لاہور دھماکہ،سول وعسکری قیادت کے تعلقات پر گہرے اثرات

897

جنوبی ایشیا کی سب سے گنجان آباد ریاست میں جمہوریت کا مستقبل سنگین شکوک وشبہات سے دو چار ہے

لاہور میں اتوار کو ایسٹر کے روز ایک پارک میں خود کش حملہ آورنے 72افراد کو ہلاک کردیا ۔دنیا بھر نے اس واقعہ کی مذمت کی ۔جاں بحق ہونے والوں میں29 بچے بھی شامل تھے جبکہ 370افراد زخمی ہوئے جن میں سے اکثریت کا تعلق ملک کی اقلیتی عیسائی برادری سے تھا۔ تاہم یہ بات کم محسوس کی گئی کہ اس سانحہ کے پاک فوج اور سول حکومت کے تعلقات پر بھی برابر کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے جو ملک کے دل پنجاب کے مزید عدم استحکام کا بھی سبب بن رہا ہے۔ اس بحران کی بنیاد(At the heart of the crisis) دو شخصیات جنرل راحیل شریف، سربراہ پاک فوج اور سول حکومت کے وزیر اعظم نواز شریف ہیں۔جنرل راحیل اور نواز شریف کے درمیان گزشتہ 18ماہ کے دوران کمزور سیاسی روابط رہے ہیں۔فوج کی وزیر اعظم سے کچھ مشاورت کے ساتھ مجموعی طور پر پاکستان کی خارجہ اور جوہری پالیسی پرفوج کا مکمل کنٹرول ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی اور شمال میں افغان سرحدی علاقہ کا کنٹرول بھی فوج کے پاس ہے جبکہ سول حکومت معیشت کو چلاسکتی ہے اور زیادہ واضح طور پر پنجاب پر کنٹرول رکھ سکتی ہے،جو ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا حصہ ہے جس میں لاہور بھی شامل ہے۔پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی ذمہ داری فوج کی بجائے پولیس کو سونپی گئی۔27مارچ کی رات ہونے والے بم دھماکہ کے بعد یہ تعلقات ختم ہوگئے۔فوج نے تقریباًفوراً یہ اعلان کردیا کہ اس نے صوبے کی سکیورٹی کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔

۔ اب جبکہ فوج نے یک طرفہ طور پر پنجاب میں سکیوٹی کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ منتخب دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی یا کسی کو پسندیدہ قرار نہ دینے کی پالیسی پر عمل کیا جائے گا

شاید اس معاملہ نے وزیر اعظم کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کے لئے خطرناک صورتحال پیدا کردی ۔فوج نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اس بات پر زور دے کہ پنجاب میں آپریشن کے احکامات نواز شریف نہیں بلکہ براہِ راست جنرل راحیل شریف نے دیئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج سیاسی ،آئینی اورقانونی طور پر پنجاب میں داخل ہونے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی۔اس لئے ضرورت پڑنے پر حکومت فوج کو بلا سکتی ہے۔تاہم پنجاب میں گزشتہ چند روز کے دوران کئی سو گرفتاریاں ہوئیں مگر ظاہری طور پر جنرل راحیل شریف اور نواز شریف میں اس معاملے پر ملاقات یاتبادلہ خیال نہیں ہوا،جس نے غیر یقینی کو جنم دیا۔دھماکہ کے بعد ٹی وی پر لائے گئے پریشان حکومتی وزرا اور یہاں تک کے وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ فوج نے پنجاب میں آپریشن شروع کردیا

پنجاب میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً ساٹھ اسلامی انتہا پسند گروپ اور 20ہزار سے زائد مدارس اور مذہبی تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے کچھ عسکریت پسند اور انتہا پسند نظریات کی پیداوار کا سبب بن رہے ہیں

