگار بروس ہاف مین(Bruce Hoffman)حالیہ اپنی حالیہ کتاب میں کہتے ہیں کہ اگر آئی ایس صرف دس فیصد غیرملکی عسکریت پسندوں کو ان کے آبائی علاقوں میں بھیجے تو ممکنہ طور پروہاں انتہائی موثر دہشت گرد سیل اور مددگار نیٹ ورک کی بنیاد نظر آئے گی۔ایک اور ماہر اینڈریو واٹکنز(Andrew Watkins)یقین رکھتے ہیں کہ اگرچہ آئی ایس نے ایک یونٹ کو عالمی حملوں کی منصوبہ بندی کے لئے مقرر کیا ہوا ہے تاہم خطرہ اْن سے ہوسکتا ہے جو آئی ایس سے وابستگی رکھتے ہوں اور آن لائن اس سے متاثر ہوجاتے ہیں،وہ زیادہ خطرناک  ہوسکتے ہیں ،کیونکہ وہ آئی ایس کی مرکزی قیادت کے ماتحت نہیں آتے۔ یہاں آئی ایس کی ہیت کی تبدیلی کا ایک اور پہلو بھی ہے ،مختلف علاقوں میں القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے کمزور ہوتی ہوئی آئی ایس کو، اعتماد کھو دینے والے ممبران کو متوجہ کرنے اور دہشت گردی کی مہم میں شامل کرنے کے موقع کے طور پر لے سکتے ہیں۔اس کا مطلب ہوسکتا ہے

پاکستان اور افغانستان میں صورتحال اور زیادہ پیچیدہ ہے کے اِس خطے میں آئی ایس نے دیوبندی برانڈ کے اسلامی نظریاتی فریم ورک کو چیلنج کیا ہے اور طالبان تحریک کی نظریاتی بنیادوں پر سوال اٹھایا ہے۔

کہ یہ کمزور ہوتی ہوئی دہشت گرد تحریکوں کو بھی نئی زندگی مہیا کرے، جس طرح 2014ء میں القاعدہ چیپٹر اور اتحادی مرکزی قیادت سے مطمئن نہیں تھے اور انہوں نے آئی ایس کی طرف کشش محسوس کی تھی۔اسے ایک اور تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے،ایک نظریات سے متاثرہ تحریک مختلف رجحانات اور نظریات کی نمائندگی کرنے والے دھڑوں میں تقسیم ہوسکتی ہے۔لیکن ایک مرحلے پر یہ دھڑے ایک  دوسرے کے مقابلے پر آجاتے  ہیں۔یہ جنوبی ایشیا کے تناظر میں نئی کہانی نہیں ہے جہاں عسکریت پسند تحریکیں مسلسل ارتقا کی حالت میں ہیں۔مسلمان ممالک اسےِ کسی اور کے مسلے کے طور پر نہیں لے سکتے، کیونکہ اْن کی نوجوان نسل آئی ایس سے وابستہ ہے جو کسی بھی وقت آبائی ممالک میں تشدد کی لہر کو بھڑکا سکتی ہے۔ترکی ،تیونس اور دیگر شمالی افریقی ممالک نے پہلے ہی آئی ایس سے متاثرعسکریت پسندوں کے ہاتھوں اذیت جھیلنا شروع کردی ہے۔اْسے مسلم ممالک کو پہلے ہی شدید انتباہ کے طور پر لینا چاہئے جہاں پہلے ہی فعال عسکریت پسند ڈھانچہ موجود ہے۔پاکستان اور افغانستان میں صورتحال اور زیادہ پیچیدہ ہے کے اِس خطے میں آئی ایس نے دیوبندی برانڈ کے اسلامی نظریاتی فریم ورک کو چیلنج کیا ہے اور طالبان تحریک کی نظریاتی بنیادوں پر سوال اٹھایا ہے۔آئی ایس گروپ نے طالبان گروپ پر قومیت کا لیبل لگایا ہے،اِس وجہ سےْ اس کا خیال ہے کہ طالبان،خلافت کی تحریک پر پورے نہیں اترتے۔شروع میں آئی ایس کوخطے میں عسکریت گروپوں کی جانب سے زبردست ردِ عمل ملامگراْن گروپوں کے عقائدکی درستی کے خیال اور ان کو سلفیت(Salafism) میں بدلنے کے جذبے کی وجہ سے اپنے حق میں ردِعمل برقرار نہ رکھ سکی۔آئی ایس نے دیوبندی اسلام کے خلاف کئی احکامات جاری کئے،لیکن ایک کتاب بعنوان’’رسالت فی الدیوبند‘‘(Risalatul fil Deoband)کی اشاعت آئی ایس کے خلاف اصل ناراضی کا سبب بنی۔طالبان کمانڈرزجو نئی ابھرتی ہوئی تنظیم کی طرف مائل ہوئے تھے،اپنے اقدامات پر نظرثانی شروع کردی۔وسطی ایشیا کے گروپ،حزب اسلامی اور سلفی طالبان کنڑ اور نورستان کے علاقوں میں جن کا پہلے ہی سلفی رجحانات کی طرف جھکاؤ تھا، افغانستان کے کچھ علاقوں میں آئی ایس کی قیادت پر قبضہ کرلیا۔ان گروپوں میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان شامل ہے،انہوں نے افغان طالبان کی طرف سے سخت مذاحمت کا سامنا کیا۔اس صورتحال نے کچھ وقت کے لئے آئی ایس کی پیش رفت روک دی مگر آئی ایس گروپ نے پہلے ہی خطے کے عسکریت پسندوں کے کردار کو تبدیل کردیاہے۔نوجوان طالبان کمانڈر اسلامی خلافت کے قیام میں زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں اور ان کا یہ یقین پختہ ہوتا جارہا ہے کہ وہ افغانستان پر تسلط حاصل کرسکتے ہیں۔ظاہر ہے یہ تبدیلی افغانستان میں مصالحتی عمل پر منفی اثر مرتب کرے گی،طالبان کی مرکزی قیادت اور سینئر کمانڈرز جو سیاسی عمل میں فائدہ دیکھتے ہیں انہیں اْس نوجوان طبقے کی طرف سے مذاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔جہاں تک پاکستانی طالبان گروپوں کا تعلق ہے جب وہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے اندرونی چیلنجوں کا سامنا کررہے تھے

