روس کی شام میں مداخلت اور جزوی واپسی اسباب،مقاصد اور نتائج
شام میں مداخلت درحقیقت امریکا اور نیٹو کے لیے پیغام ہے کہ روسی ریچھ اب بھی تازہ دم ہے اور اپنے برفانی غار سے نکل آیا ہے۔
روس کی سیاست پر نظر رکھنے اور شام کی روس کے لیےجغرافیائی اہمیت کا ادراک رکھنے والوں کے لیےروس کی چار ماہ قبل 30 ستمبر2015 کوشام میں مداخلت کوئی اچنبھے کی بات نہیں،روس باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ خطے اور عالمی منظرنامہ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے ،اور اپنے لیے بہت سے امکانات و اہداف کو سامنے رکھ کر میدان میں اترا ہے ،روسی سیاسی پنڈتوں کے نزدیک درج ذیل مقاصد کے حصول کے لیے روس نے شام میں مداخلت کی۔
1 :عوامی بغاوتوں کے ذریعہ نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کو روکنا، روس کی نظر میں عراق میں صدام حکومت اور لیبیا میں قذافی حکومت کو گرانے میں درحقیقت امریکی ہاتھ ہے،روس امریکا کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ کسی بھی ملک میں مداخلت کر کے اس کا نظام گرانا صرف امریکہ کی پسند و ناپسند سے نہیں ہو سکتا ۔
2 : داعش جیسی دہشتگرد تنظیموں کی سرکوبی،روس کے نزدیک وہ تمام تنظیمیں دہشتگرد ہیں جو اسدی نظام سے برسرپیکار ہیں،داعش میں تو سینکڑوں روسی بھی شامل ہو چکے ہیں جو روس کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور جنہیں امریکا اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتا ہے اس لیے اس تنظیم کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا جائے،یہ درست ہے کہ روس نے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ روس کے حملوں کا رخ داعش سے زیادہ شامی اپوزیشن اور نہتے شہری ہوتے تھے جو کہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔
3: سوویت یونین کے سقوط کے بعد روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تھا اور روس کی داخلی حالت تباہ کن ہو گئی تھی، ولادی میر پوٹن نے آکر روس کو استحکام بخشا اور دوبارہ ایک عظیم قوت کے طور پر اجاگر کیا،2014 میں جزیرہ نما قرم کو روس میں شامل کرنا، اس کے بعدیوکرائن اور پھر شام میں مداخلت درحقیقت امریکا اور نیٹو کے لیے پیغام ہے کہ روسی ریچھ اب بھی تازہ دم ہے اور اپنے برفانی غار سے نکل آیا ہے۔
4 : شام میں مداخلت سے روس کو مشرق وسطی میں پاؤں رکھنے کے لیے جگہ مل گئی جس کے ذریعہ وہ بحر متوسط کے گرم پانیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل ،لبنان،عراق،اردن اور ترکی کی سرحدوں پر بھی نظر رکھ سکتا ہے۔
سوویت یونین کے بعد روس کی کسی بھی دوسرے ملک میں ایک ہی عسکری بیس تھی اور وہ تھا شام،جس کا دفاع کرنا اور امریکا کے سامنے اپنے آپ کو خطے کی بڑی طاقت کے طور پر پیش کرنا ضروری تھا۔جس میں روس کو کامیابی ملی اور روس ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آیا،شام میں جنگ بندی کے لیے حالیہ انٹرنیشنل کانفرنسوں میں بھی روس کا کردار امریکا سے کہیں بڑھ کر تھا۔
5 : شام کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتحال کو کنٹرول میں لانا،یہ مقصد روس سے زیادہ شام کا تھا جو کہ حاصل نہیں ہو سکا،بلکہ روس کی آمد کے بعد شام کی معیشت مزید ابتری کا شکار ہوئی،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 30 ستمبر2015 کو جب روس نے شام میں عسکری کاروائیاں شروع کیں تو شامی لیرہ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 330 لیرہ تھی جو کہ دو ماہ بعد نومبر کے آخر میں 390لیرہ تک پہنچ گئی تھی،2016 میں لیرہ کی قیمت اوربھی تیزی سے گری اور15 مارچ کو روسی فوج کے انخلاء کے دن460 لیرہ تک پہنچ گئی ۔
