بلوچستان میں ریل گاڑی کا انوکھا سفر
ایک مٹی سے اٹا بینر کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا جس پر تحریر تھا ’’پر سکون کراچی‘‘۔ یہ بینر اس غیر منافع بخش تنظیم سے متعلق تھا جو 118 برس پرانے اسٹیشن کی عمارت کی بحالی میں مصروف ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے اور مسافروں کا سمندر، پر شور پلیٹ فارم پر رواں دواں تھا۔ سور ج کی کرنیں 19ویں صدی کی عمارت کی چھت سے چھن چھن کر اندر آرہی تھیں۔ ابھی اس عمارت کی شان وشوکت کا تصور ہی کررہے ہوتے ہیں کہ پان کی پیک سے بھری دیواروں کو د یکھنے والا ماضی سے حال میں آجاتا ہے۔ 70 سالہ قلی خان زادہ پول سیل (Polseel) سے زیادہ محکمہ ریلوے کے مسائل سے کون آگاہ ہے۔ جس نے 1969ء میں اس اسٹیشن پربطور قلی کام شروع کیا۔ اس کے گلے میں ’لائف ٹائم اچیومنٹ‘ میڈل تھا جو اسے اُس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے دیا تھا، خان زادہ پولیسیل کا کہنا تھا کہ محکمہ ریلوے اب درست سمت میں گامزن ہے۔ تاہم اس کی یہ بات کسی حد تک درست ثابت ہوئی کہ کوئٹہ جانے کے لئے بولان میل شام 6:20 پر اسٹیشن آئے گی۔ بولان میل کوئٹہ اور کراچی کے درمیان واحد ریل لنک ہے۔
یہ چھوٹی ٹرین ہے جس میں صرف اکانومی کلاس اور297مسافروں کی گنجائش ہے۔ ریل کی بوگیوں کے اندر آمنے سامنے نصب دو دو نشستوں کی قطار جبکہ دوسری جانب آمنے سامنے دو دو بڑی نشستیں ہیں جن پر چھ مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اہل خانہ کے ہمراہ سفرکرنے والے بعض مسافروں نے بڑی نشستوں کے داخلی راستے پر بستر کی چادر باندھی ہوتی ہے، جسے وہ بطور پردہ پرائیویسی بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تمام عمر اور سائز کے مسافر ان نشستوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں سیٹ نہیں ملتی وہ مسافروں کے گزرنے کے راستوں کے فرش، دروازوں اور یہاں تک کے بیت الخلا کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بیت الخلا کے باہر لکھا ہے کہ ’’مسافر پانی ضائع نہ کریں‘‘۔ کسی نے آگے لکھ دیا ’’کیسا پانی؟‘‘۔ وہ مسافر جو اس ٹرین پر اکثر سفر کرتے ہیں ہمراہ شال اور کمبل بھی لائے ،جب کراچی سے ٹرین چلی تو درجہ حرارت 20سینٹی گریڈ سے کچھ زیادہ تھا اس لئے شال اور کمبل اضافی سامان لگ رہے تھے تاہم جلد ہی یہ زیر استعمال تھے۔ رات ہوتے ہی ٹرین کی بوگی میں درجہ حرارت بڑی تیزی سے کم ہوگیا مگر بوگی کی اکثرکھڑکیوں نے بند ہونے سے انکار کردیا۔ ٹرین کے ہیٹنگ سسٹم کا بھی کیا ہی کہنا، جب بولان میل کوئٹہ پہنچتی ہے تو درجہ حرارت نقطہ انجماد سے تین درجے گرجاتا ہے۔
کراچی سے ٹرین روانہ ہوئی تو اس کے پہیوں کے شور میں شام کی آذان کی آواز مدہم پڑرہی تھی۔ جب مسافر کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہیں توڈوبتے سورج کی آخری کرنوں کے ساتھ پر ہجوم شہر کا منظر بنجر زمین میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
