لیاری آج بھی اپنی تلاش میں ہے
بلوچوں کی قدیم آبادی جو کبھی سماجی ہم آہنگی کی مثال تھی آج بد حال ہے ۔
انگریزی سے ترجمہ :جاوید نور
غلام رسول کلمتی،المعروف ملا کلمتی ۔مصنف اور بلوچی زبان کے شاعر جو کراچی کی سید ہاشمی لائبریری ملیر میں بلوچی ادب کے نگران کے طور پر کام کرتے ہیں۔وہ ایک اردو کتاب ،،کراچی۔قدامت ،واقعات وروایات،، کے مصنف بھی ہیں اور بلوچ قبائل کی بکھری ہوئی بستیوں کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ جن میں زیادہ تر ماہی گیر ،سندھ و بلوچستان کی ساحلی پٹی اور دریائے لیاری کے کنارے آباد مویشیوں کے بیوپاری شامل ہیں۔ان میں سے کچھ بستیاں سیکڑوں برس قبل وہاں قائم ہوئیں جہاں ان دنوں کراچی واقع ہے ،مگر جب ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ تعمیر کی گئی کھاڑیوں(گودی) کو صدیوں تک تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔جب تک کہ برطانوی راج کی جانب سے یہاں ترقی یافتہ شہر کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔کلمتی کہتے ہیں کہ برطانوی راج سے قبل یہ بستیاں کبھی باقاعدہ شہر کے طور پر ترقی نہ کرسکیں جس کی وجہ یہ تھی کہ سندھی اور بلوچ حکمرانوں کو وہاں معاشی فوائددکھائی دے رہے تھے اور جن کے مفادات مقامی قبائلی سرداروں پر نظر رکھنے اورحکام کے ذریعہ مقامی افراد سے مختلف قسم کے محاصل کی وصولی تک محدود تھے۔
جب برطانوی حکومت نے یہاں قبضہ کیا تو انہوں نے تزویراتی ضروریات کے لئے علاقہ کے ساحل اور کھاڑیوں(گودی) کو ترقی دی اور بندرگاہ بنائی۔فوجی یونٹس بھی یہاں تعینات کئے گئے کیونکہ وہاں ہمیشہ فرانسیسی اور پرتگالی فورسز کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا ۔وہاں کی بستیوں میں سے ایک نئے تعمیر کئے گئے شہر کا نام تھا”کوراچی”(Kurrachee)،جو بعد میں کراچی بن گیا۔ کلمتی نے نام کے ماخذ سے متعلق سکندر اعظم کی فتح سے برطانیہ کی آمد تک مختلف حوالے دیئے۔لیاری کا علاقہ لیاری ندی کے کنارے واقع ابتدائی بستیوں میں سے ہے جو کراچی کا لازمی حصہ بن گیا۔ ماضی میں لیاری بلوچ اکثریتی علاقہ تھا ۔ بندرگاہ ، کاروبار اور تجارتی مراکز کی ترقی کی وجہ سے دوسری کمیونٹیز کے لوگ چھوٹے بڑے تاجروں کے ساتھ ساتھ پنجاب،سندھ اور خیبرپختونخوا کے مزدور بھی یہاں آباد ہوگئے۔تاہم اب بھی اس علاقے میں بلوچوں کی غالب آبادی ہے۔ایران کے بلوچ اکثریتی صوبے میں سیاسی بحران اور شاہ ایران کی افواج کے جبر وستم کے سبب بھی لوگ وہاں سے ہجرات کرکے آگئے۔ لیاری ہجرت کرنے والے ان بہت سے خاندانوں کی منزل بن گیا ۔بہت سے بلوچوں کی آمد کا نتیجہ یہ نکلا کہ لیاری ان کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کا نمایاں شہری مرکز بن گیا۔جوبلوچی زبان وادب کے فروغ اور بلوچی اسکرپٹ کی ترقی کا باعث بنا۔اسی سبب مصنف اور ماہر امور بشریات ڈاکٹر فیروزاحمد نے بلوچ نسل شیدی سے متعلق اپنے مضمون میں اسے”ہارلم آف کراچی “(Harlem of Karachi)کا نام دیا۔ ڈاکٹر فیروز کہتے ہیں کہ لیاری کی فضا ء بلوچی زبان وادب کی ترقی ،اس کے اسکرپٹ اور جدید سیاسی خیالات کی تشکیل کے لئے سازگار تھی ۔یہ لیاری کے اثر ات تھے جو بلوچستان تک پھیل گئے اور اس انتہائی تقسیم شدہ قبائلی معاشرے میں قوم پرست شورش کی نظریاتی بنیاد فراہم کی۔
کراچی میں ایوب خان کے دور کی یہ پہچان تھی کہ جو کوئی بھی لوگوں کو کنٹرول کرلیتا قطع نظر کہ وہ اس کے لئے کون سا طریقہ استعمال کرتا ،لیڈر بن جاتا جبکہ وہاں لوٹ مار کا بازاربھی گرم ہوگیا تھا
واجہ غلام محمد نور الدین نے 1930ء میں بلوچ لیگ کے نام سے لیاری میں ایک سیاسی تنظیم قائم کی جس نے بلوچ نوجوانوں کو پلیٹ فارم فراہم کیا۔ممتاز بلوچ سیاسی رہنما میر غوث بخش بزنجو ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے بلوچ لیگ سے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