۔ایسا ملک جوانتہا پسندوں سے نبردآزما ہے وہاں واضح طور پر اس حوالے سے کوئی مشترکہ حکمت عملی اور ہم آہنگی نہیں تھی۔نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعظم اورآرمی چیف کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور ان تعلقات کا ڈرامائی اختتام ہوا جنہیں پاکستانی سول عسکری تعلقات کہتے ہیں۔ماضی میں 1958ء سے اسی طرح کے حالات ملک کو چار مرتبہ مارشل لا کی طرف لے جاچکے ہیں۔ وقت بتائے گا کہ حالیہ بحران کس طرح انسداد دہشت گردی کی پالیسی کے مستقبل پر اثرانداز ہوگااوروسطی و جنوبی ایشیا میں جمہوریت پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔لاہور دھماکہ کے واقعہ سے قبل تک وزیر اعظم، جنرل راحیل شریف کو پنجاب میں سکیورٹی سنبھالنے کی کوششوں سے باز رکھنے میں کامیاب رہے۔اس میں مئی 2015ء میں جنرل راحیل شریف کی براہِ راست درخواست بھی شامل ہے۔پاک فوج نے گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران پاکستانی طالبان اور کراچی میں سرگرم متعدد طالبان گروہوں ،خیبر پختونخوا اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی پٹی میں موجود طالبان کو کچلنے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کئے۔ اس کے باوجود پنجاب میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً ساٹھ اسلامی انتہا پسند گروپ اور 20ہزار سے زائد مدارس اور مذہبی تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے کچھ عسکریت پسند اور انتہا پسند نظریات کی پیداوار کا سبب بن رہے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کا مرکز بن گئے ہیں۔

لشکر طیبہ کے بہت سے عسکریت پسند افغانستان میں سرعام طالبان کے ہمراہ لڑرہے ہیں یا ازبکستان اور تاجکستان کے انتہا پسندگروپوں کی ان کے ملکوں میں دوبارہ قدم جمانے میں مدد کررہے ہیں

لشکر طیبہ کے بہت سے عسکریت پسند افغانستان میں سرعام طالبان کے ہمراہ لڑرہے ہیں یا ازبکستان اور تاجکستان کے انتہا پسندگروپوں کی ان کے ملکوں میں دوبارہ قدم جمانے میں مدد کررہے ہیں
1980ء سے پاک فوج کی انٹیلی جنس سروسز نے بہت سے پاکستانی انتہا پسند گروپوں کو اسپانسر کیا اور انہیں مقبوضہ کشمیر میں لڑنے یا دوسرے بھارتی اہداف کو نشانہ بنانے کی لئے تربیت دی، اس طرح کی عسکری حمایت اب زیادہ تر ختم ہوگئی ہے۔لیکن پاکستان سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے جنرل راحیل شریف کے عزم کا اصل امتحان ہمیشہ سے پنجاب میں ہے،کیا اب فوج تیار ہے کہ اپنے سابق انتہا پسند اتحادیوں کی طرف جائے اور انہیں تباہ کردے۔یہ انتہائی پیچیدہ صورتحال ہے۔پنجاب میں سب سے مہلک گروپوں میں سے کئی کوشش کررہے ہیں کہ اب حکومت کا تختہ الٹ دیں ان میں جماعت الاحرار  بھی شامل ہے جو لاہور پارک دھماکہ میں ملوث ہے۔جماعت الاحرار واضح فرقہ وارانہ تنظیم ہے جس نے خاص طور پر فوج اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا ہے مگر پنجاب نے بھی درجنوں بھارت مخالف انتہا پسند گروپوں کی میزبانی کی جن کی ماضی میں فوج نے حمایت کی تھی۔ان میں اعلیٰ تربیت یافتہ اور بھاری اسلحہ سے لیس لشکر طیبہ شامل ہے جو 2008ء کے ممبئی حملہ کی ذمہ دار تھی۔جسے اقوام متحدہ اور امریکہ نے بھی دہشت گرد قرار دیا 11 ۔ستمبر کے حملوں کے پندرہ برس بعد لشکر طیبہ ریاستی اداروں اور فوج کی مدد سے اسلامی امدادی ادارے میں تبدیل ہوگئی، اگر چہ لشکر طیبہ ممبئی حملوں کے بعد بھی اپنے عسکری ونگ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ،جب فوج نے لشکر طیبہ اور دوسرے گروپوں کو انڈیا میں کارروائیوں سے روک دیا۔لشکر طیبہ کے بہت سے عسکریت پسند افغانستان میں سرعام طالبان کے ہمراہ لڑرہے ہیں یا ازبکستان اور تاجکستان کے انتہا پسندگروپوں کی ان کے ملکوں میں دوبارہ قدم جمانے میں مدد کررہے ہیں اس سرگرمی کی روشنی میں فوج جانتی ہے کہ وہ ملک میں امن نہیں لاسکتی یا سرحدوں کو محفوظ اور بھارت کے ساتھ امن قائم نہیں کرسکتی جب تک پنجاب سے تعلق رکھنے والی دہشت گردی ختم نہیں ہوتی ۔عسکریت پسندی کو پھلنے پھولنے کی اجازت دینے پر وہ شدید بین الاقوامی دباو میں بھی آگئی ہے۔بہت سے پاکستان کے بڑھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی حفاظت کے بارے میں خاص طور پر فکر مند ہیں۔ اب جبکہ فوج نے یک طرفہ طور پر پنجاب میں سکیوٹی کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ منتخب دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی یا کسی کو پسندیدہ قرار نہ دینے کی پالیسی پر عمل کیا جائے گا جس کا جنرل راحیل شریف نے وعدہ کیا تھا۔ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ فوج میں موجود نصف ملین افرادی قوت کا تعلق پنجاب سے ہے۔جرنیلوں کو اس بات کا احساس ہے کہ پنجاب میں انتہا پسندوں کی کارروائیوں سے ان کے سپاہی بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف کے لئے بھی پنجاب اتنا ہی اہم ہے ،1980ء سے جب نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف پہلی مرتبہ فوج کی مدد سے اقتدار میں آئے اور بعد میں نواز شریف نے تین بار عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔شریف برادران کو پنجاب میں سیاسی برتری حاصل ہوئی وہاں بڑے پیمانے پر سیاسی بدعنوانی ہے،شہباز شریف اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