سید نواز علی شاہ نے کمپارٹمنٹ کی مدہم روشنی میں ٹارچ جلاکر ٹکٹوں کی جانچ کی اس کا موبائل فون مسلسل بج رہا تھا۔ سندھی بولتے ہوئے اس نے کال کرنے والے کو جواب دیا۔ ’’جی سائین فکر نہ کریں ،آپ کے مہمان ہمارے مہمان ہیں،بس یہ بتائیں وہ کس اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہوں گے۔‘‘
وہ موبائل فون پر موجود شخص کو ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ بہت مفید آدمی۔ کون جانتا ہے کہ یہ پیشہ ور محسن ہے یا سیاسی سرپرست۔
وسطی سندھ کے علاقے ٹنڈو آدم خان میں غربت میں آنکھ کھولنے والے سید نواز علی شاہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ مزدور کے طور پر بھی کام کیا، انہوں نے 1990ء میں محکمہ ریلوے میں ملازمت اختیار کی اور 2003ء میں ترقی کرکے گارڈ بن گئے۔ نواز علی نے فخر سے بتایا کہ وہ ریلوے ٹکٹ پر تحریر انگریزی عبارت پڑھ سکتا ہے۔ ’’آپ ساری معلومات اردو میں پڑھ سکتے ہیں مگر میں اسے بغیر کسی پریشانی کے انگریزی میں بھی پڑھ سکتا ہوں‘‘، انہوں نے بتایا کہ یہ صلاحیت بہت کم گارڈز میں پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بغیر کسی سفارش کے اس پوسٹ پر آئے۔
جب بولان میل رات 9بجے کوٹری جنکشن پر پہنچی تو منظور علی نے ٹرین کے انجن روم تک جانے کا راستہ بنایا، جس نے یہاں سے آگے تک ٹرین چلانی تھی کراچی سے کوئٹہ تک 21گھنٹے کے سفر میں چار مرتبہ ڈرائیور تبدیل ہوتے ہیں اور ان کی شفٹ ڈرامائی طور پر تین اور نو گھنٹوں کے درمیان تبدیل ہوتی ہے۔ٹرین نے تین مرتبہ وسل بجا کر سگنل دیا کہ منظور علی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے، ٹرین آہستہ آہستہ چلنا شروع کرتی ہے اور رفتار بڑھتی جاتی ہے، پہیوں سے آنے والی ’کلک آکلیک‘ آواز ردھم پکڑ لیتی ہے جس سے بہت سے مسافر سو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے بولان میل خوابیدہ جھیلوں، صحراوں اور جنوبی سندھ کے پہاڑوں میں راستہ بناتی ہے۔ ٹرین کے اندر ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے اور باہر سے صرف ایک ہی آواز آرہی ہوتی ہے۔’کلک آ،کلیک‘۔
ٹرین کی کھڑکیوں سے باہر صرف گہری تاریکی دکھائی دیتی ہے اور پھر ایک ہی روشن شے نظر آتی ہے جو سہون شریف میں حضرت لال شہباز قلندر کا مزار ہے۔ جب ٹرین اسٹیشن پر رکتی ہے تو بھی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں، آدمی کو حیرانی ہوتی ہے کہ رات کے اس پہر میں مسافر اتر کر کہاں جاتے ہیں اور آنے والے مسافر کس طرح تاریکی میں اسٹیشن آئے ہیں۔ ریل پانچ بجے لاڑکانہ پہنچتی ہے تو صبح کے وقت اسٹیشن پر مسافروں سے زیادہ خوانچہ فروشوں کا رش ہوتا ہے۔