ایوب خان کے دور میں لیاری میں تجارتی مرکزسے ملحقہ اراضی کی قیمت کی وجہ سے حکام نے لیاری کی اراضی کے حصول کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اسکیم 17بنائی جائے ۔وہاں گھر بنانے والے آبادکاروں کو منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ اس عمل کے دوران کچھ خاندانوں کو زبردستی وہاں سے ہٹا یا گیا،جو حکومت اور اس کے اتحادیوں کے خلاف عوامی احتجاج کی وجہ بنا۔اس نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ابھرنے کے لئے بھی راہ ہموار کی ،جن میں نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ شامل تھیں،جس کی قیادت حسین شہید سہروردی کررہے تھے۔انخلا کے معاملے کی وجہ سے جہاں سیاسی فضا گرما گئی وہاں یہ ایکشن کمیٹی کے قیام ،احتجاج اور پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کا سبب بنا اور بلوچستان میں فوجی ایکشن کی گونج سنی گئی۔اس وقت میں نیشنل عوامی پارٹی کا سردار عطا اللہ مینگل کے ساتھ ظہور ہواجو لیاری کے نوجوانوں میں مقبول تھے۔آخر کار سیاسی دباؤپر حکام لیاری منصوبہ پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئے اور اسے ملتوی کردیا گیا۔
لیاری نے آمریت کے تاریک دور میں بھی پیپلز پارٹی سے رومانیت قائم رکھی اور پیپلز پارٹی دوبارہ بھاری اکثریت سے برسراقتدار آگئی۔
عوامی لیگ نے اپنے حامی عبدالباقی بلوچ کی حمایت کی ،وہ مکران کے قانون ساز اور شعلہ بیان مقرر تھے۔عوامی لیگ نے عبدالباقی بلوچ سے کہا کہ و ہ لیاری سے حکمران جماعت کے نمائندے محمود ہارون کے خلاف الیکشن میں حصہ لیں ۔ان دنوں انتخابات بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت ہوتے تھے جوبی ڈی کونسل کہلاتا تھا ،جس کے تحت منتخب ارکان انتخابی امیدواروں کو ووٹ دیتے تھے۔ہارون فیملی کولیاری میں مقبولیت حاصل نہیں تھی مگر سیاسی جوڑ توڑ ، بااثر شخصیات سے تعلقات کے استعمال کے علاوہ اس دور کے حکمران انہیں سیاسی طور پر سب سے آگے لے آئے اور یوں محمود ہارون منتخب ہوگئے جبکہ عبدالباقی بلوچ نے انتخابی شکست کی وجہ سے سیاست میں دلچسپی کھو دی اور آہستہ آہستہ سیاسی منظر نامہ سے غائب ہوگئے۔
اس دور کے سرگرم اور تجربہ کار سیاسی کارکن کاکہنا تھا کہ ،،کراچی میں ایوب خان کے دور کی یہ پہچان تھی کہ جو کوئی بھی لوگوں کو کنٹرول کرلیتا قطع نظر کہ وہ اس کے لئے کون سا طریقہ استعمال کرتا ،لیڈر بن جاتا جبکہ وہاں لوٹ مار کا بازاربھی گرم ہوگیا تھا،،۔
“یہ ایوب خان کا بیٹا تھا جس نے لیاقت آباد کے لوگوں کو محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابات میں حمایت کرنے پر سزا دی”۔ اس نے مزید بتایا کہ” ایوب خان کے بیٹے نے اس کام کے لئے پشتون نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والے غنڈہ گرد عناصر(Hoodlums of pashtun ethnicity) کا استعمال کیا،،۔
اس دوران نوخیز طلبا تنظیم لیاری اسٹوڈنٹس فیڈریشن ،بائیں بازو کی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے مل گئی اور ان کی سرگرمیوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے راہ ہموار کی۔اور عوام میں مقبولیت کے حامل لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا ظہور ہوا۔این ایس ایف کے بہت سے ارکان نے بھی اسی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
پیپلز پارٹی کاظہوراور اس کی مقبولیت دہائیوں سے تسلیم شدہ ہے ۔بھٹو کی روشن خیال،نوجوان اور توانائی سے بھرپور شاندار قیادت نے سیاسی منظر نامہ تبدیل کردیا اور ایسے جذبوں کو جلا بخشی جو پہلے نہیں دیکھے گئے تھے۔لوگ یقین رکھتے تھے کہ پارٹی تبدیلی کی منادی ہے اور وہ آخر کار ووٹ کے ذریعہ اپنی قسمت کے آپ مالک بن سکتے ہیں۔