پنجاب میں سب سے مہلک گروپوں میں سے کئی کوشش کررہے ہیں کہ اب حکومت کا تختہ الٹ دیں ان میں جماعت الاحرار  بھی شامل ہے جو لاہور پارک دھماکہ میں ملوث ہے۔جماعت الاحرار واضح فرقہ وارانہ تنظیم ہے جس نے خاص طور پر فوج اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا ہے

تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف نے اپنے مواقعوں کو ضائع کیا۔ انہوں نے خود کو مایوسانہ اور نااہل رہنما ثابت کیا،نہ تو وہ اتنے مضبوط تھے کہ وہ ضروری اصلاحات کرتے اور نہ ہی ملک کے منظم اور مضبوط ادارے فوج کے ساتھ اچھی طرح معاملات چلا سکے۔ مملکت کے روز مرہ امور کابینہ ،پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کی بجائے ان کے خاندان کے قریبی افراد چلاتے ہیں۔ان کا انتہا پسند گروپوں کے باے میں نرم رویہ ہے،اور کچھ کے ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ سے قریبی تعلقات ہیں۔ظاہری طور پر انہوں نے ان گروپوں کو قائل کیا کہ وہ پنجاب میں حملے نہ کریں اب یہ پالیسی واضح طور پرناکام ہوگئی ہے۔دریں اثنا ملک کے دیگر تین صوبے جن پر اپوزیشن جماعتوں کی حکومت ہے ، وہ پنجاب پر حکومت کی حد سے زیادہ توجہ کی وجہ سے برداشت کھورہے ہیں۔حالیہ دنوں میں پاک فوج اور حکومت کے درمیان مختلف امورپر تناو بڑھ رہا ہے جن میں پاکستان میں ایران کے ساتھ حالیہ سفارت کاری بھی شامل ہے۔لاہور بم دھماکہ کے حالیہ واقعہ کے دوران فوج نے انکشاف کیا کہ انہوں نے بھارتی جاسوس پکڑا ہے جو بلوچستان میں عدم استحکام کے لئے کام کررہا تھا۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا کہنا تھا کہ وہ بھارتی بحریہ کا ریٹائرڈ افسر ہے اور وہ کئی برس سے ایران میں رہ رہا تھا،جہاں سے وہ پاکستان آیا۔وقت بدتر نہیں ہوسکتا تھا۔ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے پہلے دورے کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف سے ایرانی تیل، گیس اور بجلی کے معاہدوں پر مزاکرات کررہے تھے۔جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ ایرانی حکام سے ملاقاتوں میں انہوں نے مبینہ طور پر بھارتی جاسوسوں کی میزبانی کرنے پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔اس دوران انہوں نے جاسوس کے پکڑے جانے کا اعلان کیا۔ ایرانی حکام اس بات پر غصہ سے چلے گئے(اگرچہ صدر روحانی نے اس بات کی تردید کی تھی) جبکہ پاکستانی وزیر اعظم اس معاملے پر دوبارہ بڑی حد تک بے بس دکھائی دیئے۔یہ بہت غیر یقینی صورتحال ہے جومعلوم نہیں کس طرح ختم ہوگئی۔ممکن ہے کہ فوج کے پاس جو پہلے ہی سے جو اختیارات ہیں وہ اس سے مطمئن ہواور کسی بھرپور فوجی بغاوت کی ضرورت محسوس نہ کرے۔اس کا مطلب ہے کہ فوج مختصر اور تیز کریک ڈاون کرے اور پھر صوبے سے فورسز کو واپس بلا لے۔جنوبی ایشیا کی سب سے گنجان آباد ریاست میں جمہوریت کا مستقبل سنگین شکوک وشبہات سے دو چار ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...