اقتصادی راہداری اور قومی قیادت کا امتحان
نوٹ : آپ کی رائے جامع، واضح ، با مقصد اور مختصر ہونی چاہئے۔اپنی رائے اور الفاظ کے استعمال میں انتہائی احتیاط کیجئےتاکہ کسی بھی فرد کے جذبات مجروح ہونے کا خدشہ نہ ہو ۔
سینٹ کی خصوصی کمیٹی برائے اقتصادی راہداری نے منصوبے کے مغربی روٹ سست روی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے ۔کمیٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وعدوں کے باوجود ابھی اس روٹ پر کو ئی خاص پیش رفت نہیں ہو رہی۔یقیناً یہ خوش کن پیش رفت نہیں ہے ۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اقتصادی راہداری پر اتفاق رائے کے لیے بہت محنت کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ سیاسی عمل ہی اس اتفاق کو قائم رکھ سکتا ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اتفاق کو برقرار رکھنے کے لیے مربوط اور بھر پور کوشش کریں ۔گزشتہ روز عسکری اور سیاسی قیادت کا ا جلاس جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوا۔وہاں بھی یہ مسئلہ زیربحث رہا ہے اس اجلاس کے بعد چیف آف ارمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے چینی سفیر سن وی ڈونگ سے بھی ملاقات کی جس سے معاملے کی حساسیت کااندازہ ہوتا ہے۔
اس میں شک نہیں کی چین کے لیے راہداری ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جسے وہ ون بیلٹ ون روڈ کے دیگر ممالک کو نمونے کے طور پر دکھانا چاہتا ہے۔ اس کی جلد از جلد تکمیل اس کی خواہش ہے۔اور اس لیے وہ پاکستان میں طاقت کے مراکز کی طرف دیکھتا ہے لیکن یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اقتصادی راہداری کو بڑا سیاسی مسئلہ بنے سے روکنا ضروری ہےاور سیاسی قیادت ہی یہ کام کر سکتی ہے اور اس کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائدہے ۔
چین کے ون بیلیٹ ون روڈ کا حجم بہت بڑا ہے۔جس میں60 ممالک شامل ہیں جو دنیا کی دو تہائی آبادی پر مشتمل ہیں جن کا عالمی جی ڈی پی 55 فیصد بنتا ہے اور دنیا کے توانائی کے 75 فیصد ذخیرے بھی یہی واقع ہیں۔پاکستان اس منصوبے کا چھوٹا حصہ ہے لیکن پاکستان کی اپنی اقتصادی تزویراتی کے لیے اور علاقائی سیاسی توازن میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک نگران کمیٹی بنائے جو نہ صرٖ ف سیاسی اتفاق رائے قائم رکھے بلکہ راہداری کے منصوبوں کی بھی نگرانی کرے؟چونکہ عسکری اداروں نےراہداری اور دیگرچینی منصوبوں کے لیے ایک خصوصی سکیورٹی ڈویژن بھی بنایا ہے اور اس کمیٹی میں ان کو بھی نمائندگی دی جائے کیونکہ سیکورٹی بہر حال ایک اہم پہلو ہے۔
فیس بک پر تبصرے