نوجوان طالبان کمانڈر اسلامی خلافت کے قیام میں زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں اور ان کا یہ یقین پختہ ہوتا جارہا ہے کہ وہ افغانستان پر تسلط حاصل کرسکتے ہیں

،انہیں آئی ایس نے نظریاتی اور سیاسی مدد فراہم کی تھی۔جماعت الاحرار جس نے اپنا جھکاؤمشرقی وسطیٰ گروپ کی طرف ظاہر کیا اور آئی ایس کی طرز پر اپنے تنظیمی اور آپریشنل فریم ورک کو جدید خطوط پر استوار کیا۔وہ پاکستان کی سلامتی کے لئے نیا خطرہ بن کر ابھری ہے۔پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے زیادہ تر دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری اس گروپ نے قبول کی ہے۔اس گروپ نے کبھی باضابطہ طور پر آئی ایس میں شمولیت اختیار نہیں کی۔اِس نے حال ہی میں برصغیر میں القاعدہ سے گٹھ جوڑ کیا ہے،جو اس خطے میں کمزور ہوتی آئی ایس کا شاخسانہ ہے۔ اسِ کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا اور ہمارے خطے میں آئی ایس کے دن گنے جاچکے،یہ گروپ اپنی کھوئی ہوئی کشش کے دوبارہ حصول کے لئے اپنی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لے سکتا ہے۔یہ گروپ اب بھی عسکریت پسندوں اور معاشرے کے سلفی جھکاؤ والے دھڑے،چھوٹے مگر نہایت متحرک اسلامی گروپوں اور سیاسی طور پر سائبر اسپیس میں متحرک نوجوانوں کو تحریک دینے کا باعث رہے گا۔
خطرہ دور نہیں ہورہا بلکہ نیا رخ اختیار کررہا ہے۔

ترجمہ:۔ جاویدنور
بشکریہ:ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...