6 : روس کا ایک مقصد اپنی جنگی مہارت کو پرکھنا بھی تھا،یہ پہلا موقع تھا کہ روسی فضائیہ اپنی سرزمین سے باہرکسی جنگ میں شریک ہوئی،روس کو شامی عوام پر اپنے جدید اسلحہ کا عملی تجربہ کرنے کا موقع بھی ملا۔
اسی پیراڈئم میں روس کی ایران اور چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے،روس کے سیاسی حلقوں نے بھی کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ایران کے بغیر روس کی شام میں مداخلت ممکن نہیں تھی،دوسری طرف روس اور چین کے درمیان طے پانے والے شنگھائی معاہدے کا مشترکہ مقصد بھی نیٹو اورمغرب کا مقابلہ کرنا ہے،اسی ضمن میں روسی بحریہ اور شامی بحریہ کی بحر متوسط میں جنگی مشقیں بھی عمل میں آئیں۔روسی مفکر الیکژینڈر ڈوگین کے مطابق شامی حکومت کو سہارا دینا روس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ شام کے سقوط کا مطلب یہ ہو گا کہ ایران کے سقوط کا مرحلہ شروع ہو گیا جس سے نیٹو روس کی گردن اور چین کے کندھے پر پہنچ جائے گا۔
روس کا ایک اور اہم مقصد ترکی کو شامی اپوزیشن کی حمایت سے دور رکھنا بھی تھا،کیونکہ یہ ترکی ہی تھا جس کی سپورٹ نے اسدی فوج کو نڈھال کر دیا تھا اور قریب تھا کہ شامی فوج سرنڈر کر دے اور مذاکرات پر آمادہ ہو جائے،ایسی صورت میں شامی حکومت ایک کمزور فریق کی حیثیت سے سامنے آتی اور نتیجہ بھی اس کے خلاف جاتا،عین اسی وقت موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے روسی فوج میدان میں آگئی،جس نے ایک طرف ترکی کی حمایت یافتہ قوتوں کو نشانہ بنایا تو دوسری طرف ترکی کو دفاعی پوزیشن پر لانے کے لیے ترک سرحد کے قریب شامی کردوں کو بھڑکایا اور انہیں اسلحہ سے لیس کر کے خود ان کی فضائی نگرانی شروع کر دی، ترکی نے زچ ہو کر تنگ آمد بہ جنگ آمد کا مصداق روسی طیارے کو مار گرایا جس کا ترکی پر منفی اثر پڑا، ترکی جوکہ نیٹو میں ایک مستقل حیثیت رکھتا تھا اسے دوبارہ امریکا اور نیٹو کی چھتری تلے پناہ لینی پڑی،اور پھر ترکی روسی فضائیہ کی زیر نگرانی بڑھتی ہوئی افواج کے لیے خاطر خواہ رکاوٹ نہیں پیدا کر سکا۔
روس کے لیے ان مقاصد کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ شام کے میدان میں کچھ اور کھلاڑی بھی ہیں جو روس کے لیے شام کےتر نوالہ بننے میں رکاوٹ ہیں،خلیجی ممالک، امریکہ اور ترکی کی بھرپور کوشش ہے کہ روس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے،یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے تاحال کوئی اقدام نہیں اٹھایا تا کہ روس اچھی طرح جنگ میں پھنس جائے،ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شامی اپوزیشن میں ہے اس وقت کوئی گروپ بھی امریکا کے لیے قابل اعتماد نہیں ہے تاہم ترکی سعودیہ کے ساتھ مل کر شام میں کودنے کے لیے پر تول رہا ہے،
روس امریکا کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ کسی بھی ملک میں مداخلت کر کے اس کا نظام گرانا صرف امریکہ کی پسند و ناپسند سے نہیں ہو سکتا
مذکورہ بالاعوامل،روسی عوام کے متوقع احتجاج اور قومی خزانےپر بڑھتے ہوئے بوجھ کے پیش نظر روس نے مزید نقصان سمیٹنے سے قبل ہی فوج کے اہم جزو کی واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔
شامی عوام کی پرامن احتجاجی تحریک خانہ جنگی میں تبدیل ہو نے کے بعد خطے کی جنگ ہوتی ہوئی اب عالمی جنگ میں بدلتی جارہی ہے ،شام کو استعماری قوتوں کے عزائم کا نشانہ بننے اور اسے تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ شام کے تمام سٹیک ہولڈرز مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور شامی عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کریں،عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے شام کو ایندھن بننے سے بچائیں اور شام کی اکثریتی عوام کے مطابق انہیں ان کا حق دیں،اس لیے کہ شام نہ امریکہ و ترکی کا ہے اور نہ ہی روس و ایران کا،
شام شامیوں کا ہے
فیس بک پر تبصرے