مگر یہ سب بھی عارضی ثابت ہوا،بھٹو کی زبردستی اقتدار سے علیحدگی اور ضیا الحق کی ظالمانہ آمریت نے شہر پر گہرے اثرات مرتب کئے۔نئی سیاسی قوتیں ابھریں اور تشدد کراچی کی سڑکوں پر عام ہوگیا ۔جس نے شہر کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کردیا لیکن لیاری نے آمریت کے تاریک دور میں بھی پیپلز پارٹی سے رومانیت قائم رکھی اور پیپلز پارٹی دوبارہ بھاری اکثریت سے برسراقتدار آگئی۔
“جب ہم 1988ء کے انتخابات کور کررہے تھے،کراچی میں سارا شہرنئے سیاسی کھلاڑی ،مہاجر قومی موومنٹ کی آمد سے متعلق سرگوشی کررہا تھا۔مگر جب ہم لیاری گئے تو وہ الگ ہی تصویر پیش کررہا تھا ،وہاں جوش آفریں ماحول تھا ۔لیاری کی سڑکوں پر پیپلز پارٹی کے بلوچی ترانے،،دلان تیر بجے،،کی تیز موسیقی کی گونج اورروایتی شیدی بے خود رقص تھا۔ڈان کے سابق ایڈیٹرسینئیر صحافی عباس ناصر نے یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اختتام نہیں تھا،آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی کے لئے جذبات میں کمی آتی گئی۔پیپلز پارٹی نے اقتدار کے دو ادوار میں لیاری کے عوام کی پریشانیاں تک دور نہیں کیں۔نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کے علاوہ ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی کے حلقہ انتخاب میں داخل ہونے کے لئے راستہ بنانے کی بے چینی سے کوشش کررہے تھے۔جس میں اب تک کسی کو کامیابی نہیں ملی تھی۔
ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے حریف گروپوں کی حمایت شروع کردی اور پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے 2002 ء میں آ نے والے انتخابات میں حلقہ کھودینے کے خوف کی وجہ سے دوسرے گروہ کی پشت پناہی شروع کردی۔
پرویز مشرف دور کا آغاز اور نئے بلدیاتی نظام کی آمد نئی تبدیلیوں کی باعث بنے جس نے لیاری کو تجارتی اہمیت کے حامل علاقوں سے محروم کردیا۔ نئے لوکل گورنمنٹ آرڈرکے تحت جو علاقے الگ ہوئے ان میں حسن لشکری گاؤں ،عثمان آباد ،پرانا حاجی کیمپ اور لی مارکیٹ کے اردگرد کے تجارتی اور رہائشی بلاکس شامل تھے۔لیاری ٹاون کی آمدنی کے تمام ذرائع لیاری سے الگ کردیئے گئے اور صدر ٹاون نے ان پر قبضہ کر لیا ۔اس دوران لیاری کے جرائم پیشہ گروپوں نے حکمران جماعت کی پشت پناہی سے پھر ابھرنا شروع کردیا۔
ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے حریف گروپوں کی حمایت شروع کردی اور پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے 2002 ء میں آ نے والے انتخابات میں حلقہ کھودینے کے خوف کی وجہ سے دوسرے گروہ کی پشت پناہی شروع کردی۔
،،پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے یہ ایک سوداتھا ، ارشد پپو اور رحمان ڈکیت کے گروہوں کے درمیان اگر لڑائی جاری رہتی تو ایم کیو ایم کو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا،،۔یہ بات پیپلز پارٹی کےپرانے کارکن نے کہی۔جب پیپلز پارٹی کی جلا وطن لیڈر شپ 2007ء میں واپس آئی تو سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوگئیں ، فضا میں بے چینی محسوس کی جاسکتی تھی۔مگر لیاری کے عوام کے لئے جو مایوس کن بات تھی وہ پیپلز پارٹی کے کچھ سیاسی رہنماوں کی موجودگی تھی ، جنہوں نے مشرف دور میں لیاری کو اس کے باسیوں کے لئے جہنم بنا دیا تھا ،ان برسوں میں آٹھ سو لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔لیاری کی سیاست دوبارہ اسی محور پر آگئی اور 1960ء کا پرانا دور لوٹ آیا۔منصور عثمانی کی مشہورنظم کے کردار،،یہ واجہ وڈیرے ،یہ غنڈے لٹیرے،،۔دوبارہ مرکزی حیثیت میں آگئے اور گینگ وار ہی عام چلن بن گیا۔ لیاری کے پرانے باشندے کافی عرصہ سے محفوظ جگہوں پر جاچکے ہیں اور وہاں علاقہ کی تقسیم بڑی حد تک برقرار ہے اس میں مختلف گروہ قابض ہیں اور علاقے کے مکین ان کے ظلم وتشدد کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔
بشکریہ۔نیوز لائن
فیس بک پر تبصرے