سعودی عرب ایران اور بھارت :پاکستان کی سفارت کاری کا امتحان

810

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر ہیں ،جہاں انھوں نے معاشی اور دفاعی شعبوں میں تعاون میں تعاون کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف معلومات کا تبادلہ اور دہشت گردی کے لئے ہونے والی فنڈنگ پر تعاون کی یاداشتوں پر بھی دستخط کئے ۔حالیہ تناظر میں سعودی عرب کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں کہ اپنی تیل کی مارکیٹ کو ایران کی دست برد سے بچانا اور مشرقِ وسطیٰ کے بڑھتے تناؤ کے تناظر میں خارجہ اور دفاعی تعلقات کو وسعت دینا ۔بھارت کے سامنے پھیلتی معیشت اور عرب ممالک میں اس کے انسانی وسائل کی کھپت کے علاوہ کئی دفاعی اور سفارتی معاملات  اسے سعودی عرب کے قریب لا رہے ہیں ۔ان معاملات میں پاکستان کے قریبی دوست ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا ہے جس سے پاکستان پر دباؤ بڑھانا بھی مقصود ہے ۔

دوسری طرف گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت اور ایران کے تعلقات اعتماد کی اعلٰی سطح تک پہنچے ہیں لیکن پاکستان اور ایران کے تعلقات اگر تناؤ کا شکار نہیں بھی رہے تو ان میں اتار چڑھاؤ ضرور آتا رہا ہے ۔مشترکہ مذہبی ، سماجی اور ثقافتی رشتوں کے با وجود دونوں ممالک کے تعلقات میں زیادہ گرم جوشی نہیں ہے ،یہاں تک کہ دو طرفہ معاشی ، تزویراتی اور دفاعی چیلنجوں میں باہمی تعاون کے وسیع امکانات بھی باہمی تعلقات کو ہموار نہیں کر سکے ۔

سعودی عرب اور ایران کی بڑھتی ہوئی مخاصمت کم کرنے میں پاکستان کی جانب سے اہم کردار ادا کرنے کی کو ششیں بارآور نہ ہو سکیں۔بھارتی جاسوس کی گرفتاری اور ایرانی علاقے میں بھارتی جاسوسوں کے نیٹ ورک کی خبروں نے اعتماد سازی کے عمل کومزید نقصان پہنچایا ہے ۔ا س تناظر میں آپ کی رائے کیا ہے ؟ پاکستان دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھ سکتا ہے ؟اور دونوں ممالک سے وابستہ اپنے معاشی اور دفاعی تعاون کو کیسے بڑھا سکتا ہے ؟

نوٹ : آپ کی رائے جامع، واضح ، با مقصد اور مختصر ہونی چاہئے۔اپنی رائے اور الفاظ کے استعمال میں انتہائی احتیاط کیجئےتاکہ کسی بھی فرد کے جذبات مجروح ہونے کا خدشہ نہ  ہو ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...