اور پھر چند گھنٹوں بعد ٹرین جیکب آباد سے آگے بلوچستان میں داخل ہوگئی۔ مسافر جاگے تو وہاں کچھ نئے ہمراہیوں کو موجود پایا، جنہوں نے وردیاں پہن رکھی تھیں اور ہتھیاروں سے لیس تھے۔ ہر ڈبے میں فرنٹئیرکور کے دو اہلکار تعینات تھے۔ مسافروں کو دروازوں میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی اور دروازے بند کردیئے گئے تھے، ریل کے ڈبوں میں بے چینی کی فضا تھی۔ جب ایک میگزین کے فوٹو گرافر نے تصویر لینے کی کوشش کی تو اسے سختی سے منع کردیا گیا اور کہا گیا کہ انہیں اس کے لئے ایف سی ہیڈکوارٹر سے اجازت لینا ہوگی۔ بلوچستا ن میں ریلوے اسٹیشن بھی مختلف دکھائی دے رہے تھے اور کئی اسٹیشن کی عمارتوں پر اسپرے سے ایف سی لکھا ہوا تھا۔
ٹرین کئی جگہ رکی مگر صرف شفٹ تبدیل کرنے والے ایف سی کے اہلکاروں کو اترنے کی اجازت تھی، اگر مسافروں کو اترنا ہوتا تو اس کے لئے اجازت کی ضرورت تھی مگر اجازت کون دیتا کچھ معلوم نہ تھا۔سبی جنکشن بلوچستان میں بولان میل کا پہلا بڑا اسٹیشن ہے جہاں مسافر، کھانے پینے کی اشیا کی خریداری، نماز اور دیگر ضروریات کے لئے اتر سکتے تھے۔اسٹیشن پراشیا خورونوش فروخت کرنے والے بوگیوں میں داخل ہوگئے اور نیم بیدار مسافروں کو اونچی آوازوں میں متوجہ کرنے لگے۔ ایک چائے فروش اکبر خان نے ترنم کے ساتھ صدا لگائی:
’’یہ کشتی ڈوب جائے گی کنارہ نہیں ملے گا
اکبر چلا گیا تو چائے دوبارہ نہیں ملے گا‘‘
سبی سے روانہ ہونے سے پہلے تین پولیس والے سراغ رساں کتے کہ ہمراہ ڈبے میں داخل ہوئے اور مسافروں کی تلاشی لی۔ بولان میل بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان سے لہراتی ہوئی گزرتی ہے۔ اب چڑھائی شروع ہوجاتی ہے۔ اس لئے ٹرین میں دو انجن لگائے جاتے ہیں، پہلا آگے اور دوسرا پیچھے۔
اس کے باوجود ٹرین سست رفتاری سے چلتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ آب گم اسٹیشن میں داخل ہوتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں حادثہ کا شکار ہونے والی ٹرین کی باقیات اب تک وہاں پڑی ہیں، اس حادثہ میں کم از کم 19افراد جاں بحق اور 100سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جمال الدین برسوں سے اس روٹ پر سفر کررہا ہے، جب اس سے پوچھا گیا کہ محکمہ ریلوے میں کیا تبدیلی آئی تو اس نے افسردگی سے کہا کہ ’کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ اس نے مزیدکہا کہ ’یہ انجن اور کوچز دہائیوں سے زیر استعمال ہیں یہ کیسے درست کام کرسکتی ہیں۔‘
کوئٹہ پہنچنے سے قبل ٹرین کئی سرنگوں سے گزری۔ ایک مسافر گل زداد ((Gul Zadad حیران تھا کہ ’’اگر برطانوی حکومت پہاڑوں کے درمیان سرنگیں اور راستے نہ بناتی تو کوئٹہ میں بھی کوئی اسٹیشن نہ ہوتا‘‘ برطانیہ نے اس علاقے میں جو دوسری چیز تعمیر کی وہ مچھ جیل ہے۔ ٹرین تقریبا دو بجے کوئٹہ کے نواحی علاقے میں داخل ہوگئی۔ پولیس اہلکارنے مسافروں کو ہدایت کی کہ وہ ٹرین کی کھڑکیاں بند کردیں۔ اس نے کہا کہ ’’یہ غیر محفوظ علاقہ ہے یہاں کھڑکیاں بند ہونی چاہئیں، کچھ شرپسند ٹرین پر پتھراو کرتے ہیں۔‘‘ بعض مسافروں نے تمسخر اڑا یا کہ کچھ نہیں ہوگا۔ ایک مسافرجمال الدین نے اپنے پوتے کو یہ کہتے ہوئے کھڑکی بند کرنے کی ہدایت کی کہ ہم نے غیر محتاط رویہ کی وجہ سے چند برسوں میں بہت کچھ کھودیا ہے۔
بشکریہ: ہیرلڈ، ترجمہ:جاوید نور
فیس بک پر تبصرے